پاکستان ریلوے…آج بھی روایتی اور فرسودہ ڈگر پر گامزن!۔

دنیا بھر میں ریل کا سفر سستا، محفوظ اور آرام دہ تصور کیا جاتا ہے، لیکن وطنِ عزیز میں ریلوے کی ترقی اور خدمات سے متعلق محض بلند بانگ سرکاری دعوے کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ ہم 21ویں صدی میں قدم رکھ چکے ہیں لیکن محکمہ ریلوے آج بھی سو ڈیڑھ سو برس قدیم نوآبادیاتی نظام کے تحت روایتی اور فرسودہ ڈگر پر گامزن ہے۔
اس کا اندازہ ہمیں حال ہی میں پاکستان ریلوے کی ایک ٹرین 43 اپ، شاہ حسین ایکسپریس کے اے سی لوئر بذریعہ آرڈر نمبر 4327345 کراچی تا لاہور سفر کرنے کے دوران ہوا۔ ٹرین کی نشستیں تو علاقے میں موجود ایک ریلوے فرنچائز کے ذریعے بآسانی مختص ہوگئی تھیں، جس کا کرایہ فی کس مبلغ 3730 روپے وصول کیا گیا، جس میں ڈیم فنڈ کے مبلغ 20روپے فی کس بھی شامل تھے۔ اگرچہ ٹرین کراچی سے بروقت روانہ ہوئی لیکن جوں جوں سفر طے ہوتا گیا محکمہ ریلوے کی کوتاہیاں اور خامیاں ہم پر پوری طرح عیاں ہوتی چلی گئیں۔ اتنے طویل سفر کے لحاظ سے ریل کی نشستوں کی گدیاں انتہائی غیر معیاری اور غیر آرام دہ تھیں۔ جب رات کا آغاز ہوا تب محکمہ ریلوے کی خدمات اور کارکردگی کی قلعی مزید کھلنا شروع ہوگئی۔ اگرچہ محکمہ ریلوے مسافروں سے منہ مانگا کرایہ تو پیشگی وصول کرلیتا ہے، لیکن مسافر ٹرین میں نہ تو پینے کے صاف پانی کا کوئی انتظام تھا، نہ بیت الخلاء میں صفائی ستھرائی تھی، اور نہ ہی اتنے طویل سفر کی مناسبت سے مسافروں کے لیے چائے، کھانا، تکیہ، کمبل، تازہ اخبار وغیرہ فراہم کیا گیا۔ تمام سفر کے دوران مسافروں کو پینے کے پانی کی بوتل کے لیے50روپے، بدمزہ اور غیر معیاری کھانے کے 160روپے فی کس، چائے کے40 روپے، غیر معیاری تکیہ کے 50روپے،کمبل کے100روپے اپنی جیب سے ادا کرنے پڑے۔
جبکہ سنا ہے کہ پڑوسی ملک میں ٹرین کا سفر سستا، باسہولت اور مسافر دوست ہے، جہاں دورانِ سفر مسافروں کے آرام اور سہولیات کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے۔ انہیں دورانِ سفر بلامعاوضہ چائے، کافی، تکیہ، چادر، کمبل، صبح کا تازہ اخبار، حسب منشاء کھانے، ناشتا اور ظہرانہ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس ٹرین میں18گھنٹے کے طویل سفر کے دوران خصوصاً رات بھر پھیری والے بوگی کی تنگ سی راہداری میں بار بار آتے جاتے اور پانی، چائے اور کولڈڈرنک کی بلند آہنگ صدائیں لگاتے رہے، جس کے باعث مسافروں کی نیند میں بار بار خلل پڑتا تھا۔ لگتا ہے محکمہ ریلوے نے پوری ٹرین کے سیکڑوں مسافروں کو منافع خور ٹھیکیداروں کے رحم وکرم پر چھوڑا ہوا ہے۔
اتنی بڑی ٹرین میں دورانِ سفر آنے والے مختلف مقامات، ٹرین کی رفتار، فاصلوں، راہ میں بار بار ٹرین رکنے کی وجوہات اور مسافروں کو ان کی منزلِ مقصود سے متعلق آگہی اور دیگر ضروری معلومات کی فراہمی کے لیے کسی قسم کا پبلک ایڈریس سسٹم تک موجود نہیں۔ اسی طرح خدانخواستہ دورانِ سفر کسی مسافر کی طبیعت کی اچانک خرابی یا چوٹ لگ جانے کی صورت میں کسی قسم کی ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کا سرے سے کوئی انتظام ہی نہیں۔ ہماری رائے میں ہر مسافر ٹرین میں دورانِ سفر مسافروں کو طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے کم از کم ایک مرد اور ایک خاتون ڈاکٹر مقرر کرنا چاہیے۔
