نام کتاب : وفیاتِ برہان
مشاہیر عالم کے انتقال پر ماہنامہ ’’برہان‘‘ دہلی میں شائع ہونے والی تحریریں
(جولائی 1938ء تا اپریل 2001ء)
مرتبہ : ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
صفحات : 266 قیمت 1000 روپے
ناشر : قرطاس۔ فلیٹ نمبرA-15، گلشنِ امین ٹاور، گلستانِ جوہر بلاک 15، کراچی
موبائل : 0321-3899909
برقی پتا : saudzaheer@gmail.com
ویب گاہ : www.qirtas.co.nr
برصغیر پاک و ہند میں جو رسائل درجۂ اوّل کے مانے جاتے ہیں اُن میں سے ایک ماہنامہ برہان دہلی بھی ہے۔ برہان ندوۃ المصنفین دہلی کا علمی ترجمان تھا جس کا پہلا شمارہ جولائی 1938ء/ جمادی الاولیٰ 1357ھ میں شائع ہوا۔ مفتی عتیق الرحمان عثمانی، مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی اس کے بانیوں میں سے تھے۔ برہان کے اجراء سے اپنی وفات 1985ء تک مولانا سعید احمد اکبرآبادی ہی اس کے مدیر رہے۔
مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی پوری زندگی درس و تدریس، تعلیم و تربیت، تبلیغ و اشاعت، تصنیف و تالیف اور تحقیق سے عبارت ہے۔ مولانا کی دینی و علمی خدمات کا یہ سلسلہ دیوبند سے علی گڑھ، سینٹ اسٹیفن کالج اور مغربی جامعات تک پھیلا ہوا ہے۔ مولانا کے قلم سے ایک درجن کے لگ بھگ مستقل تصانیف اور سیکڑوں مقالات و مضامین قرطاس کی زینت بنے۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور ’’برہان‘‘ لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ امر واقع یہ ہے کہ مولانا کے بغیر برہان کا تصور بھی مشکل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کی وفات (1985ء) کے بعد یہ سلسلہ زیادہ عرصے چل نہیں سکا۔
مولانا سعید احمد اکبر آبادی نے برہان کی ادارت کی ذمے داریاں جس قدر محنت و مشقت سے انجام دیں، اس کا اعتراف ’’معارف‘‘ کے مدیر سید صباح الدین نے بایں الفاظ کیا:
’’مولانا نے اس رسالہ کی ادارت کے فرائض جس شان سے سرانجام دیے، وہ اردو زبان کی تاریخ میں جلی حروف سے لکھے جائیں گے۔ ان کا کوئی معاون نہیں رہا۔ وہ خود ہی اس کے مضامین کے حک و اصلاح اور ترتیب میں لگے رہتے۔ اس کے لیے لمبے لمبے مضامین بھی لکھتے، اس میں ریویو کے لیے جو کتابیں آتیں، ان پر ریویو بھی قلمبند کرتے۔ البتہ اس کی کتابت اور طباعت کی ذمہ داری مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی پر ہوتی، ورنہ سینتالیس سال کی طویل مدت تک ادارت کا سارا کام تنہا ان ہی کے ذریعے سے انجام پاتا رہا، کسی مہینے میں اس کی اشاعت نہیں رکی، جو ان کا زبردست علمی کارنامہ ہے۔‘‘
(ماہنامہ معارف، جولائی 1985ء، ص 62)
