ایک دفعہ ہارون (809-786ء) کی زوجہ زبیدہ نے ہارون سے شکایت کی کہ تم مامون کا زیادہ خیال رکھتے ہو، امین کی پروا نہیں کرتے۔ کہا: امین کم عقل ہے، اگر یقین نہ آئے تو دونوں کو ایک خفیہ قاصد بھیج کر پوچھو کہ اگر کل تم خلیفہ بن گئے تو مجھ سے کیا سلوک کرو گے؟ زبیدہ نے ایسا ہی کیا۔ امین نے کہا کہ میں آپ کو زر و جواہرات سے بھر دوں گا، اور مامون نے لکھا: ’’ماں! یہ کیا کہہ رہی ہو! امیر المؤمنین کی موت قیامت سے کم نہیں ہوگی، اس روز آنکھیں پتھرا جائیں گی اور کلیجے منہ کو آجائیں گے، کیا تم اس مصیبتِ کبریٰ کو عید سمجھ کر مجھ سے انعام مانگ رہی ہو!‘‘
زبیدہ نے خط پڑھ کر کہا: گو مامون عمر میں چھوٹا ہے لیکن عقل و فہم میں امین سے کہیں بڑا ہے، اور شاید امین دیر تک خلفیہ نہ رہ سکے۔ زبیدہ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح نکلی اور صرف چار برس کے بعد امین سے خلافت چھن گئی۔
اندھے لڑکے کی کہانی
بینائی سے محروم ایک لڑکا فٹ پاتھ پر بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا۔ اس کے سامنے ٹوپی تھی اور ساتھ کاغذ پر لکھ رکھا تھا: ’’میں نابینا ہوں، براہ مہربانی میری مدد کیجیے‘‘۔ جو بھی راہ گیر گزرتا، ٹوپی میں ایک آدھ سکہ ڈال دیتا۔ کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود کچھ زیادہ پیسے جمع نہیں ہوئے تھے۔ اتفاق سے ایک سمجھ دار آدمی کا اس طرف سے گزر ہوا۔ اس نے چند روپے جیب سے نکالے، انہیں ٹوپی میں رکھا، کاغذ کو اُلٹا کرکے اس پر کچھ لکھا اور اسے اس طرح نمایاں کرکے رکھ دیا کہ راہ گیر پڑھ سکیں۔ جلد ہی لڑکے کی ٹوپی پیسوں سے بھر گئی۔ پچھلے پہر وہی سمجھ دار آدمی یہ دیکھنے کے لیے کہ لڑکے کی کیا صورت حال ہے، اُس کی طرف گیا، آدمی کی آواز پہچان کر لڑکے نے پوچھا کہ آیا آپ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے صبح کاغذ پر لکھی عبارت کو تبدیل کیا تھا؟ مرد نے جواب دیا: ہاں! میں ہی تھا۔
’’آپ نے کاغذ پر کیا لکھا تھا؟‘‘ لڑکے نے پوچھا۔
’’بس، تمہارے الفاظ کو دوسرے انداز میں بیان کیا تھا: ’’آج کا دن بہت خوبصورت ہے، لیکن میں اسے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
دونوں اعلانات میں یہ اطلاع تھی کہ لڑکا نابینا ہے۔ لڑکے کے اعلان میں کہا گیا تھا: میں دیکھ نہیں سکتا۔ لیکن دوسرے بیان میں لوگوں کو متوجہ کیا گیا تھا کہ وہ کس قدر خوش قسمت ہیں، وہ دیکھ سکتے ہیں، میں نہیں دیکھ سکتا۔ کیا ہمیں اس پر حیران ہونا چاہیے کہ دوسرا بیان کیوں زیادہ مؤثر تھا؟
کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ بات کہنے کا ایک ڈھنگ ہوتا ہے۔ ہر مشکل کو ماتم کا رنگ دینا مناسب نہیں ہے، معذوری مجبوری نہیں بننی چاہیے۔ ہمیں مثبت انداز سے سوچنا چاہیے۔ نئے انداز اور تخلیقی طور طریقوں سے کام لینا چاہیے۔ ہمارے پاس اگر 100اسباب رونے دھونے کو ہیں تو یقیناً 100باتیں ایسی بھی ہوں گی جو ہمارے لیے خوشی کا باعث بن سکتی ہیں۔ ہمیشہ زندگی کے روشن پہلو پر نگاہ رکھیں۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر ہر دم شکر بجا لاتے رہیں اور پُرامید سوچ کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ آپ کبھی ناکام نہیں ہوں گے۔
(بشکریہ: اقدارِ ملت)
فلسفہ
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غوّاص کو مطلب ہے صدّف سے کہ گُہر سے!
