نام کتاب : سنکیانگ نامہ
مصنف : ڈاکٹر شفیق انجم
ضخامت : 80 صفحات قیمت:250 روپے (گیارہ امریکی ڈالر)
ناشر : الفتح پبلی کیشنز۔ 392 اے، گلی نمبر 5 اے۔ لین نمبر 5 ۔گلریز ہائوسنگ اسکیم نمبر 2۔ راولپنڈی
فون نمبر : 03451138927
برقی پتا : alfathpublications@gmail.com
ویب : www.vprint.com
چین کے علاقے سنکیانگ کے مسلمانوں کی حالتِ زار کے بارے میں اطلاعات ہمارے برقی ذرائع ابلاغ پر تو شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہیں، اخبارات و جرائد بھی اس معاملے میں بہت زیادہ ’’احتیاط‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں، پھر بھی کبھی کبھار کہیں کوئی خبر یا مضمون نظر سے گزر جاتا ہے، تاہم سماجی ذرائع ابلاغ پر اب جو خبریں اور ویڈیوز سامنے آرہی ہیں وہ بہت تشویش ناک صورتِ حال کی عکاسی کرتی ہیں، مگر اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر موجود نصف صد سے زائد مسلمان ممالک، اور ذرا ذرا سی بات پر انسانی حقوق کی دہائی دینے والے مغربی ممالک اور عالمی ادارے بھی چینی مسلمانوں کے حق میں لب کشائی پر تیار نہیں۔ صرف جماعت اسلامی کے درویش صفت امیر سینیٹر سراج الحق نے اس جرأتِ رندانہ کا مظاہرہ کیا ہے کہ 14 جنوری 2019ء کو اپنے نائب امیر میاں محمد اسلم اور ڈائریکٹر امور خارجہ عبدالغفار عزیز کے ہمراہ اسلام آباد میں چینی سفیر سے ملاقات کی ہے اور چینی مسلمانوں کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جس پر چینی سفیر نے اپنے عذر اور وضاحتیں پیش کی ہیں، تاہم سینیٹر سراج الحق نے تشویش کے مداوا کے لیے عملی اور ٹھوس اقدامات پر اصرار کیا ہے۔ اللہ کرے یہ ملاقات نتیجہ خیز ہوسکے، تاہم حقیقت یہی ہے کہ صرف امیر جماعت اسلامی کی ایک آواز زیادہ مؤثر نہیں ہوسکتی، ضرورت ہے کہ حکومتی سطح پر بھی اس ضمن میں ذمہ داری کا احساس کیا جائے اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی اپنے مسلمان چینی بھائیوں کے دکھوں کے مداوا کے لیے آگے بڑھیں۔
سماجی ہوں یا دیگر ذرائع ابلاغ، ان کے ذریعے ملنے والی اطلاعات بہرحال بالواسطہ نوعیت کی ہیں، لیکن ڈاکٹر شفیق انجم کو اپنی فکرِ روزگار کے سلسلے میں خود مسلمان اکثریت کے چینی علاقے سنکیانگ میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے، چنانچہ سنکیانگ اور وہاں کے مسلمانوں کے بارے میں ان کی معلومات اور وہاں کے حالات کی تصویرکشی کانوں سنی ہی نہیں آنکھوں دیکھی کی سند بھی رکھتی ہے۔ انہوں نے سنکیانگ میں جو کچھ دیکھا بلکہ اُن کے اپنے بقول سنکیانگ اُن پر بیتتا رہا، ٹھیر ٹھیر کر، چپکے چپکے، لمحہ لمحہ قریب، قریب تر ہوکر۔ پس انہوں نے اسے صرف دیکھا ہی نہیں… سوچا، سمجھا اور بھگتا بھی ہے۔ اپنی اس قربت اور رفاقت کے کچھ زاویے انہوں نے اپنی ’’جلاوطن خودکلامی‘‘ اور ’’سنکیانگ میں محبت‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی نظمیہ کہانیوں کی کتب میں بیان کیے تھے، جب کہ ’’سنکیانگ نامہ‘‘ کے نام سے انہوں نے اپنی خوبصورت نثری تحریر میں کچھ مزید حقائق اور زاویوں کو سمیٹنے اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
تاریخ کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے ڈاکٹر شفیق انجم بتاتے ہیں کہ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ نویں، دسویں عیسوی میں یہاں اسلام کا ورود ہوا، اور تب سے اب تک یہ سارے صحرا نشین و پربت باسی صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔ مسلکی تقسیموں کے بارے میں یہ کم ہی جانتے ہیں۔ بس ایک سیدھا سادہ تصورِ اسلام کہ جو انہیں خدا اور رسولؐ سے جوڑے ہوئے ہے، انہیں موافق ہے۔
سنکیانگ کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ یہ علاقہ چین کے ایک صوبے کی حیثیت سے عالمی سطح پر مانا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن مسلم دنیا میں اسے چینی ترکستان کے نام سے پکارا، اور چین کے مقبوضہ علاقے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں یہاں آزادی کی تحریکیں بھی اٹھیں اور مسلح جدوجہد بھی ہوئی، لیکن چینیوں کا قبضہ بدستور رہا۔ ہندوستان میں بھی اس جدوجہد کی بازگشت سنی گئی۔ علامہ اقبال کے ایک خط میں چینی ترکستان کی تحریک اور ممکنہ صورتِ حال کی عکاسی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1955ء میں اس علاقے کی سرکاری نام دہی کا معاملہ زیر بحث آیا تو مجوزہ شنجیانگ اٹانومس ریجن کے مقابلے میں شنجیانگ اویغوراٹانومس ریجن نام کے لیے اصرار کیا گیا جو کہ قبول ہوا، اور یہی اب اس صوبے کا سرکاری نام ہے۔
