پیشکش:ابوسعدی
ماضی میں طبی تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ دن کا آغاز ناشتے سے کرنا دن بھر کھانے کی اشتہا کی روک تھام کرتا ہے جس سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔ مگر برٹش میڈیکل جرنل میں شائع تحقیق میں کہا گیا کہ ’’دن کی سب سے اہم غذا‘‘ ممکنہ طور پر جسمانی وزن کنٹرول کرنے میں لوگوں کی مدد نہیں کرسکتی۔ محققین نے دریافت کیا کہ ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں جو اس خیال کو سپورٹ کرتے ہوں کہ ناشتا کرنا جسمانی وزن میں کمی لاتا ہے، یا ناشتا نہ کرنا موٹاپے کا باعث بن سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق جو لوگ ناشتا کرتے ہیں وہ دن بھر میں زیادہ کیلوریز جزوِ بدن بناتے ہیں، جبکہ ناشتا نہ کرنے سے دن کے دیگر اوقات میں کھانے کی زیادہ خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ مگر نئی تحقیق کے محققین کا کہنا تھا کہ یہ نتائج مشاہداتی ہیں اور ممکنہ طور پر انفرادی طور پر لوگوں کے صحت مند طرزِ زندگی اور غذائی انتخاب کی عکاسی کرتے ہیں۔ آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کی تحقیق میں ناشتا کرنے والے افراد کے وزن میں آنے والی تبدیلی کا جائزہ لیا گیا۔
مرغیوں سے ادویاتی انڈوں کے حصول میں پیش رفت
برطانوی ماہرین نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مرغیوں سے ایسے انڈے حاصل کرنے میں کامیابی کا دعویٰ کیا ہے جن میں دو عدد پروٹین موجود ہیں جو ہمیں کئی امراض سے بچاسکتے ہیں۔ عام طور پر ادویاتی پروٹین حاصل کرنے کے لیے جو طریقہ رائج ہے وہ بہت مہنگا اور گمبھیر ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ایڈنبرا کے روزلِن انسٹی ٹیوٹ میں مرغیوں کو جینیاتی تبدیلی سے گزارا گیا اور اب وہ ایسے انڈے دے رہی ہیں جن میں اینٹی وائرل اور اینٹی کینسر اثرات والا IFNalpha2a اور میکروفیج سی ایس ایف پروٹین پایا جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسے انڈوں کی سفیدی سے پروٹین نکالنے کا طریقہ بہت سادہ ہے، ورنہ دیگر طریقوں میں یہ بہت وقت طلب عمل ہوتا ہے۔ مرغیاں عام انداز سے انڈے دیتی ہیں جبکہ صرف تین انڈوں کی سفیدی سے بھی پروٹین کی خاطرخواہ مقدار حاصل کی جاسکتی ہے۔ قبل ازیں ماہرین جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بکریوں، خرگوشوں اور خنزیروں سے انسانی ضرورت کے معالجاتی پروٹین حاصل کرتے رہے ہیں، تاہم مرغیوں والا طریقہ ان میں سب سے مؤثر اور سادہ ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کی سینئر سائنس دان پروفیسر ہیلن سینگ نے بتایا کہ ابھی مرغیوں کے پروٹین سے براہِ راست دوا تو نہیں بنائی گئی لیکن تجارتی پیمانے پر ان سے جلد ہی پروٹین کا حصول ممکن ہوجائے گا۔
خیال کو آواز میں بدلنے والے نظام میں غیرمعمولی کامیابی
ماہرین نے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے جو کسی بھی شخص کی سماعت تک پہنچنے والے الفاظ کو آواز کی صورت میں ظاہر کرتا ہے اور اُن لوگوں کے لیے ایک تحفہ ثابت ہوسکتا ہے جو کسی بھی طرح بولنے سے قاصر ہیں۔کولمبیا یونیورسٹی میں واقع زکرمین سینٹر کے ماہرین نے عارضی طور پر کچھ لوگوں کے دماغ میں حساس پیوند لگائے اور ان الفاظ کو مشینی یا روبوٹک آوازوں میں تبدیل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ فی الحال یہ دماغ تک پہنچنے والے سادہ ترین الفاظ کو ہی پڑھ کر سنا سکتا ہے، لیکن بہت جلد یہ پیچیدہ الفاظ اور گفتگو کو بھی آواز کے سانچے میں ڈھال سکے گا اور پیوند کو مزید چھوٹا کرکے اسے مستقل دماغ میں لگایا جاسکے گا۔ اس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ مریض جو بھی سوچے گا اُس کی روداد بھی کمپیوٹر سنا سکے گا۔ اس طرح فالج اور دیگر حادثات میں اپنی آواز کھودینے والے افراد کو ان کی آواز مل سکے گی۔ اس کے لیے ماہرین نے بہت عرق ریزی سے دماغ کے وہ علاقے دریافت کیے ہیں جو برقی جھماکوں کی صورت میں سننے والے الفاظ کا پتا دیتے ہیں۔ لیکن پہلے اس کے لیے مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئرز کو تربیت سے گزارا گیا ہے۔ اس پر کام کرنے والی خاتون سائنس دان پروفیسر نیما میسگرانی کہتی ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ایجاد سے گویائی سے محروم افراد دوبارہ اپنے اہلِ خانہ سے بات کرسکیں۔ تاہم اب وہ دماغ یا الفاظ پڑھنے والے الیکٹروڈ براہِ راست دماغ کے اندر لگانے پر مسلسل محنت کررہی ہیں۔ ابتدا میں انہیں عارضی طور پر دماغ میں نصب کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں پانچ افراد کو الیکٹروڈ لگائے گئے اور کئی دن تک ان کے سامنے الفاظ اور جملے بولے گئے جس سے سافٹ ویئر کی تربیت ہوتی چلی گئی۔ پھر مصنوعی ذہانت کی بدولت اس میں مزید بہتری پیدا ہوئی۔ اس دوران ایف ایم آر آئی سے بھی مدد لی گئی۔