نماز کے فوائد

رشد و ہدایت
رشد و ہدایت

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو جس کی بھلائی منظور ہوتی ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں، اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اور یہ امت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گی، دشمنوں سے اس کو کچھ نقصان نہ پہنچے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آجائے گا۔ (عن معاویہ رضی اللہ عنہ)

واستعینوا بالصبر والصلٰوۃ (البقرہ:2:45) ’’صبر اور نماز سے مدد لو۔‘‘
یعنی اگر تمہیں نیکی کے راستے پر چلنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے تو اس دشواری کا علاج صبر اور نماز ہے، ان دو چیزوں سے تمہیں وہ طاقت ملے گی جس سے یہ راہ آسان ہوجائے گی۔
صبر کے لغوی معنیٰ روکنے اور باندھنے کے ہیں، اور اس سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی، عزم کی وہ پختگی اور خواہشاتِ نفس کا وہ انضباط ہے، جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا چلا جائے۔ ارشادِ الٰہی کا مدعا یہ ہے کہ اس اخلاقی صفت کو اپنے اندر پرورش کرو اور اس کو باہر سے طاقت پہنچانے کے لیے نماز کی پابندی کرو۔
(’’تفہیم القرآن‘‘، اوّل۔ ص73۔74، البقرہ، حاشیہ 60)
استقامت کا ذریعہ
’’پس اے نبیؐ! جس چیز کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے اسے ہانکنے پکارے کہہ دو، اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو۔ تمہاری طرف سے ہم اُن مذاق اڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی خدا قرار دیتے ہیں۔ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان سے تمہارے دل کو سخت کوفت ہوتی ہے۔ (اس کا علاج یہ ہے کہ) اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اس کی جناب میں سجدہ بجا لائو، اور اس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے۔‘‘ (الحجر99۔95-15)
یعنی تبلیغِ حق اور دعوتِ اصلاح کی کوششوں میں جن تکلیفوں اور مصیبتوں سے تم کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے کی طاقت اگر تمہیں مل سکتی ہے تو صرف نماز اور بندگیِ رب پر استقامت سے مل سکتی ہے۔ یہی چیز تمہیں تسلی بھی دے گی، تم میں صبر بھی پیدا کرے گی، تمہارا حوصلہ بھی بڑھائے گی اور تم کو اس قابل بھی بنادے گی کہ دنیا بھر کی گالیوں اور مذمتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں اس خدمت پر ڈٹے رہو جس کی انجام دہی میں تمہارے رب کی رضا ہے۔
(’’تفہیم القرآن‘‘، دوم۔ ص519، الحجر، حاشیہ 53)
مشکلات میں تسلی
]ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے جب سورۂ بنی اسرائیل نازل ہوئی تھی[ اس وقت نبیؐ کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے12 سال گزر چکے تھے۔ آپؐ کے مخالفین آپؐ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کرچکے تھے۔
]اس سورت میں[ نبیؐ کو ہدایت کی گئی ہے کہ مشکلات کے اس طوفان میں مضبوطی کے ساتھ اپنے مؤقف پر جمے رہیں اور کفر کے ساتھ مصالحت کا خیال تک نہ کریں۔ نیز مسلمانوں کو، جو کبھی کبھار کفار کے ظلم و ستم اور ان کی کج بحثیوں، اور ان کے طوفانِ کذب وافترا پر بے ساختہ جھنجھلا اُٹھتے تھے، تلقین کی گئی ہے کہ پورے صبر و سکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہیں اور تبلیغ و اصلاح کے کام میں اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ اس سلسلے میں اصلاحِ نفس اور تزکیہ نفس کے لیے ان کو نماز کا نسخہ بتایا گیا ہے، کہ یہ وہ چیز ہے جو تم کو ان صفاتِ عالیہ سے متصف کرے گی جن سے راہِ حق کے مجاہدوں کو آراستہ ہونا چاہیے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب پنج وقتہ نماز پابندیِ اوقات کے ساتھ مسلمانوں پر فرض کی گئی۔
(تفہیم القرآن، دوم۔ ص586۔587۔بنی اسرائیل، موضوع اور مضمون)
تحمل و برداشت
’’ پس اے محمدؐ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، شاید کہ تم راضی ہو جائو۔‘‘(طٰہٰ130:20)
]پہلے ان قوموں کا ذکر ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ یہاں فرمایا جارہا ہے کہ[ چونکہ اللہ تعالیٰ ان کو ابھی ہلاک نہیں کرنا چاہتا، اور ان کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر کرچکا ہے، اس لیے اُس کی دی ہوئی اس مہلت کے دوران میں جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کریں اُس کو تمہیں برداشت کرنا ہوگا اور صبر کے ساتھ اُن کی تمام تلخ و ترش باتیں سنتے ہوئے اپنا فریضۂ تبلیغ و تذکیر انجام دینا پڑے گا۔ اس تحمل و برداشت اور اس صبر کی طاقت تمہیں نماز سے ملے گی جس کو تمہیں ان اوقات میں پابندی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔
(’’تفہیم القرآن‘‘، سوم۔ ص138۔ طٰہٰ، حاشیہ 111)