سانحہ ساہیوال کے بعد سے ایک بار پھر پنجاب میں پولیس اصلاحات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور وزیراعظم نے صاف کہا ہے کہ وہ صوبے میں پولیس اصلاحات چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں حادثات کے تناظر میں ہی کیوں سوجھتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم پولیس اصلاحات سے گریز کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں؟ ماضی میں بھی حکمران طبقوں نے ہمیشہ پولیس اصلاحات کی بات کی لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرسکے۔ وجہ صاف ہے کہ حکمران طبقات کی ترجیحات ہمیشہ سے اقتدار میں نہ صرف بدل جاتی ہیں بلکہ وہ پولیس کو اپنی طاقت سمجھ کر اس کی مدد سے حکمرانی کے نظام کا دربار سجاتے ہیں۔
بنیادی طور پر پاکستان ردعمل پر مبنی ایک معاشرہ ہے۔ ہم حادثات اور سانحات کا انتظار کرتے ہیں، اور ایسے میں سخت جذباتی ردعمل کا اظہار کرنا اور بڑے بڑے سیاسی، انتظامی، قانونی اور انصاف پر مبنی دعوے کرنا ہماری عادت سی بن گئی ہے۔ کوئی بھی ریاستی یا حکومتی نظام اُس وقت تک اپنی اصلاح نہیں کرتا جب تک وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کو قبول کرنے اور ان سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا نہیں کرتا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے، اور ماضی کی غلطیوں کو مزید شدت کے ساتھ دہرا کر نظام کو مزید ناقابلِ قبول بناتے ہیں۔
سانحہ ساہیوال کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل پاکستان کے مختلف شہروں میں اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ ہر واقعہ پر عوام نے شدید ردعمل دیا، لیکن اس شدید ردعمل کا نتیجہ مؤثر اصلاحات، پالیسی یا عمل درآمد کے نظام کا حصہ نہیں بن سکا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ہی دیکھ لیں، ابھی تک ہم اس سانحہ میں انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ پولیس اورانتظامی اداروں کو جو ریاستی و حکومتی طاقت دی گئی اُس کا استعمال اس حد تک غلط کیا گیا کہ آج یہ ادارے اپنی ساکھ ہی کھوچکے ہیں۔ مسئلہ ایک ادارے کا نہیں، بلکہ اس ادارے کے ان لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاکر قانون شکنی کرتے ہیں۔ اس نظام میں سب سے زیادہ بگاڑ پولیس کے نظام میں نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کے سلسلے میں عمومی تصور منفی ہے، اور لوگ پولیس کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ پولیس طاقت ور کے ساتھ ہوتی ہے اورکمزور پر ظلم کرتی ہے۔
ایک مسئلہ اس طرح کے بڑے بڑے حادثات یا حساس واقعات پر ہمارا سیاسی ردعمل ہوتا ہے۔ مسئلے سے نمٹنا اور انصاف کے عملی تقاضوں کو پورا کرنا نہیں، بلکہ ایک دوسرے پر سیاسی اسکورنگ کرنا، الزام تراشی کرنا اور جھوٹ کی بنیاد پر سارا کاروبار چلانا ہوتا ہے۔ سانحہ ساہیوال پر بھی حکومت اور اس کے سیاسی مخالفین کا رویہ بہت حد تک شرمناک دیکھنے کو ملا۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہبازشریف کی تقریر سن کر عجیب لگا کہ جو شخص براہِ راست سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ہے وہ کیسے اس ڈھٹائی کے ساتھ تقریر کرسکتا ہے! پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں کیا کیا؟ اس پر بھی کوئی غور وفکر نہیں۔ خود میڈیا کا رویہ بھی قابلِ مذمت ہے جو اس انداز سے حادثات کو پیش کرتا ہے کہ اپنی دکان چمکا سکے۔ یہ ایک عمومی معاشرتی رویہ بنتا جارہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ محض حکمران طبقات تک ہی محدود نہیں، بلکہ معاشرے کے ہر طبقے کا اخلاقی مقدمہ کمزور ہوا ہے۔