قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور امارتِ اسلامیہ افغانستان یعنی طالبان کے درمیان مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ان مذاکرات کے نتائج کیا نکلیں گے، اس سے قطع نظر امریکہ افغانوں کی 17 برس پر مشتمل قوتِ مزاحمت کی تاب نہ لاکر پسپائی پر مجبور ہوگیا ہے۔ دوحہ (قطر) میں طالبان سے مذاکرات کے بعد امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اشارہ دیا ہے کہ امریکہ اگلے برس کے وسط تک افغانستان سے فوجی انخلا مکمل کرلے گا۔ ایک وقت وہ تھا کہ افغانستان پر امریکہ 40 ملکوں پر مشتمل ناٹو کے ساتھ دو لاکھ فوج کے ہمراہ قابض ہوا تھا۔ یہ کوئی اچانک فیصلہ نہیں تھا۔ اتنی بڑی فوجی مہم تھی جس کی تیاری کئی برسوں سے جاری تھی۔ دو لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کے لیے امریکہ نے کابل، بگرام اور قندھار میں جدید ترین ٹیکنالوجی پر مشتمل بہت بڑا فوجی ڈھانچہ تیار کیا تھا، اسی کے ساتھ شین ڈنڈ کے مقام پر ایک اضافی فضائی گیریژن بھی تعمیر کیا تھا۔ امریکہ اور ناٹو کو عالمی رائے عامہ کی تائید کے ساتھ افغانستان کے پڑوسی ملکوں بالخصوص پاکستان کی انصرامی (لاجسٹک) مدد بھی حاصل تھی۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشین کو 17 برسوں میں دنیا کی کمزور ترین قوم کے مقابلے میں جو عسکری شکست ہوئی ہے اُس کے اسباب کا تجزیہ بھی نہیں ہوسکا ہے۔ ویسے تو گزشتہ صدی میں عسکری محاذ پر امریکہ کی یہ تیسری بڑی شکست ہے، اس سے قبل امریکہ کوریا اور ویت نام کے محاذ پر پسپا ہوچکا ہے۔ لیکن یہ دونوں جنگیں روس اور چین کی پراکسی جنگیں بھی تھیں، جبکہ اس کے مقابلے پر بظاہر افغان طالبان کو اپنے دوستوں کی مدد بھی حاصل نہیں تھی۔ امریکہ کی اب کوشش یہ ہے کہ عسکری پسپائی کے منفی اثرات اور نتائج سے بچنے کے لیے مذاکرات کی میز پر فتح حاصل کرنے کی کوشش کرے، اس مقصد کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان نژاد امریکی زلمے خلیل زاد کو اپنا خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے۔ زلمے خلیل زاد اس سے قبل بھی افغانستان میں امریکی سفیر نامزد کیے گئے تھے، لیکن اُس وقت وہ کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکے تھے۔ یہ وہ وقت تھا کہ امریکی سپر پاور کا تکبر اپنی انتہا پر پہنچا ہوا تھا۔ یہ تکبر ابھی تک برقرار ہے۔ سالِ گزشتہ کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ کے ذریعے ہوا تھا جس میں انہوں نے غیر سفارتی اور غیر مہذب زبان استعمال کی تھی۔ اسے یہ زعم تھا کہ سخت زبان میں ’’ڈومور‘‘ کا حکم نامہ پاکستان کو تابعداری پر مجبور کردے گا، لیکن یہ اس کے علم میں نہیں ہے کہ ہر معاملہ ’’انجمنِ غلامانِ امریکہ‘‘ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس کے سامنے یہ حقیقت ہے کہ امریکہ 17 برسوں میں ٹریلین ڈالر افغان جنگ میں جھونک چکا ہے، لیکن افغان مشن مکمل ہونے کی خوش خبری اپنی قوم کو دینے کے لیے تیار نہیں، اسی کے ساتھ وہ امریکی حکومت و ریاست کے اصل کرتا دھرتائوں سے یہ سوال کررہا ہے کہ ہر سال 45 ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود ٹھوس نتیجہ کیوں حاصل نہیں ہو پا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب ہمارے سامنے ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی فوجی قیادت یعنی پنٹاگان کے درمیان کش مکش سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ کش مکش سابق امریکی صدر بارک اوباما اور اس کی فوجی قیادت کے درمیان بھی ہوئی تھی۔ اس کش مکش کا اظہار ٹرمپ کے وزیر دفاع جیمز میٹس کے استعفے سے بھی ہوا۔ جیمز میٹس وزیر دفاع مقرر ہونے سے قبل امریکی فوج کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اور افغانستان میں بھی فوجی کمانڈر کی حیثیت سے تعینات رہے ہیں۔ اس لیے وہ اس بات سے واقف ہیں کہ امریکی صدر کی جانب سے یک طرفہ فوجی انخلا کا اعلان امریکی فوجی بالادستی کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ طویل عرصے تک امریکہ پاکستان میں اپنے غلام حکمرانوں پر یہ دبائو ڈالتا رہا کہ وہ افغانوں کو اپنی مزاحمت ترک کرنے پر مجبور کریں۔ امریکہ یہ تصور ہی نہیں کرسکتا تھا کہ بغیر کسی قوت کی مدد کے غریب اور فقیر افغان اپنی مزاحمت جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس عرصے میں طالبان کے دو امیر اس دنیا سے گزر گئے۔ طالبان کے امیر ملاّ عمر کے جانشین ملا منصور اختر کو تو امریکہ نے ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا تھا اور یہ پیغام دیا تھا کہ کوئی بھی فرد محفوظ نہیں ہے، اس کے باوجود افغان طالبان کی مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی، اسی مزاحمت سے مجبور ہوکر امریکہ مذاکرات کی میز سجانے اور دنیا کی سب سے کمزور قوت کے سامنے بیٹھنے پر مجبور ہوا، حالانکہ نائن الیون کا بہانہ کرکے وہ افغانستان میں یونی پولر ورلڈ کا اعلان کرنے کے لیے داخل ہوا تھا، اس کا یہ بھی مقصد تھا کہ افغانستان میں جدید ترین فوجی اڈے قائم کرکے روس اور چین کا ہمسایہ بھی بن جائے۔ ان 17 برسوں میں مسلم دنیا میں اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر فروغِ دہشت گردی کی مہم جاری رہی۔ یہ جنگ صرف عسکری جنگ نہیں تھی، بلکہ ہر محاذ پر جاری تھی۔ مختلف بات صرف افغانوں کی مزاحمت تھی۔ امریکہ 2001ء میں افغانستان پر حملہ آور ہوا، ابتدائی خبروں میں امارتِ اسلامیہ افغانستان یعنی افغان طالبان نے کابل سے قندھار تک پسپائی اختیار کرلی تھی جس نے پوری مسلم دنیا میں مایوسی کی کیفیت پیدا کردی تھی، لیکن 2003ء کے بعد سے مزاحمت نے زور پکڑنا شروع کیا، اور بغیر کسی قوت کی مدد کے افغان دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے مقابلے میں مستقل مزاحمت کرتے رہے۔ افغانوں کی مزاحمت جدید سیاسی اور عسکری تاریخ کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اس مزاحمت نے نئی دنیا بنائی ہے جس کے فوائد دنیا کی دیگر اقوام حاصل کررہی ہیں۔ اس مرحلے پر افغانوں کا نیا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ مذاکرات کے جال کے ذریعے امریکہ اور مغربی دنیا اپنی شکست کے اثراتِ بد سے بچنے کی کوششیں کررہے ہیں، لیکن یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ قوموں کے لیے مزاحمت میں ہی زندگی ہے۔
’’اللہ ہی قلیل گروہ کو کثیر گروہ پر غالب اور فتح مند کرتا ہے‘‘۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان کے حکمراں سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ ’’سانحہ ساہیوال‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