۔19 جنوری 2019ء بروز ہفتہ ساہیوال سے بورے والا جانے والے خاندان کے افراد کے ساتھ ٹول پلازہ پر دن دہاڑے جو واردات کی گئی، اُسے کرنے والے کوئی جرائم پیشہ افراد نہ تھے بلکہ ایلیٹ فورس کے امن و امان قائم کرنے والے انتہائی تربیت یافتہ جوان تھے جنہوں نے کسی ’’حساس‘‘ ادارے کی مخبری پر کارسواروں پر اندھا دھند گولیاں چلانی شروع کردیں اور چار افراد کو ہلاک کرڈالا۔ ہلاک ہونے والوں میں چالیس سالہ خاتون نبیلہ، ان کی تیرہ سالہ صاحبزادی اریبہ، ان کے شوہر خلیل، اور خلیل کے دوست ذیشان (جن کے متعلق زخمی بچے عمیر نے بتایا کہ ابو انہیں مولوی کہتے تھے) شامل ہیں۔ پولیس نے نہ صرف ان افراد کو قتل کیا بلکہ الٹا الزام عائد کرڈالا کہ وہ داعش کے خطرناک دہشت گرد تھے جنہوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے اور ایک امریکی شہری کو اغوا کیا تھا۔ اس کارروائی میں شامل انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ گاڑی میں سوار افراد نے ان پر گولیاں چلائیں جس کے جواب میں اہلکاروں نے گولیاں چلانا شروع کردیں، جس سے کار سوار ہلاک ہوگئے، جب کہ جبار سمیت ان کے دو دہشت گرد ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور فرار ہوتے وقت وہ گولیاں چلا رہے تھے۔ دوسری طرف عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گاڑی میں سوار افراد میں سے کسی نے گولیاں نہیں چلائیں۔
ہلاک ہونے والوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق خلیل کو 13 گولیاں، ذیشان کو 10، اریبہ کو 6 اور اس کی والدہ کو 4 گولیاں ماری گئیں۔ نیز یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ قاتل اہلکاروں نے موقع واردات پر کوئی نشاندہی نہیں کی اور نہ کسی کو پہرے پر مقرر کیا۔ چنانچہ اس بات کا شدید احتمال ہے کہ موقع واردات کی شہادتیں تلف ہوگئی ہوں گی، یا دانستہ کسی نے تلف کردیں۔ مزید برآں متعلقہ اہلکاروں نے اسلحہ جات کے ماہرین کو اسلحہ بھی نہیں بھیجا بلکہ خالی کارتوس بھیج دیے ہیں جو کہ ماہرین کے مطابق کوئی نشاندہی نہیں کرسکتے۔ اسلحہ کی جانچ ضروری ہے جس سے پتا چلایا جا سکے کہ آیا وہ استعمال ہوا ہے یا نہیں۔ (ڈان 28 جنوری بروز پیر، صفحہ 12)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے دیدہ و دانستہ ان تمام قرائن کو مٹا دیا ہے جو اصل مجرم کی نشاندہی کرسکیں۔
بعد ازاں میڈیا پر آنے والی خبروں کے مطابق متوفین کے پسماندگان لاہور کے ضلع کوٹ لکھپت میں 35 سال سے مقیم تھے اور مرحوم خلیل پرچون کی دکان پر کام کرتا تھا، اور ذیشان اس کا بچپن کا دوست اور پڑوسی تھا جو کمپیوٹر کی دکان کا مالک تھا، ذیشان کا بھائی ڈولفن پولیس میں ملازم ہے جہاں بڑی چھان بین کے بعد کسی کو مامور کیا جاتا ہے۔ خلیل نے ذیشان سے کہا تھا کہ وہ اپنے بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے بارات کے ساتھ بورے والا جانا چاہتا ہے اور ذیشان اسے اور اس کے خاندان کو اپنی گاڑی میں بورے والا پہنچا دے۔ یہ لوگ ذیشان کی گاڑی میں بورے والا جارہے تھے کہ ٹول پلازہ پر ایلیٹ فورس کے اہلکاروں نے حساس ادارے کی مخبری پر انہیں دہشت گرد گردانتے ہوئے روکا۔
عینی شاہدین کے بقول کسی نے پولیس پر گولیاں نہیں چلائیں بلکہ پولیس نے انہیں خطرناک دہشت گرد قرار دیتے ہوئے گولیاں مار کر ہلاک کرڈالا۔ اس واردات پر اہلِ علاقہ انتہائی مشتعل ہوگئے اور فیروزپور روڈ پر راستہ روک کر احتجاج کرتے رہے اور مطالبہ کیا کہ جب تک مجرموں کو سزا نہیں دی جائے گی وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔ لیکن بعد ازاں افسرانِ بالا کی یقین دہانی پر واپس چلے گئے۔