اسی طرح ہم نے لاہور سے کراچی واپسی کے لیے مزید سفری سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ ریلوے کی ایک اور بہتر سمجھی جانے والی ٹرین6DNگرین لائن کے ذریعے سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے لاہور میں واقع ریلوے ہیڈ کوارٹرز جاکر بذریعہ کمپیوٹر نمبر324428310859اپنے لیے دو عدد نشستیں مختص کرائیں۔ اس ٹرین کے ٹکٹ کی فی کس قیمت5,740 روپے تھی۔ سوچا تھا کہ ٹکٹ کی قیمت کے لحاظ سے اس ٹرین میں مسافروں کے لیے ہر بنیادی سہولت میسر ہوگی۔ لیکن ہمیں یہ فیصلہ بھی راس نہ آیا۔ اوّل یہ کہ ٹرین فنی وجوہ کی بناء پر لاہور ریلوے اسٹیشن سے ہی تقریباً ایک گھنٹہ تاخیر سے روانہ ہوئی۔ پورے راستے ٹرین رینگ رینگ کر چلتی رہی، حالانکہ اس کی ہر بوگی پر ٹرین کی رفتار 160کلومیٹر فی گھنٹہ تحریر تھی۔ اس ٹرین میں بھی دورانِ سفر مسافروں کو پینے کے پانی، چائے، ناشتا،کھانا، تکیہ اور کمبل کی سہولت کے لیے ٹھیکیداروں کے ملازمین کو نقد اور پیشگی ادائیگی کرنا پڑی۔ اس ٹرین میں بھی پھیری والے دن بھر اور رات بھر صدائیں لگاتے ہوئے اپنی غیر معیاری اور مہنگی اشیاء فروخت کرتے رہے۔ پھیری والوں کے بار بار ٹرین کی تنگ راہداری سے گزرنے کے باعث مسافروں خصوصاً بزرگوں اور خواتین کو بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں دورانِ سفر گرین لائن ٹرین اور شاہ حسین ایکسپریس کی خدمات، کارکردگی اور سہولیات میں کوئی واضح فرق محسوس نہ ہوا۔ حالانکہ دونوں کے کرائے میں تقریباً دو ہزار روپے کا واضح فرق تھا۔ ٹرین کی سست روی کے باعث مسافر بیٹھے بیٹھے بیزار ہوگئے تھے۔ اگرچہ مقررہ نظام الاوقات کے مطابق اس ٹرین کو تقریباً18 گھنٹوں میں اپنی منزلِ مقصود کراچی پہنچنا تھا، لیکن اللہ اللہ کرکے یہ سست رفتار ٹرین تقریباً 25گھنٹوں میںکراچی پہنچی تو مسافروں نے سُکھ کا سانس لیا۔ ٹرین کے سفر کے دوران ہمارا یہ مشاہدہ رہا کہ اس خطے میں ریلوے نظام کے قیام کو150برس گزر جانے اور آزادی کے 70 برس بعد بھی محکمہ ریلوے کا پورا کا پورا ڈھانچہ آج بھی قدیم طرز کے نوآبادیاتی طریق کار پر استوار ہے۔ وہی صدی ڈیڑھ صدی پرانی ریلوے اسٹیشنوں کی عمارات، اسٹیشن ماسٹر، ویٹنگ روم، ریل کے ڈبے، قلی، ٹکٹ چیکر، گینگ مین، کانٹے والا اور ریلوے پولیس، بلا وردی اور شناختی نشان کے بجائے میلے کچیلے شلوار قمیص زیب تن کیے اہلکاروں پر مشتمل محکمہ ریلوے آج دورِ جدیدکے تقاضوں کے لحاظ سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
تبدیلی کے نصب العین پر برسراقتدار آنے والی موجودہ حکومت اگر محکمہ ریلوے کو سو ڈیڑھ سو برس قدیم روایتی اور فرسودہ نظام سے نجات دلاکر جدید اصلاحات نافذ کردے تو یہ اس حکومت کی ایک اہم کامیابی ہوگی۔
اسرار ایوبی…فیڈرل بی ایریا،کراچی