پنجاب میں پولیس اور اس سے جڑے تمام اداروں میں اصلاحات، قانون سازی، عمل درآمد کے نظام سمیت پولیس، اور دہشت گردی سے نمٹنے والے اداروں اور افراد کی تربیت کے لیے اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا گیا، لیکن نتیجہ سانحہ ساہیوال اور ماڈل ٹاؤن جیسے لاتعداد واقعات کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم بعض معاملات میں بنیادی انسانی حقوق اور اخلاقی قدروں کو بھی بھول جاتے ہیں، حالانکہ جنگوں کے دوران بھی ریاستی ادارے عورتوں اور بچوں کا خاص خیال رکھ کر کارروائی کرتے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ یہاں اندھا قانون ہے، اور قانون نافذ کرنے والے عقل و دانش سے محروم افراد ہیں جو عملی طور پر انفرادی اقدام سے پورے ادارے، ریاست اور حکومت کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کا بنیادی نکتہ پولیس اصلاحات اور اس نظام میں سیاسی مداخلت کو کم کرنا تھا۔ لیکن عملی طور پر ان کی حکومت پہلے پانچ ماہ میں اس مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کرسکی۔ ناصر درانی کو پنجاب میں پولیس اصلاحات کے لیے لایا گیا تھا، لیکن اُن کے ساتھ جو برتاؤ ہوا اس نے اُن کو ابتدا ہی میں مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ کیونکہ ارکانِ اسمبلی کسی بھی صورت میں پولیس اصلاحات کے حامی نہیں، اور وہ پولیس کے اسی نظام کی مدد سے اپنی ذاتی اور مفاداتی سیاست کو طاقت دینا چاہتے ہیں۔ اس پر وزیراعظم عمران خان کا سیاسی سمجھوتا ہی بنیادی طور پر پولیس اصلاحات میں رکاوٹ بنا ہے۔
بنیادی غلطی ہمارے ریاستی اور حکومتی نظام میں یہ ہے کہ ہم مسائل کا حل عارضی بنیادوں پر تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ مستقل حل کو اپنے لیے اور اپنی سیاست کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ عارضی حل کی تلاش بھی عوامی ردعمل کی بنیاد پر کرنی ہوتی ہے، تاکہ لوگوں کو مطمئن کیا جاسکے کہ ہم کچھ کررہے ہیں۔ ہمارا پورا عدالتی نظام، پولیس، اور تفتیش سمیت آپریشن کرنے سے جڑا نظام بہت بگڑ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انصاف کم اور ظلم کے پہلو زیادہ بالادست نظر آتے ہیں۔ جب ریاست اور حکومت کھلے عام اپنی غلطیوں کا اعتراف نہ کرے اور مقصد اپنی غلطیوں کو چھپانا یا ان پر پردہ ڈال کر حقائق کو پسِ پشت ڈالنا ہو تو پھر انصاف کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بھی یہی غلطی کی گئی تھی، اور اب بھی اسی غلطی کو دہرایا جارہا ہے، اور تفتیش کے معاملات میں جو کمزوری دکھائی جارہی ہے وہ بہت حد تک مایوس کن ہے۔
یہ جو ہم لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کے بجائے ان کو موقع پر ہی ختم کرنا چاہتے ہیں، اس پورے ذہنی سانچےکو تبدیل کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس طرح کے اقدامات کی حوصلہ افزائی سے انصاف بھی متاثر ہوتا ہے اور عدالتی نظام کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور ان کا ایجنڈا یہ ہے کہ وہ پورے نظام کی اصلاح اور اداروں کو زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن یہ کام محض سیاسی نعروں سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے انہیں خود کو اور اپنی جماعت کو ان ہی اداروں اور عوام کے سامنے جوابدہ بنانا ہوگا۔ سانحہ ساہیوال واقعی وزیراعظم عمران خان کے لیے ایک بڑا ٹیسٹ کیس ہے، اور وہ تبدیلی کے تناظر میں عملی طور پر بڑے امتحان سے دوچار ہیں اور سب اُن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ماضی کی شریف حکومت اورآج کی عمران خان کی حکومت کے درمیان سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ ساہیوال کے حوالے سے معاملات سے نمٹنے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے، اور آج کی یہ حکومت ماضی کی حکومت سے کیسے مختلف ہوتی ہے۔
عملی طور پر اگر واقعی ہم ایک مہذب ریاست اور ذمہ دار حکومت کے نظام کو یقینی بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ ایسی سرجری جو بلاتفریق ہو، اور تمام اداروں میں ایسے افراد اور مائنڈسیٹ کو بدلنے کے لیے کڑوی گولیاں کھانی ہوں گی جو نظام کی شفافیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ کام محض حکومت تن تنہا نہیں کرسکے گی، اس کے لیے تمام اداروں اور عوام کو بھی ریاست اور حکومتی نظام میں اپنا دباؤ بڑھانے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