دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں ملک و قوم کو درپیش مسائل کی نشان دہی کرتی ہیں اور ان کے حل بھی تجویز کرتی ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے سیاسی جماعتوں کی قیادتیں نہ صرف خود گہرائی سے غور و خوض کرتی ہیں بلکہ ماہرین اور متعلقین سے مشاورت بھی کرتی ہیں، متعلقہ افراد اور اداروں کو ساتھ لے کر بہترین اور قابلِ عمل تجاویز مرتب کرکے قوم کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اور جب کبھی ان جماعتوں کو اقتدار میں آنے کا موقع ملتا ہے تو پہلے سے کیے گئے اِس کام کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں بناتی ہیں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بناتی ہیں۔ اس دوران نہ صرف مخالف نقطہ نظر کو سنتی اور اکاموڈیٹ کرتی ہیں بلکہ عمل درآمد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی منصوبہ بندی بھی کرلیتی ہیں۔ چنانچہ ایسے امور پر بالعموم قومی اتفاقِ رائے پیدا ہوجاتا ہے اور قوم یکسو ہوکر کسی مسئلے یا بحران کو حل کرلیتی ہے۔
دراصل ہماری سیاسی جماعتیں مسائل کی نشان دہی پوائنٹ اسکورنگ اور حکومت یا کسی طبقے یا ادارے پر دبائو ڈالنے کے لیے کرتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ تمام تر ممکنہ حربے اس انداز میں اپناتی ہیں کہ نہ صرف حکومت اور زیر ہدف طبقہ یا ادارہ مکمل دبائو میں آجاتا ہے بلکہ عوام کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ملک و قوم کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ اگلے مرحلے کا کام نہیں کرتیں، بلکہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگاتیں۔ اگلا مرحلہ یہ ہے کہ آپ خود غور و فکرکرکے اور ماہرین، تھک ٹینکس اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اس کا حل بھی پیش کریں۔ ہماری سیاسی جماعتیں یہ کام نہیں کرتیں، مثلاً 1977ء کے بعد سے پیپلزپارٹی نے مارشل لائی خرابیوں کے لیے پوری فضا بنادی، جس کے نتیجے میں اسے 1988ء میں اقتدار بھی مل گیا، لیکن مارشل لا کا راستہ روکنے کے لیے نہ تو اُس کا کوئی ہوم ورک تھا اور نہ اس کے لیے اُس نے کوئی پالیسی سازی یا منصوبہ بندی کی۔ نوازشریف نے 1990ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی کرپشن اور مسٹر ٹین پرسنٹ کو ایشو بنایا، 1990ء میں اس نعرے پر انتخاب جیت لیا، لیکن کرپشن کی روک تھام کے لیے کوئی پالیسی نہ دی۔ عمران خان نے انتخابی دھاندلی کو بہترین انداز میں ایشو بنایا، انتخاب جیتا، لیکن انتخابی دھاندلی کو روکنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں دیا، لہٰذا یہ مسئلہ جوں کا توں موجود ہے اور کسی بھی وقت خود تحریک انصاف کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان میں شاید جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے جو اس ایشو کو لے کر اٹھتی ہے۔ البتہ اس مسئلے کے حل کے لیے باہمی مشاورت، ماہرین اور تھک ٹینکس کی رہنمائی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے گفت و شنید کے بعد ایک جامع پروگرام دیتی ہے کہ اس مسئلے کا یہ حل موجود ہے، اور اس پر اس انداز میں عمل درآمد ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے جماعت اسلامی نے ایک ایسے مسئلے کو ٹیک اپ کیا ہے جو نہ صرف قومی سطح کا ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس پر بین الاقوامی دبائو بھی موجود ہے، لیکن قوم کو اس مسئلے پر اصل حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے ایک جامع پالیسی کی بھی ضرورت ہے۔ ابھی انتخابات میں ساڑھے چار سال باقی ہیں، اس لیے یقینی طور پر جماع اسلامی اسے انتخابی نعرہ یا ایشو نہیں بنارہی، بلکہ قوم کی صحیح سمت میں رہنمائی کے لیے قابلِ عمل اور فائدہ مند پالیسی بنانے کی جانب رہنمائی کررہی ہے۔ یہ مسئلہ ہے بڑھتی ہوئی آبادی کا… آبادی پر کنٹرول کرنے کا، جس کے لیے بعض بین الاقوامی ایجنڈے کے باعث پاکستان پرکچھ دبائو بھی ہے۔
