ایک بوڑھے اور نابینا باپ نے لاہور کے مجسٹریٹ کی عدالت میں فریاد کی ہے کہ اس کے دو جوان بیٹوں نے پہلے اسے تیزاب پھینک کر اندھا کیا اور اب اس کی جان لینا چاہتے ہیں۔ نور محمد نے عدالت کو بتایا کہ اس کی بیوی ان لڑکوں کے بچپن میں ہی مر گئی تھی اور اس نے اپنے بیٹوں عبدالحمید اور دستگیر کی پرورش ماں اور باپ بن کر کی۔ جب یہ جوان ہوگئے تو اپنی جائداد کا بڑا حصہ ان میں تقسیم کردیا اور ان کی شادی بھی کرادی۔ میں نے اپنے لیے دس مرلے کا ایک مکان اور کچھ جائداد رکھ لی۔ مکان میں میری رہائش ہے۔ میرے بیٹوں نے مکان اپنے نام کرنے کے لیے کہا۔ انکار پر انہوں نے سوتے میں میرے اوپر تیزاب پھینک دیا، اس سے میری بینائی جاتی رہی۔ مگر میں نے پولیس کو اطلاع نہیں دی کہ یہ میرا ہی خون ہے۔ کچھ دنوں بعد بیٹوں نے مجھے پکڑ کر مارا پیٹا اور زبردستی مکان کے کاغذات پر انگوٹھے لگوا لیے اور اس کی فروخت کی بات چیت کرلی۔ لیکن میں نے مکان خالی کرنے سے انکار کیا ہے، اب وہ مجھے قتل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ عدالت نے دونوں بیٹوں کو طلب کرلیا ہے۔ یہ ایک بظاہر ناقابلِ یقین بات ہے کہ جائداد کی خاطر اولاد اس طرح دشمن بن جائے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں جائداد کے جھگڑے عام ہیں، اور اس کے لالچ میں بھائی ہو یا بہن، سارے رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔
پنجاب کے ایک قصبے پھالیہ کی خبر ہے کہ زمین کے جھگڑے پر سفاک بھائیوں نے اپنے ایک حقیقی بھائی کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے اور بھاوج کی آنکھیں نکال دیں۔ عورت منظوراں کی آنکھوں میں سوئے مارے گئے اور بھائی عبدالمناف کے دونوں ہاتھ کاٹنے کے بعد اسے درخت سے اُلٹا لٹکا دیا گیا۔
لاہور کی ایک اور خبر ہے کہ ایک لڑکی نے مینارِ پاکستان سے چھلانگ لگادی۔ اس کی ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ پسلیوں پر بھی چوٹیں آئی ہیں۔ لڑکی جمیلہ نے بتایا کہ اس کے بھائی اور بہنوئی اس کے حصے کی جائداد سے اسے محروم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے وہ اس پر طرح طرح کے الزامات لگاتے تھے اور اکثر جسمانی تشدد کرتے تھے۔ اس لیے تنگ آکر میں نے زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین جائداد کے لالچ کی وجہ سے انسان میں ایسی درندگی پیدا ہوجاتی ہے کہ نہ بھائی کا خیال رہتا ہے، نہ بہن کا، نہ ماں باپ کا۔
زیادہ تر جھگڑے دیہی معاشرے میں ہیں، جہاں زر، زن اور زمین کی خاطر قتل عام ہے۔ اس لیے اگر بیٹے ایک مکان کی خاطر باپ کے دشمن بن گئے ہیں تو اس میں حیرت کی بات نہیں۔ جب انسان دولت کی خاطر اپنی انسانیت کھودے تو کسی رشتے کا احترام نہیں رہتا۔ اگر آپ کچہریوں میں مقدمہ لڑتے ہوئے لوگوں کو دیکھیں تو ایسے لوگ نظر آسکتے ہیں جو ایک معمولی قطعہ زمین کے لیے سالہا سال سے ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ دیہی اور جاگیردارانہ معاشرے میں جائداد پر جھگڑے بہت ہوتے ہیں۔ بالعموم بھائی بہنوں کا حصہ نہیں دیتے، اور ایسے واقعات بھی ہیں کہ اس خطرے کے پیش نظر بہن کی شادی نہیں کی جاتی کہ جائداد کا کوئی حصے دار پیدا ہوجائے گا۔ ملکیت کے تنازعات شہری لوگوں کے خاندانوں اور گھرانوں میں بھی ہیں۔ لیکن ان تنازعات سے زیادہ جو بات عام ہے وہ یہ ہے کہ اولاد جوان ہونے اور کمانے کے قابل ہونے کے بعد اپنے طرزِعمل سے ماں باپ کو دُکھ پہنچاتی رہتی ہے۔ انہیں گھر میں ناکارہ اور غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔ بیوی بچوں کی دل جوئی کا تو خیال رہتا ہے لیکن بوڑھے والدین کی طرف دھیان نہیں جاتا۔ کاش ایسے لوگ یہ سمجھ سکیں کہ ان کی پرورش کے لیے ماں باپ نے کیا کچھ دُکھ جھیلے ہیں۔ خاص طور پر ماں، کہ اگر اللہ نے اس کے دل میں ممتا کا جذبہ نہ رکھا ہوتا تو وہ بچے کی پرورش کے لیے راتوں کی نیند حرام نہیں کرسکتی تھی۔ یہ ماں کا ہی کلیجہ ہے کہ وہ ہزار مصیبتیں سہہ کر بچے کو پالتی ہے اور باپ بے چارہ بھی اپنے بچوں کی پرورش کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا! اس کے بعد اگر یہی اولاد ماں باپ کے لیے دُکھ کا باعث بنے تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی! یقیناً مرد کا دل بیوی کی طرف زیادہ مائل رہتا ہے، یہ قدرتی بات ہے، اور قدرت نے یہ بات اس لیے رکھی ہے کہ گھرانے کی بنیاد مضبوط رہے۔ مگر اس بات سے جھگڑے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ جائداد کے معاملے میں جھگڑے کم ہیں، لیکن اس جھگڑے سے کم و بیش ہر گھرانے کو سابقہ رہتا ہے کہ والدین سمجھتے ہیں لڑکا بیوی کا ہوکر رہ گیا ہے، اور بیوی سمجھتی ہے کہ اس کے ساس سسر خوامخواہ ہم میاں بیوی کے معاملات میں حائل ہورہے ہیں۔ پہلے تو ماں باپ کی عزت و احترام کا ایک تصور تھا۔ اس کی وجہ سے مرد اپنا غصہ بیوی پر ہی اُتارتے تھے اور بعد میں اسے منا بھی لیتے تھے، لیکن والدین کی ظاہری عزت و احترام میں کمی نہیں آنے دیتے تھے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے اور بیٹے ڈپلومیسی نہیں برتتے۔ صاف صاف ماں باپ سے کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہمارے پیچھے پڑے ہو۔ اگر زبان سے یہ نہ کہیں تو بھی طرزِعمل سے اسی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے گھرانوں میں کشمکش مادی یا معاشی نہیں ہے، نفسیاتی ہے۔ اور یہ کشمکش جب بڑھتی ہے تو علیحدگی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ اور علیحدگی کا ایک سبب عورت کی یہ فطری خواہش بھی ہے کہ اس کا اپنا ایک الگ گھر ہو جس میں اس کی حکمرانی اور سلطنت رہے۔ عورت کی اس خواہش کا احترام ہونا چاہیے۔ لیکن بوڑھے والدین کو اس سبب سے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ان کا بڑا حق ہے۔ ایک آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ والدین کا حق ان کی اولاد پر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہاری جنت اور جہنم ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اُس نے کہا: میں نے اپنی ماں کو جو چل پھر نہیں سکتی تھی، اپنی پیٹھ پر بٹھا کر حج کرایا، بیت اللہ کا طواف کیا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، اسے لے کر عرفات گیا، مزدلفہ آیا، منیٰ میں کنکری ماری، تو کیا میں نے ماں کا حق ادا کردیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اس کا حق اب بھی ادا نہیں ہوا، اس لیے کہ اس نے تمہارے بچپن میں تمہارے لیے ساری مصیبتیں جھیلیں، اس تمنا کے ساتھ کہ تم زندہ رہو، اور تم نے جو کچھ کیا وہ اس لیے کیا کہ تم کو معلوم ہے یہ مرنے والی ہے۔ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ جہاد کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تم اپنی بوڑھی ماں کی خدمت میں لگے رہو، تمہاری جنت تمہاری ماں کے قدموں میں ہے۔
ماں باپ کا حق اولاد پر ان کی زندگی کے بعد بھی رہتا ہے کہ وہ ان کے لیے دُعا استغفار کرتے رہیں، اس کے لیے خاص تاکید ہے۔ بلکہ یہ بھی تاکید ہے کہ ماں باپ کے دوستوں اور ملنے والوں سے بھی احترام و تعظیم کے ساتھ پیش آئو۔
ماں باپ کا احترام، ان کی خدمت ہماری ایک مستقل معاشرتی قدر ہے، اس کو ہر قیمت پر برقرار رہنا چاہیے۔ اگرچہ اس کے لیے جوان اولاد کو دل پر کچھ جبر اور کچھ ایثار کرنا ہوتا ہے، لیکن اس قدر کو معاشرے میں زندہ رہنا چاہیے۔ ورنہ یہ ختم ہوجائے تو نتیجہ یہی ہوگا کہ والدین بیٹوں کے خلاف کچہری سے انصاف طلب کریں گے اور بیٹے والدین کی جان کے درپے ہوجائیں گے۔ کیونکہ رشتے اقدار کی بنیاد پر ہی قائم رہتے ہیں۔ اقدار تہ وبالا ہوجائیں تو رشتے بھی ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور معاشرہ نفسانفسی کی کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ ابھی یہ بات ہمارے معاشرے میں نہیں پیدا ہوئی ہے، لیکن معاشرتی اقدار کے لیے خطرہ ضرور لاحق ہوگیا ہے۔