پیدا ہے فقط حلقۂ اربابِ جنوں میں
وہ عقل کہ پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے
جس معنی پیچیدہ کی تصدیق کرے دل
قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تابندہ گُہر سے
یا مُردہ ہے یا نَزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
الفاظ کے پیچ: لفظوں کا جال، لفظوں کا الجھائو۔غواص: غوطہ لگانے والا (جو موتی نکالنے کے لیے غوطہ لگاتا ہے)۔صدف: سیپی۔گہر: موتی۔حلقہ اربابِ جنوں: عشق میں غرق لوگوں کا حلقہ/ محفل۔تابندہ گوہر: چمکدار موتی۔خونِ جگر: عشق کے جذبوں سے، جہاد سے۔
بیوی اور خاوند
ایک آدمی نے ایک خوبصورت لڑکی سے شادی کی۔ وہ اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ کچھ عرصے بعد لڑکی کو جِلد کی بیماری لاحق ہوگئی اور آہستہ آہستہ اس کی خوبصورتی زائل ہونا شروع ہوگئی۔ پھر ایسا ہوا کہ اس کا خاوند کسی ٹور پر گیا اور ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگیا۔ اپنی بیوی کو اس نے بتایا کہ وہ اندھا ہوگیا ہے۔ وہ اس کی مزید خدمت کرنے لگی۔ اس کے باوجود ان کی ازدواجی زندگی معمول کے مطابق جاری رہی۔
وقت گزرنے کے ساتھ اس کی بیوی کی خوبصورتی بیماری کے باعث ختم ہوتی چلی گئی۔ بظاہر نابینا خاوند اس بات سے بخوبی آگاہ تھا مگر وہ اپنی بیوی سے پہلے ہی کی طرح محبت کرتا تھا، اور بیوی بھی پہلے کی طرح محبت کرتی تھی۔ ایک دن بیوی کی موت واقع ہوگئی۔ خاوند کو اس کی موت کا سخت دکھ پہنچا۔ اس نے تدفین کی رسومات ادا کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ اب اس شہر میں نہیں رہے گا۔ جب وہ جارہا تھا تو ایک آدمی اُس کے پیچھے آیا اور اسے آواز دے کے کہا: ’’اب تم تنہا کیسے زندگی گزار سکو گے؟ ان تمام دنوں میں تمہاری بیوی تمہارا ساتھ دیتی رہی تھی۔‘‘ اس نے جواب دیا: ’’میں نابینا نہیں ہوں۔ میں نابینا ہونے کی ایکٹنگ کررہا تھا۔ اگر میری بیوی کو معلوم ہوتا کہ میں اس کی بیماری کے باعث اس کی خراب جلد کو دیکھ سکتا ہوں، تو اسے اپنی بیماری سے زیادہ دکھ ہوتا۔ میں نے صرف خوبصورتی کے لیے اس سے شادی نہیں کی تھی، میں اس کی نیک اور دیکھ بھال کرنے والی فطرت کے باعث محبت کرتا تھا۔ سو میں نے نابینا ہونے کا بہانہ کیا۔ میں اسے خوش رکھنا چاہتا تھا۔‘‘
(بشکریہ: اقدارِ ملت)