جغرافیائی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر شفیق انجم لکھتے ہیں:
’’اس خطۂ اراضی کی سرحدیں آٹھ ممالک سے ملتی ہیں جن میں روس، منگولیا، قازقستان، کرغیرستان، تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا شامل ہیں۔ 16 لاکھ 64 ہزار 8 سو 97 مربع کلومیٹر پر پھیلے اس صوبے کا آدھے سے زیادہ علاقہ پہاڑوں اور صحرائوں نے گھیرا ہوا ہے۔ تیان شن کا پہاڑی سلسلہ اسے درمیان سے چیرتا ہوا دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ آسانی کے لیے ان حصوں کو پاکستان کی طرف کا علاقہ اور منگولیا کی طرف کا علاقہ کہہ سکتے ہیں۔ پاکستان کی طرف کے علاقے میں قراقرم کا پہاڑی سلسلہ بھی گھسا ہوا ہے، اور تکلا مکان اور ہوتن کے صحرا بھی یہیں ہیں۔ یہیں مشہورِ زمانہ شہر کاشغر ہے۔ دیگر شہروں میں کورلا، کوچہ، اکسو، اور ہوتن اہم ہیں۔ علاقے کے تناسب سے آبادی بہت ہی کم ہے اور محض دو، ڈھائی کروڑ لوگ پورے صوبے میں آباد ہیں۔ ان میں ایک کروڑ سے زیادہ اویغور ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں مسلمان واحد اکثریت تھے لیکن چینی عمل داری کے بعد منظم آبادکاری کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب یہ تناسب پینتالیس/ پچپن کا ہوگیا ہے۔ اور آنے والے برسوں میں گمان غالب ہے کہ اتنے چینی ہن یہاں آباد ہوجائیں گے کہ مسلم اکثریت آٹے میں نمک کے برابر رہ جائے گی۔ چین کے لیے اس صوبے کی حیثیت شہ رگ کی سی ہے۔ معدنیات سے مالامال اس علاقے سے چینی صنعت کی سانسیں چلتی ہیں۔ ‘‘
سنکیانگ کے مسلمانوں کی بپتا رقم کرتے ہوئے ڈاکٹر شفیق انجم کا قلم بھی اپنے آنسو روک نہیں پاتا:
’’کتنی ہی دلیر دوشیزائیں سنکیانگ کی مٹی کو اپنی بپتا سناتی دفن ہونے کے قریب ہیں۔ وہ موت کی دعا کرتی ہیں لیکن انہیں مرنے نہیں دیا جاتا، نشانِ عبرت بناکر زندہ رکھا جاتا ہے۔ ان کا جرم کچھ بھی نہیں سوائے اس کے کہ وہ اویغور ہیں، مسلمان ہیں، محکوم ہیں۔ سنکیانگ مکمل طور پر ایک پولیس اسٹیٹ ہے۔ ارومچی شہر میں اگرچہ بیرونی لوگوں کی آمدورفت کے باعث کسی قدر جارحانہ تاثر غیر واضح رکھنے کا شعوری اہتمام ملتا ہے، لیکن چند دن کی گزران میں حقیقت کھل جاتی ہے، اور جو لوگ ذرا طویل قیام کرپاتے ہیں انہیں بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے کہ سنکیانگ میں اویغور ہونے کا مطلب سسکتی موت ہے۔ بظاہر یہ لوگ زندہ ہیں لیکن انہیں اندر سے مار دیا گیا ہے۔ یہ خبریں تو اب عالمی میڈیا پر بھی عام ہیں کہ سنکیانگ میں اویغوروں کے لیے بڑے بڑے حراستی کیمپ بنائے گئے ہیں، جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ لائے جاتے اور انہیں اذیت ناک مراحل سے گزار کر وفادار بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان کیمپوں کی موجودگی سے چینی حکومت انکاری ہے اور اسے چین دشمن عناصر کا پروپیگنڈہ کہہ کر رد کیا جاتا ہے، لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ حراستی کیمپ ہونے نہ ہونے کی بات ایک طرف… یہاں تو گھر گھر، گلی گلی، کوچہ کوچہ حراست معصوم لوگوں کو دبوچے بیٹھی ہے۔ ہر اویغور مشکوک ہے، ہر اویغور دہشت گرد ہے اور ہر اویغور پر لازم ہے کہ وہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے چینی حکومت سے وفاداری کا ورد کرتا رہے۔ پولیس کی نگرانی کے ساتھ ہر اویغور گھرانے پر ایک چینی گھرانہ مامور ہے۔ نجی معاملات میں یہ چینی گھرانہ دوستی کے لیبل اور باہمی تعاون و مدد کے سلوگن کے ساتھ اویغور گھرانے کی کوتوالی کرتا ہے، باہمی شادیوں اور ثقافتی اشتراک کی راہ نکالتا ہے، اور اگر کہیں کسی طرح کی کم آمادگی یا گریز کی صورت دیکھتا ہے تو نہ جانے پولیس کو کیسے معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں اویغور گھرانے کے فلاں فرد یا پورے گھرانے کو خصوصی تربیت کی ضرورت ہے۔ پس تربیت دی جاتی ہے، اور ایسی کہ دائیں بائیں والوں کے بھی اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’سنکیانگ نامہ‘‘ اپنے موضوع پر پہلی، منفرد اور زوردار کاوش ہے۔ صرف 80 صفحات کی یہ کتاب ایک جانب خطے کے بارے میں زبردست معلومات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، تو دوسری جانب اس خطے کے باسی مسلمانوں پر شب و روز بیتنے والے مصائب و آلام کی بھی نہایت مؤثر الفاظ میں نقاب کشائی کرتی ہے… اور بلاشبہ پڑھے اور پڑھائے جانے کے لائق ہے۔