خود پاکستان میں ایک طبقہ بڑھتی ہوئی آبادی کو مستقبل کا عفریت قرار دے رہا ہے، لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے، اور وہ ہے آبادی پر کنٹرول کے باعث نوجوان لیبر فورس کی کمی، اور اس کی وجہ سے ترقیاتی اور پیداواری عمل میں سستی، اسقاطِ حمل کے باعث اخلاقی خرابیاں، اور اس کی وجہ سے خواتین کی صحت کے معیار کا گرنا، کنٹرولِ آبادی کے لیے مغربی طرز کی ادویہ اور مشینری پر زرمبادلہ کا ضیاع ہونا، اور معاشرے میں ریٹائرڈ اور بزرگ افراد کی تعداد میں اضافہ، معاشرے میں لڑکیوں کی تعداد میں ممکنہ کمی اور اس سے بہت سے اخلاقی مسائل کا پیدا ہونا اور بے راہ روی میں اضافہ جیسے مسائل۔ چنانچہ جماعت اسلامی نے اس معاملے کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے اور قوم کی رہنمائی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے 30جنوری کو اسلام آباد میں ایک قومی سیمینار کا اہتمام کیا گیا ہے جس کا موضوع انتہائی غور و فکر اور دانش مندی سے ’’آبادی پر کنٹرول مسائل کا حل یا خود ایک مسئلہ؟‘‘ رکھا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی جانب سے جاری کردہ دعوت نامے میں بتایا گیا ہے کہ اس سیمینار کی صدارت خود امیر جماعت اسلامی سراج الحق کریں گے، جبکہ سیمینار سے اہلِ علم، ماہرینِ معیشت، قومی و سماجی رہنما، علمائے کرام، سینئر صحافی، ارکانِ اسمبلی، اہلِ دانش اور نامور خواتین رہنما خطاب کریں گے۔ یہ ایک قابلِ قدر کوشش ہے جس پر جماعت اسلامی کو مبارکباد دی جانی چاہیے، اور امید کرنی چاہیے کہ اس سیمینار میں قومی سوچ کی حامل تجاویز سامنے آئیں گی، اور حکومت اور متعلقہ حلقے ان سے رہنمائی حاصل کرکے قابلِ عمل قومی پالیسی مرتب کریں گے۔
آئیے ذرا 30جنوری کو اسلام آباد میں ہونے والے اس قومی سیمینار سے قبل ہم بھی جائزہ لیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی دنیا کا کتنا بڑا مسئلہ ہے، پاکستان اس سے کتنا متاثر ہے یا ہوسکتا ہے، اور آج کی جدید دنیا اس معاملے میں کس انداز میں غور کررہی ہے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ آج جب اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ دنیا کے 94 ممالک میں انسانی شرح پیدائش ضرورت سے کم ہونے کو انتہائی خطرناک قرار دے رہا ہے اور ان 94 کے 94 ممالک کو اپنی اپنی آبادی میں اضافے کی واضح ہدایات جاری کرچکا ہے، پاکستان میں افسر شاہی، این جی اوز اور حکومتی سطح پر آبادی کو کنٹرول کرنے کی باتیں کیوں اور کس کے ایما پر کی جارہی ہیں؟ اور اس کے لیے باقاعدہ پالیسی سازی اور شہریوں کو مراعات دینے کے معاملات کیوں زیر غور بتائے جارہے ہیں؟ یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون سے مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے اس طرح کی پالیسی بنائی جارہی ہے جسے خود اقوام متحدہ مسترد کرچکا ہے، اور چین میں ایک بچہ پالیسی کی ناکامی کے بعد چینی حکومت نے اس پالیسی کو واپس لے لیا ہے، البتہ اس پالیسی کے نتیجے میں چینی معاشرے میں جو توڑپھوڑ ہوئی ہے اُس کے اثرات اس جدید ترقی یافتہ ملک کو کئینسلوںتک برداشت کرنا پڑیں گے۔ ترقی یافتہ دنیا معاشی طور پر کمزور اور مستقبل کے خطرات سے خوف زدہ اِن ممالک کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہے کہ وسائل کی کمی کے ساتھ آبادی میں ہونے والا یہ اضافہ آئندہ چند برسوں میں ان کے وجود کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ چنانچہ پہلے ہی سے معاشی مشکلات کا شکار یہ ممالک آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے بلا سوچے سمجھے دھڑا دھڑ وہ اقدامات کیے جارہے ہیں جن کی تلقین ترقی یافتہ دنیا کررہی ہے۔
وسائل کم ہوں اور استعمال کرنے والے زیادہ، تو یقیناً گھر ہو یا معاشرہ، مشکلات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر افراد کم ہوں گے تو نئے وسائل کی تلاش کا تناسب بھی کم رہے گا، پیداواری اور ترقیاتی عمل سست پڑ جائے گا۔ نئے وسائل کی تلاش اور اس کے لیے جدوجہد ہی زندگی ہے… جستجو اور جدوجہد نہ ہو تو پھر جینے کا مزا کیا!