نظرات (اداریے)، تبصرۂ کتب اور وفیات برہان کے مستقل سلسلے تھے جو مولانا سعید احمد اکبر آبادی رقم کیا کرتے تھے۔ برہان میں مشاہیر کی وفیات سے متعلق مولانا نے سیکڑوں صفحات تحریر کیے۔ وفیات کے باب میں مولانا کی وسعتِ قلم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں علماء، فضلاء، فقہاء، حکماء، محققین، مصنفین، مؤلفین، سربراہانِ مملکت، دینی درس گاہوں کے شیوخ و مدرسین، جامعات کے شیوخ و اساتذہ، شعراء، ادباء، سیاست دان، معمارانِ قوم و بہی خواہانِ ملت، غرض یہ کہ قومی اور بین الاقوامی سبھی شخصیتیں شامل ہیں۔ مولانا مشاہیر کے تذکرے میں نظریاتی اختلافات کے باوجود حتی المقدور توازن کو قائم رکھتے تھے، اور نظریاتی و سیاسی اختلاف کے باوجود اصحابِ علم و فضل اور مشاہیر کے انتقال پر ان کے ذکر کو ’’برہان‘‘ میں جگہ دیتے تھے۔ مولانا کی ان تعزیتی تحریروں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ مولانا نے جن شخصیات کے بارے میں لکھا ہے، صرف ان کی تاریخ پیدائش، تاریخ وفات اور ان کی چند سرگرمیوں تک اپنے قلم کومحدود نہیں رکھا، بلکہ ان کے مقام و مرتبے اور منصب کے ساتھ ان کی دینی، علمی، ادبی، سیاسی اور دیگر خدمات کا ایسا مکمل و مفصل جائزہ لیا ہے کہ ان کی زندگیوں کے جیتے جاگتے نمونے ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں، اور اس کی اثر انگیزی دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔
مجموعی طور پر ماہ نامہ ’’برہان‘‘ میں گزشتہ تریسٹھ برسوں (1938ء تا 2001ء) میں 336 شخصیات کی وفیات قلم بند کی گئی ہیں، جن میں سے ڈھائی سو سے زائد وفیات مولانا سعید اکبرآبادی کے قلم کی رہینِ منت ہیں۔ جب کہ باقی دیگر اہلِ قلم کی کاوشیں ہیں۔ یہ تذکرہ رفتگاں اعزہ و احباب، علماء و فضلاء، ادباء و شعراء، اربابِ سیاست اور اصحابِ کمال سب کو محیط ہے۔ بجا طور پر ’’برہان‘‘ کے یہ صفحات بھی گزشتہ صدی کی ملّی و قومی، علمی و ادبی اور سیاسی و سماجی تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔
ابتدا میں فہرست مضامین میں شخصیات کا اندراج ’’برہان‘‘ کی زمانی ترتیب کے مطابق کیا گیا ہے۔ جبکہ آخر میں (اشاریے میں) شخصیات کے ناموں کو الف بائی ترتیب سے درج کیا گیا ہے تاکہ مطلوبہ شخصیت کو تلاش کرنے میں آسانی رہے۔ اشاریے میں نام کے آخری جزو کو عموماً پہلے لایا گیا ہے۔ البتہ بعض صورتوں میں بوجوہ اس کا التزام نہیں رکھا گیا ہے۔ استثنائی حالتوں میں عبوری حوالے (Cross References) بھی دیے گئے ہیں۔
’’وفیاتِ برہان‘‘ کا مبسوط مقدمہ نہایت ہی ذمہ دار محقق، عالم اور مصنف جناب ڈاکٹر سفیر اختر کے قلم معجر رقم سے ہے، جو موضوع کے شایانِ شان ہے۔ اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا اکبر آبادی کا ایک بڑا حلقۂ نیازمندی اُن دیوبندی بزرگوں کا تھا جن سے انہوں نے استفادہ کیا تھا، یا اُن کے لیے اپنے دل میں محبت کے فراواں جذبات رکھتے تھے۔ انہیں مولانا اکبر آبادی نے بہت اچھے لفظوں میں یاد کیا ہے اور ان کی خوبیوں کا اظہار کیا ہے۔ تاہم مولانا اکبر آبادی اپنے مزاج کے اعتبار سے اپنے بزرگوں سے بھی اختلاف کرنے کا دل گردہ رکھتے تھے۔ مولانا محمد زکریا کاندھلوی دیوبندی حلقے اور بالخصوص تبلیغی جماعت میں جو بلند مقام رکھتے ہیں، اس سے دینی ذوق رکھنے والا ہر شخص واقف ہے، جب اُن کی طرف سے جماعت اسلامی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی مخالفت میں سخت عنوان کے ساتھ ایک کتاب شائع ہوئی تو ان کی زندگی میں مولانا اکبر آبادی نے اپنے اختلاف کا اظہار کیا اور اُن کے بارے میں اپنی تعزیتی تحریر میں بھی اس کی جانب اشارہ کیا ہے۔
