چولی دامن کا ساتھ

ایک عمومی اصطلاح ہے ’چولی دامن کا ساتھ‘۔ چولی کو عموماً خواتین کا پہناوا سمجھا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھنا لازم ہے کہ چولی کا دامن سے کیا تعلق۔ دراصل پہلے شرفا عموماً انگرکھا پہنتے تھے۔ اس کے اوپر کا حصہ تنگ ہوتا تھا اور اس کو چولی کہتے تھے۔ دامن یا چولی کا باقی حصہ منسلک ہوتا تھا۔ اسی لیے چولی دامن کا ساتھ ہو گیا۔ لغت کے مطابق ’’انگرکھے کے دامن کا اوپری حصہ، اوپر کے دھڑکا کپڑا۔ یعنی چولی اور دامن انگرکھے کے دو جز ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں گویا لازم و ملزوم امیر مینائی کا شعر ہے:

جنوں اب تک سنا تھا ساتھ چولی اور دامن کا
گریباں کو نکلتے دیکھ کر کیوں آستیں نکلی

یاد آیا کہ بعض لوگ ’’جیب و گریباں‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کر بیٹھتے ہیں جب کہجیب کا مطلب گریباں ہی ہے اوریہ مذکر ہے عربی کا لفظ ہے مرزا غالب کا مصرع ہے ’’ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے‘‘۔ جیب و گریباں کے بجائے جیب و دامن استعمال کرنا چاہیے۔ ویسے جیب کھیسے کو بھی کہتے ہیں جس میں لوگ رقم یا ضروری چیزیں رکھتے ہیں اور یہ کتری بھی جاتی ہے۔ یہ جیب مونث ہے اور اگر جیم بالکسر ہو یعنی ج کے نیچے زیر لگایا جائے تو یہ زبان بن جاتی ہے۔ تاہم ہندی میں یہ ’’جیبھ‘‘ ہے۔ ایک محاورہ ہے ’’جیبھ چلے ستربلا ٹلے‘‘ ایک محاورہ ہے ’’جیبھ کے تلے جیبھ ہے۔‘‘ یعنی کبھی کچھ کہنا ہے کبھی کچھ۔ یہ صفات عام طور پر سیاستدانوں میں پائی جاتی ہیں۔ جیب خاص حکمرانوں کے ذاتی خرچ کے واسطے خزانہ جیسے خزانہ عامرہ بھی کہتے ہیں۔ جیب خرچ سے تو نوجوان واقف ہی ہوں گے۔ جیب گھڑی کا اب رواج ہی نہیں رہا البتہ یہ محاورہ ہے کہ تم جیسے تو کئی میری جیب میں پڑے ہیں۔
گزشتہ دنوں جسارت کے اداریے کی سرخی ’’منہگا‘‘ پر خاصی چہ میگوئیاں ہوئیں کہ یہ کیا ہے یعنی ہائے ہوز سے پہلے نون۔ عام طور پر تو میم کے بعد ہائے ہوز اور پھر نون آتا ہے۔ سرخی کو منہگا کرنا غالباً اداریہ نویس کی طرف سے قابلیت کا اظہار تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ منہ کے تلفظ پر کوئی اعتراض نہیں کرتا کہ یہاں بھی قوہ سے پہلے ن ہے۔ (م ن ہ) رہی بات مہنگائی کی تو یہ جس طرح آسمان سے باتیں کر رہی ہے اس کا املا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم لغات میں یہ منہگا ہی ہے۔ نوراللغات میں اس کا املا منھگا ہے۔ سند کے طور پر شیخ ابراہیم ذوق کا شعر دیا ہے:

