افغانستان کے صدر اشرف غنی نے حکومت کے خلاف برسرپیکار طالبان کوحکومت سے براہِ راست امن مذاکرات کے لیے دعوت دے دی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو امن مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے پاس دو ہی راستے بچے ہیں، یا تو افغان عوام کا ساتھ دیں یا پھر دوسرے ممالک کے ہاتھوں استعمال ہوں۔ اشرف غنی نے مزید کہا کہ حکومت قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں40 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے، اور یہی خواہش افغان عوام کی بھی ہے۔ حکومت جنگ کے خاتمے اور ملک کی ترقی کے لیے پُرعزم ہے۔ غیرملکی افواج کی افغانستان سے واپسی کے حوالے سے افغان صدر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ملک ہمیشہ کے لیے دوسرے ملک کی فوج کی مدد نہیں چاہتا، لیکن موجودہ صورتِ حال میں افغانستان کے لیے غیر ملکی فوجوں کی موجودگی ضروری ہے۔
واضح رہے کہ افغان صدر کی امن مذاکرات کی پیشکش، بلکہ خواہش کہا ، اُس وقت سامنے آئی ہے جب قطر میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل تیزی سے اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ طالبان نے کسی بھی ایسے مذاکرات سے انکار کردیا تھا جس میں کابل حکومت شامل ہو، اور ابوظہبی میں ہونے والے پہلے مذاکراتی دور میں افغان نمائندوں کی موجودگی کے باوجود طالبان نے ان کو مذاکرات میں شامل کرنے سے انکار کردیا تھا، جس پر یہ وفد اسی ہوٹل میں تو موجود رہا تھا لیکن مذاکرات کے عمل میں شریک نہیں ہوسکا تھا۔
دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے طالبان امریکہ مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیورنڈ لائن اب مُردہ ایشو ہے، رواں سال کے آخر تک پاک افغان سرحد پرآہنی باڑ لگانے کاکام مکمل ہوجائے گا، پاک افغان سرحد پر آہنی باڑ دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گی، سرحد پار دہشت گردی کے الزامات ختم ہوجائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں حالات خراب ہوئے تو آہنی باڑ کے باعث پاکستان پر دبائو نہیں آئے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ افغانستا ن میں امن قائم ہوتا ہے تو پاکستان کے لیے فائدہ ہے، اور ہماری خواہش ہے کہ افغانسان میں امن کوششیں کامیاب ہوں، کیونکہ جب ہمسایہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو تو اس کا اثر ضرور پڑتا ہے، افغان طالبان سیاسی عمل کا حصہ بن کر حکومت میں آئیں تو استحکام آئے گا، اس طرح داعش اور تحریک طالبان پاکستان کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جہاں جہاں باڑ لگ چکی ہے وہاں سے دہشت گردوں کا گزرنا ناممکن ہوگیا ہے، اب بارڈر کو کراس کرنا مشکل ہوگیا ہے، بارڈر سینسنگ نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد حملہ آور ہوتے تھے اور آرمی چیف کا خیال تھا کہ ہمیں بارڈر محفوظ بنانا چاہیے، اب باڑ لگانے سے سرحد سے حملوں کا سلسلہ رک گیا ہے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ فاٹا کے ضم ہونے سے ہمیں خوشی ہوئی ہے، کیونکہ جو علاقہ 70 برس سے علاقہ غیر کہلاتا تھا اب پاکستان کا حصہ ہے، اس انضمام سے فاٹا کے لوگوں کو مساوی حقوق ملیں گے۔ مقامی لوگ تمام انتظامات سے بہت مطمئن ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ مقامی انتظامیہ مضبوط ہو اور پولیس کا نظام جیسے بہتر ہوگا تو حالات مزید بہتر ہوں گے، جبکہ چیک پوسٹ مقامی انتظامیہ کے حوالے کردی گئی ہیں اورشمالی وزیرستان میں جتنی پابندیاں تھیں وہ ختم ہوگئی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے امن کے لیے 20 برس جنگ لڑی، اب پاکستان میں مجموعی طور پر امن قائم ہوچکا ہے۔ انضمام شدہ علاقے میں برسہا برس جنگ رہی ہے، لہٰذا مسائل کو حل کرنا ترجیح ہے، ریاستی ادارہ ہونے کے ناتے ہماری ذمہ داری ہے کہ مسائل کا مداوا کریں۔ یہاں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا حل نہ ہو۔ ان لوگوں کے مسائل کا حل ملک کے باہر نہیں بلکہ اندر ہی تلاش کرنا ہے، اور لوگوں کا خیال رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے جاری بات چیت میں پاکستان کے کردار اور اہمیت کا اندازہ اس عمل میں تیزی کے ساتھ ہی افغانستان میں پاکستان کے مفادات پر ہونے والے حملوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ افغانستان سے اس سلسلے میں آمدہ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے شہر مزار شریف میں قائم پاکستانی قونصل خانے میں دستی بم حملے کی کوشش ناکام بنا دی گئی ہے۔ ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کے مطابق افغان حملہ آور خاتون نے ذاتی سامان میں ہینڈگرنیڈ چھپاکر قونصل خانے میں گھسنے کی کوشش کی تھی، تلاشی کے دوران اس سے دستی بم برآمد ہوگیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ دستی بم برآمد ہونے پر حملے کی کوشش کرنے والی افغان خاتون کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور قونصل خانے کو عارضی طور پر بند کردیا گیاہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ واقعے پر کابل میں قائم پاکستانی سفارت خانے نے افغان دفتر خارجہ سے فول پروف سیکورٹی کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان امریکہ مذاکرات کے حوالے سے میڈیا کو بریف کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان معاہدہ بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے، مستقبل میں بھی مزید خوش خبریاں ملیں گی، پاکستان بطور ایک پڑوسی اور خیرخواہ افغانستان کے ساتھ ہے، افغانستان کے معاملے پر پاکستان نے اپنا کردار ادا کردیا ہے، افغانستان کا امن ہماری بھی ضرورت ہے، افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام خود کریں گے۔ ملتان میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مسائل کا حل چاہتے ہیں، ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ آگے بڑھنا ہے، پاکستان نے افغان امن مذاکرات میں مدد کا وعدہ کیا تھا، پاکستان طالبانِ افغانستان اور امریکہ کو ایک میز پر لے آیا ہے، پاکستان افغان امن مذاکرات کرانے میں کامیاب ہوگیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نیک نیتی سے کوشش کررہا ہے کہ امن کا عمل جاری رہے، افغانستان کا امن پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے، ہم نے افغانستان میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، افغان قوم کو جلد اسپتال کا تحفہ دیں گے، اپنے مستقبل کا فیصلہ افغان قوم کو ہی کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے سرحدیں جڑی ہیں، دل جوڑ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پچھلے دنوں دوحہ قطر میں امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اور طالبان نمائندوں کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات کے حوالے سے اُس وقت کامیابی پر مبنی خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں جب دونوں جانب سے مذاکرات جاری رکھنے اور کسی اتفاقِ رائے پر پہنچنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات کے حوالے سے موصولہ اطلاعات کے مطابق فوجی انخلا کے عوض طالبان نے امریکہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ کسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کو مستقبل میں امریکہ یا کسی دوسرے ملک کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ ذرائع کے مطابق دونوں فریقوں میں یہ اتفاقِ رائے مسلسل چھے روز تک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکرات کے بعد ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سمجھوتے کے تحت طالبان نے افغانستان میں جنگ بندی پر بھی اتفاق کیا ہے، تاہم فوجی انخلا اور جنگ بندی دونوں کا دائرہ محدود اور مشروط ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محدود اور مشروط فوجی انخلا اور جنگ بندی کے نتیجے میں فریقین کو زیادہ خطرہ مول لیے بغیر صورت حال کے جائزے اور مستقبل کی حکمت عملی کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔ ذرائع کے مطابق ممکن ہے کہ طالبان کے ساتھ طے پانے والے حتمی معاہدے کا اعلان صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کریں جو امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن ختم ہونے کے بعد جلد ہونے کا امکان ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے پچھلے دنوں پہلی بار زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں جاری مذاکراتی عمل پر کھلے عام تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے ایک اجلاس سے خطاب میں صدر غنی نے عندیہ دیا تھا کہ ان کی حکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے نتائج کو مسترد بھی کرسکتی ہے۔ اس صورتِ حال کو مدنظر رکھنے کے لیے ہی زلمے خلیل زادگزشتہ روز دوحہ سے کابل پہنچے ہیں۔ ان کے اس اچانک اور غیر اعلانیہ دورے کا مقصد افغان حکومت کو طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے سلسلے میں اعتماد میں لینا ہے۔ طالبان سے ہونے والے مذاکرات میں امریکہ کی جانب سے یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ طالبان داعش اور القاعدہ کو خطے میں آپریٹ نہیں کرنے دیں گے، جس پر افغان طالبان نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے امریکی انخلاءکا ٹائم فریم طلب کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ خطے کے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کے لیے خطرات پیدا نہیں کرے گا، اس کے بعد ہی جنگ بندی ممکن ہوگی۔ دوسری جانب مذاکرات میں امریکی نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان کو افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے کہا ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ مذاکرات ریفارمز کے لیے ہوں، افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے لیے نہ ہوں۔ امن مذاکرات سے متعلق ابتدائی اطلاعات کے مطابق افغانستان سے غیر ملکی افواج کے 18 ماہ کے اندر چلے جانے پر اتفاق کیا گیا ہے جس کا شیڈول اگلے چند روز میں طے کرلیا جائے گا۔ جنگ بندی کے بعد طالبان افغان حکومت سے براہِ راست بات کریں گے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی اور طالبان نمائندوںکی حالیہ ملاقاتیں ماضی کی نسبت زیادہ سودمند رہیں۔ مذاکرات کے عمل میں جو تیزی آئی ہے اس کو روس سمیت افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک بالخصوص ایران اور چین قریب سے مانیٹر کررہے ہیں، کیونکہ پاکستان کے بعد اگر افغانستان سے کسی ملک کا مفاد وابستہ ہے تو وہ ایران اور کسی حد تک چین ہے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے افغان صورت حال میں روس کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری اور روس کی سوچ افغانستان کے حوالے سے قریب تر ہے۔ ہم نے باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری روسی صدر کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلووف سے ملاقات ہوئی ہے جس میں ہم نے افغان امن کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا، دوحہ میں ہونے والی نشست اور پاکستان کی سوچ سے انہیں آگاہ کیا۔ روسی وزیر خارجہ نے جس گرم جوشی سے میرا استقبال کیا اُس پر اُن کا شکریہ بھی ادا کیا، ہم چاہتے ہیں کہ خطے میں جتنے اہم ممالک ہیں اُن کے ساتھ روابط کو فروغ دیں، کیونکہ افغان امن عمل ایک مشترکہ ذمہ داری ہے، افغانستان میں قیام امن کا فائدہ سب کو یکساں ہوگا، لیکن خدانخواستہ اگر حالات خراب ہوتے ہیں تو یہ بھی پورے خطے کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ ہماری اور روس کی سوچ قریب تر ہے اور ہم نے باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس تمام تر بحث اور صورت حال کے تناظر میں یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ آیا طالبان کو امریکی پروردہ ایک ایسی حکومت میں شمولیت پر کیسے آمادہ کیا جا سکے گا، جس کے ساتھ طالبان بات چیت کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح موجودہ افغان سیٹ اَپ کوجو پچھلے اٹھارہ سال کی عالمی کاوشوں اور سرمایہ کاری کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے اسے کیونکر کوئی بھی قوت اتنی آسانی کے ساتھ رول بیک کرنے پر آمادہ کرسکے گی؟۔ ان سب سے بڑھ کر ایک اور اہم بات امریکہ کا افغانستان سے مکمل انخلا پر آمادگی ظاہرکرنا ہے، سوال یہ ہے کہ اب جب امریکہ کی روس، چین، ایران اور کسی حد تک پاکستان کی بڑھتی ہوئی قربتوں کے تناظر میں اس خطے میں اپنے مفادات کی خاطر موجودگی کی ضرورت اور اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ایسے میں امریکہ کسی ایسے معاہدے پر کیونکر راضی ہوسکے گا جس کے نتیجے میں اسے نہ صرف افغانستان بلکہ اس سارے خطے سے اپنا بوریا بستر گول کرکے رخصت ہونا پڑے گا؟ لہٰذا یہی وہ ون ملین ڈالر کا سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈے بغیر امریکہ کے افغانستان سے انخلا پر مبنی کسی معاہدے پر اتفاق کی یک طرفہ خبروں پر کم از کم فی الحال یقین کی کچھ زیادہ گنجائش نظر نہیں آتی۔