۔26 جنوری۔۔۔ بھارتی ’’یوم جمہوریہ‘‘ پر کشمیریوں کا ’’یوم سیاہ‘‘ 5 فروری ۔۔۔ پاکستانی قوم کا ’’یوم یک جہتئ کشمیر‘‘

بھارتی حکومت نے 26 جنوری کو ’’یوم جمہوریہ‘‘ منایا مگر کنٹرول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں کشمیری عوام نے اپنے قائدین سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یٰسین ملک کی ہدایت پر ’’یوم سیاہ‘‘ کے طور پر منایا۔ کشمیر کی حریت قیادت کا بجا طور پر مؤقف تھا کہ جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کے برعکس 71 برس سے غیر قانونی طور پر قابض اور کشمیری عوام کو ان کے جمہوری حقِ خودارادیت سے محروم رکھنے والے ظالم و جابر بھارتی حکمرانوں کے پاس ’’یوم جمہوریہ‘‘ منانے کا کوئی آئینی، قانونی یا اخلاقی جواز موجود نہیں، اس لیے کشمیری عوام ’’یوم جمہوریہ‘‘ کی تمام تقریبات کا بائیکاٹ کریں اور اس روز ’’یوم سیاہ‘‘ منائیں۔ چنانچہ کشمیری عوام نے حریت قیادت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے 26 جنوری کو دنیا بھر میں ’’یوم سیاہ‘‘ منا کر بھارتی ظلم و ستم اور غیر جمہوری طرزعمل کے خلاف اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا۔ پہلے سے فوجی چھاؤنی میں تبدیل کشمیر کے بھارتی زیر تسلط علاقے میں اس روز سیکورٹی کے نام پر بھارت نے اپنی وحشیانہ اور غیر انسانی سرگرمیوں میں مزید اضافہ کردیا، تاہم کشمیر کے آزادی پسند عوام نے ان تمام اقدامات کے باوجود وادی میں مکمل ہڑتال اور جگہ جگہ مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد کرکے عالمی برادری کو یہ باور کرایا کہ کشمیری عوام کو ان کا بین الاقوامی سطح پر مسلمہ جمہوری حق خود ارادیت دینے سے مسلسل انکار کرنے والے بھارتی حکمرانوں کا عملی کردار جمہوری روایات اور ان کے دعووں کے قطعی برعکس ہے۔
26 جنوری کو کمشیری عوام نے ’’یومِ سیاہ‘‘ منایا اور اب پاکستانی عوام کی باری ہے جو 5 فروری کو اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے ’’یومِ یک جہتئ کشمیر‘‘ منائیں گے۔ اس موقع پر پاکستانی قوم اپنے تمام تر باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر یک زبان ہوکر اپنے کشمیری بھائیوں کی حمایت میں گھروں سے نکل کر حسبِ روایت زوردار طریقے سے اپنے جذباتِ یک جہتی کا اظہار کرے گی۔ جماعت اسلامی کو بہت سے دیگر معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی قوم کی قیادت کی سعادت حاصل ہے، چنانچہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے جماعت اسلامی نے ایک ہفتہ پہلے ہی سے زبردست سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔
روایتی سرگرمیوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے علاوہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے اس مرتبہ سفارتی محاذ پر بھی بھرپور تحریک کا آغاز کررکھا ہے۔ 27 جنوری کو اپنے ساتھیوں مرکزی نائب امیر میاں محمد اسلم، ڈائریکٹر امورِ خارجہ عبدالغفار عزیز، اور خواجہ عابد محمود کے ہمراہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے پاکستان میں فرانسیسی سفیر مارک بریٹے (Marc Barety) سے ملاقات کی اور کشمیر میں جاری قتلِ عام رکوانے کے لیے فرانس سے فوری اور مؤثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ فرانسیسی سفارت خانے میں ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہنے والی ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ ہندوستان کی سات لاکھ سے زیادہ فوج گزشتہ 71 سال سے کشمیری عوام کو بدترین مظالم کا نشانہ بنارہی ہے۔ کشمیر میں جاری ظلم و ستم نے کشمیری عوام کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ حقوقِ انسانی کی عالمی رپورٹس بھی ان مظالم کی تصدیق کررہی ہیں لیکن عالمی برادری نے مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں خود بھارت نے اعتراف اور وعدہ کیا کہ کشمیری عوام کو ان کی مرضی کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا، مگر بدقسمتی سے آج تک یہ تنازع دو ایٹمی طاقتوں کے مابین سنگین اختلافات کا سبب بنا ہوا ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے فرانسیسی سفیر سے امید ظاہر کی کہ ایک مؤثر جمہوری ملک کی حیثیت سے فرانس اس ضمن میں اہم کردار ادا کرے گا۔
فرانسیسی سفیر نے کشمیر میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ عالمی برادری اور دونوں ملک باہم گفت و شنید کے ذریعے اور تمام تاریخی و قانونی بنیادوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس تنازعے کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ انہوں نے جرمنی اور فرانس کے تاریخی تنازعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ دونوں ملک بالآخر تنازع ختم کرنے میں کامیاب ہوئے، اس میں پاکستان اور ہندوستان کے لیے بھی اہم پیغام ہے۔
سفارتی روابط کے تسلسل میں امیر جماعت اسلامی نے یورپی یونین کے سفیروں کے لیے مسئلہ کشمیر پر خصوصی بریفنگ کا اہتمام کیا جس میں میں ڈنمارک اور یورپی یونین کے سفیر، برطانیہ و جرمنی کے سینئر سفارت کار اور آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن عبدالرشید ترابی شریک ہوئے۔ امیر جماعت اسلامی کی بریفنگ سے پہلے سفارت کاروں کو مقبوضہ کشمیر کی تازہ صورت حال پر دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی، جس کے بعد سینیٹر سراج الحق نے سفارت کاروں کو متوجہ کیا کہ ستّر سال سے بھارتی ظلم و ستم سہنے کے باوجود کشمیری عوام اپنے حقِ آزادی سے دست بردار نہیں ہوئے۔ پاکستانی حکومتوں سمیت دنیا میں کسی نے ان کی مطلوبہ مدد نہیں کی، اور نہ ان پر ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائی گئی، لیکن اس سب کچھ کے باوجود کشمیری عوام اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ دنیا میں جانوروں اور پرندوں کے حقوق کی بات تو کی جاتی ہے لیکن بے گناہ کشمیری بچوں اور خواتین سمیت پوری کشمیری قوم پر سات لاکھ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں توڑے جانے والے مظالم پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کروانا پوری دنیا پر قرض ہے۔ آج جب کہ دنیا ایک بستی کی صورت اختیار کرچکی ہے، دنیا کے کسی بھی خطے میں جاری ریاستی دہشت گردی پوری دنیا کا امن وامان خطرے میں ڈال دیتی ہے، اس لیے پاکستان اور ہندوستان جیسی ایٹمی ریاستوں کے مابین اصل تنازع ختم کروانا عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ5 فروری کو پوری پاکستانی قوم ہی نہیں پوری امتِ مسلمہ اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہارِ یک جہتی کرتے ہوئے اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو پیغام دے گی کہ وہ حق پر ہیں اور ہم اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر آزادئ کشمیر کے لیے کوشاں رہیں گے۔ تاہم ضرورت ہے کہ عالمی برادری بھی بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لے اور بھارت کی جانب سے اپنے زیر تسلط جموں و کشمیر کے علاقے میں جاری ریاستی دہشت گردی بند کروانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