دریں اثنا اس خبر پر ملک کے طول و عرض میں احتجاج پھوٹ پڑے اور پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ زور پکڑنے گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا، جب کہ وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے اعلان کیا کہ اگر پولیس اہلکار اس واقعے میں ذمہ دار پائے گئے تو ان کو نشانِِ عبرت بنادیا جائے گا۔ وفاق المدارس کے علماء نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس کا ظلم و ستم بند کیا جائے، کیونکہ یہ لوگ انسدادِ دہشت گردی کی آڑ میں پُرامن شہریوں کو ہراساں اور بلیک میل کرتے ہیں۔
یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے، بلکہ ان اہلکاروں کا وتیرہ بن گیا ہے۔ اگرچہ انتظامیہ نے ایک ایڈیشنل آئی جی کو تفتیش پر مامور کیا ہے، لیکن اس کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے، کیونکہ پولیس پر عوام کا اعتماد نہیں رہا، جو آئے دن ماورائے عدالت اقدام سے شہریوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ (روزنامہ اسلام، ڈان۔ اتوار 20 جنوری 2019ء)
ایک طرف ذیشان کے قتل پر صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے اور متوفین کے جنازے میں جذباتی مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں، حتیٰ کہ تیرہ سالہ مقتول بچی اریبہ کی ہم جماعت بچیاں زار و قطار رو رہی ہیں، تو دوسری طرف صوبائی حکومت پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت کہہ رہے ہیں کہ ذیشان مستند دہشت گرد تھا اور اس نے گاڑی روکنے پر پولیس اہلکاروں پر گولیاں چلائیں اور بالآخر مارا گیا، اور اُس کے پاس سے دھماکہ کرنے کی جیکٹ بھی برآمد ہوئی۔ حزبِ اختلاف اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم سے معافی اور استعفے کا مطالبہ کررہی ہے۔ ایسی صورت میں وفاقی حکومت بہت مشکل میں ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ اپنے مخبر کی اطلاع کو مسترد کرنے کے لیے تیار نہیں، اور دوسری طرف عوام کے امنڈتے ہوئے احتجاج سے خائف بھی ہے اور بدحواسی اور بوکھلاہٹ میں متضاد بیانات دے دیتی ہے جس سے اس کی ساکھ کو نقصانِ عظیم پہنچ رہا ہے۔ کچھ عناصر مخبر کو غیر معتبر تصور کرتے ہوئے اس سے پوچھ گچھ پر اصرار کررہے ہیں۔ ہر معاملے پر مشترکہ تفتیشی کمیٹی بنادی جاتی ہے، مثلاً اس میں آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی کے اہلکاروں پر مشتمل مشترکہ ٹیم تشکیل دی جارہی ہے۔
ماضی میں ایسی ٹیموں کی آراء پر عوام کو اعتماد نہیں رہا، اس لیے ضروری ہے کہ اس سانحے کی تفتیش عدالتِ عظمیٰ کے حاضر ملازمت جج صاحبان کے سپرد کی جائے۔ خوش قسمتی سے اس پر وزیراعظم عمران خان نے رضامندی کا اظہار کیا ہے اور حزبِ اختلاف سے ان کی نام زدگی کی تجاویز بھی طلب کی ہیں (روزنامہ اسلام کراچی، 24 جنوری)۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حزبِ اختلاف کو اس مسئلے کے حل سے زیادہ حکومت کو رسوا کرنے میں دلچسپی ہے جو کہ مذموم اور منفی نیت پر مبنی ہے۔
دریں اثناء حکومت کا یہ اقدام قابلِ تعریف ہے کہ اس نے 6 مبینہ قاتلوں پر (جو کہ پولیس افسران تھے) فردِ جرم عائد کرتے ہوئے ان کو خلیل، ان کی اہلیہ نبیلہ اور بچی اریبہ کا قاتل قرار دے کر انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے سپرد کردیا ہے، جب کہ ذیشان کے مبینہ دہشت گردوں سے تعلقات کی تفتیش کے لیے مزید مہلت طلب کی ہے۔ یہاں اس سوال میں بڑا وزن ہے کہ ذیشان کے مشتبہ روابط کے تعین سے پہلے اس کو کس قانون کے تحت قتل کیا گیا؟ یہ ننگا جرم ہے جس کی سزا قاتلوںکو ضرورملنی چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو حکومت کے کیے دھرے پر پانی پھر جائے گا اور اسے عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا جو آئندہ انتخابات میں اس کی شکست کا باعث بن سکتا ہے۔