مولانا اکبر آبادی کی مرقومہ وفیات میں بحیثیتِ مجموعی زندگی میں ہونے والے اختلافِ نظر کے باوجود جانے والے کی خوبیوں کے بارے میں فراخ دلی پائی جاتی ہے۔ ’’برہان‘‘ کے ’نظرات‘ اور ’تبصرۂ کتب‘ پڑھنے والوں سے مخفی نہیں کہ انہوں نے سید مودودی کی بعض تحریروں پر گرفت کی اور جب انہیں اپنی گرفت میں غلطی معلوم ہوئی تو اسے تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کی اور وفیات کے زمرے میں انہیں وہ خراجِ تحسین پیش کیا جو ایک معاصر پیش کرسکتا ہے۔ اُن کی وفیات میں معاصرین کے بارے میں اُن کی پختہ آراء سامنے آتی ہیں۔ مرحوم نیاز فتح پوری کو اردو ادب کا معمار تسلیم کرتے ہوئے لکھا ’’انھوں نے مؤرخ، عالمِ دین، ماہرِنفسیات ان میں سے ہر ایک کا روپ دھارنا چاہا، لیکن ان کو کامیابی نہیں ہوئی۔
مولانا اکبر آبادی کا شعری ذوق بہت اچھا تھا، خود بھی گاہے ماہے شعر کہتے تھے۔ اپنے بعض معاصر شعراء سے، جو شعر گوئی کے ساتھ دوسرے شخصی خصائص کے مالک بھی تھے، اُن کی یاد اللہ تھی، چنانچہ ’’وفیاتِ برہان‘‘ کی بزم میں بہت سے شعراء بھی دکھائی دیتے ہیں، اور ان تحریروں میں اردو شاعری کے حوالے سے ان کی تنقیدی آراء بھی سامنے آتی ہیں۔
جناب ڈاکٹر محمد سہیل شفیق ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پون صدی پر محیط ’’برہان‘‘ کی مجلدات کی ورق گردانی کی، جملہ وفیات کو تاریخی ترتیب سے مرتب کیا اور وفیات کے ذخیرۂ ادب میں ایک وقیع کتاب کا اضافہ کیا۔‘‘
جناب ڈاکٹر محمد سہیل شفیق ولد شفیق احمد صدیقی کراچی کی پیدائش ہیں (19 مئی 1977ء)، حافظ قرآن ہیں، سند شہادۃ العلوم الاسلامیہ دارالعلوم نضرۃ العلوم کراچی سے حاصل کی۔ ایم اے اسلامی تاریخ، ایم ا ے علوم اسلامیہ، پی ایچ ڈی اسلامی تاریخ جامعہ کراچی، ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی۔ ملکی و غیر ملکی رسائل و جرائد میں 60 سے زائد علمی و تحقیقی مقالات اور مضامین تحریر کرچکے ہیں۔ ان کی مطبوعہ کتب درج ذیل ہیں:
اشاریہ ماہنامہ معارف اعظم گڑھ بھارت، مشرق وسطیٰ کا بحران، اشاریہ نعت رنگ، وفیاتِ معارف، اشاریہ جہانِ حمد، نعت نامے بنام صبیح رحمانی، اشاریہ سہ ماہی التفسیر کراچی، معارفِ شبلی، مکتوب ترکی، وفیاِت برہان
زیر طبع کتب میں جامع نظامیہ بغداد، اشاریہ ارمغانِ حمد
ڈاکٹر محمد سہیل شفیق انتہائی شفیق، شریف، محنتی اور بااخلاق استاد اور دانشور ہیں۔ ان سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ اسلامی علوم میں گراں قدر اضافہ فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ۔
کتاب بڑے سائز میں طبع کی گئی ہے (11″X9″) سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔ اردو کے لٹریچر میں ثمین اضافہ ہے۔