دینی نقطہ نظر سے ہر ذی روح کا رزق فراہم کرنے کا وعدہ خود خالقِ کائنات نے فرمایا ہے۔ وہی پتھر کے پیٹ میں موجود کیڑے کو رزق فراہم کرتا ہے، اور گہرے پانیوں میں موجود اور فضائوں میں معلق اپنی مخلوق کو رزق پہنچانے کا بندوبست بھی وہی کرتا ہے۔ خالق نے جس انسان کے حصے میں جو رزق لکھ دیا ہے وہ پہاڑوں کے نیچے بھی ہو تو اسے مل کر رہتا ہے، اور جو اس کی قسمت میں نہ ہو وہ اس کی دو داڑھوں میں ہوتے ہوئے بھی اس کے جسم و جان کا حصہ نہیں بن سکتا۔
دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاپولیشن کنٹرول کے نتیجے میں نوجوان لیبر فورس کم ہوتی جارہی ہے اور معاشرے پر عمر رسیدہ افراد کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ چونکہ زیادہ تر عمر رسیدہ افراد ترقیاتی اور پیداواری عمل میں شریک نہیں ہوتے اس لیے نوجوان لیبر فورس پر بوجھ بڑٍھ جاتا ہے، اور عملی طور پر ترقیاتی اور پیداواری عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ دنیا میں ایک طرف آبادی میں اضافے کے خوف سے اسے کنٹرول کرنے پر ساری توانائیاں صرف کرنے والے ممالک اور افراد ہیں، اور دوسری جانب اس آبادی کو پیداواری عمل میں شریک کرکے ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کرنے والے ممالک بھی ہیں جن میں چین سب سے نمایاں ہے، لیکن گزشتہ عشروں میں چین میں جو ایک بچہ پالیسی اپنائی گئی اُس نے چین کو اس پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کردیا، کیونکہ اس پالیسی کے تحت ایک نوجوان کو اپنی بیوی اور بچے کے علاوہ ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی اور بعض اوقات ساس سسر کی بھی دیکھ بھال کرنا پڑرہی تھی، جبکہ اگر کسی نوجوان کے 9 بچے ہوں تو ان بزرگ افراد کی کفالت ان 9 بچوں میں تقسیم ہوجائے گی، اور ایک نوجوان کو زیادہ سے زیادہ دو افراد کی کفالت کی ذمہ داری لینا ہوگی۔
آبادی پر کنٹرول کی پالیسی کے ساتھ لڑکے کی خواہش کے باعث ایسے معاشروں میں اسقاطِ حمل کی شرح بڑھ جاتی ہے جو خواتین کی زندگی اور صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے، جبکہ اس طرح کے مسلسل عمل کے باعث ایسے معاشروں میں خواتین کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے جو آئندہ افزائشِ نسل کے حوالے سے انتہائی پریشان کن ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ شرح پیدائش نائیجیریا میں ہے جہاں یہ شرح 7 بچے فی خاتون ہے۔ اس طرح نوجوانوں کے آبادی میں زیادہ تناسب کے حوالے سے نائیجیریا دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، جبکہ سب سے کم شرح پیدائش سنگاپور میں ہے جہاں یہ شرح 0.83 بچے فی خاتون ہے، جس کی وجہ سے وہاں عمر رسیدہ اور ضعیف آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے اور وہاں بڑھتی ہوئی ضعیف آبادی کو ٹائم بم قرار دیا جارہا ہے۔ اس خدشے کے پیش نظر اقوام متحدہ کا ادارہ دنیا کے 94ممالک کو شرح پیدائش ضرورت 2.1 سے کم ہونے پر انتہائی خطرناک قرار دے چکا ہے، اور ان ممالک کو اپنی آبادی بڑھانے کی ہدایت کرچکا ہے۔
ان حالات میں جب پوری دنیا آبادی میں کمی کے باعث پریشان ہے، پاکستان جیسے ملک میں آبادی کو کنٹرول کرنے کی پالیسی نہ صرف عوام کو دینی نقطہ نظر سے قبول نہیں، بلکہ دنیاوی نقطہ نظر سے بھی ایسی پالیسیاں ذہنی اور فکری طور پر صحت مند اور ترقیاتی اور پیداواری عمل میں بہتری کے بجائے نقصان کا باعث ہوں گی۔