زخم دل پر کیوں مرے مرہم کا استعمال ہے
مشک گر منھگا ہے تو کیا لون کا بھی کال ہے

تا ہم صاحب لغت نے اپنے ہی املا کی مخالفت کرتے ہوئے آگے کئی بار مہنگا لکھا ہے۔ گویا مولوی نورالحسن نیر بھی یا تو الجھن میں تھے کہ منہگائی سے کیسے نمٹیں یا یہ سہوکاتب ہے جو دیگر لغات کی طرح اس میں بھی کئی جگہ موجود ہے۔ مثلاً ایک جگہ لاپروائی ہے تو دس جگہ لاپرواہی۔ اخبارات میں قارئین کی آرا شائع کرکے لکھ دیا جاتا ہے کہ مدیر کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اسی طرح شاید لغات کے کاتبوں کا صاحب لغات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ پروفیسر رئوف پاریکھ کا مشورہ ہے کہ لغات کو نئے سرے سے مرتب کرنا چاہیے۔ یہ ایک بڑا کام ہے لیکن ضروری ہے۔ انگریزی کی لغات میں تو بار بار تصحیح ہوتی رہی ہے۔ کیوں نہ قارئین ایسی اغلاط کی نشاندہی کریں اور لغت بورڈ اس پر کام کرے۔ ایک کام یہ ہو سکتا ہے کہ اردو زبان کے حوالے سے شائع ہونے والے جرائد مثلاً قومی زبان، انہیں ایک آدھ صفحہ اس کام کے لیے مختص کر دینا چاہیے کہ فلاں لغت میں یہ سہو ہوا ہے۔
منہگائی کی طرح منہدی میں بھی نون ہائے ہوز سے پہلے ہے تاہم یہ بھی عموماً مہندی لکھا جاتا ہے۔ اہل تشیّع (ی پر تشدید ہے) محرم میں حضرت قاسم کی منہدی نکالتے ہیں گو کہ عربوں میں ایسی کوئی رسم نہیں تھی بعض اہل تشیع منہدی کو مہدبمعنی گہوارہ سے بگڑا ہوا کہتے ہیں اور گہوارے سے مراد علی اصغر کا گہوارہ لیتے ہیں۔ نواب مرزا شوق اپنی مثنوی کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا شعر ہے:

منہدی چھٹتی نہ آپ گھس جاتیں
دو گھڑی کو اگر چلی آتیں

بہر حال منہگائی ہو یا منہدی اب جو املا رائج ہے اس کو تسلیم لر لینا چاہیے یعنی ن ہائے ہوز کے بعد۔ بچوں کا ایک رسالہ ساتھی کراچی سے شائع ہوتا ہے۔ اس میں بھی صحیح املا ’’منہگائی‘‘ شائع ہو رہا ہے لیکن بچوں کا اصرار ہے کہ املا درست کیا جائے۔اور

ممبئی سے ایک خط:۔

’’منیری صاحب کی عنایتوں سے اطہر صاحب کا مضمون نظر نواز ہوا، پڑھا، ماشاء اللہ حسبِ دستور خوب رہا۔
مگر آفتاب میں آفتِ آب کی توجیہ نظرثانی کی محتاج ہے، کیونکہ اگر اس توجیہ پر سرِ تسلیم خم کر دیا جائے تو ماہناب کو ماہتِ آب ماننا پڑے گا، جس کا خدا جانے کیا مطلب نکلے گا۔ جب کہ یہ تو ماہ تاب ہے یعنی تابیدن، چمکنا فارسی مصدر سے امرکا صیغہ سے تاب اور ماہ یعنی چاند۔ چمکنے والا چاند۔ آفتاب کا تاب بھی اسی چمکنے کے معنے میں ہونا چاہیے۔

معاذ ممبئی انڈیا

یہ عنایت نامہ جس میں منیری کی عنایت زیادہ ہے، ممبئی سے آیا ہے تو ہم خود سرتسلیم خم کیے دیتے ہیں گو کہ بہت سے لوگ اسے ’’سر تسلیمے خم‘‘ کہتے ہیں۔ تاہم لغات بھی ہماری تائید کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ویسے تو ہم نے آفتاب کو ازراہ تفنن آفت آب لکھ دیا تھا لیکن جناب معاذ کے علمی اعتراض پر لغت سے رجوع کیا۔ لغت کے مطابق آفتاب فارسی کا لفظ ہے اور یہ آب و تاب سے مرکب ہے یعنی پانی پر چمکنے والا۔ بعض کہتے ہیں کہ آفت آب بفک اضافت ہے اس وجہ سے کہ پانی کو بخارات کی صورت میں اڑا دیتا ہے۔ یعنی آفت آب میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ اگر آفتاب کا تاب بھی اسی چمکنے کے معنی میں ہے تو پھر ماہ کی طرح ’آف‘ بھی الگ ہونا چاہیے۔ وللہ عالم