قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس آکر پوچھنے لگا یارسول اللہؐ کون سا صدقہ افضل ہے۔ آپؐ نے فرمایا:”صدقہ تندرستی کی حالت میں کروجبکہ (اس مال کو باقی رکھنے کے) خواہش مند بھی ہو(جس کے جمع ہو جانے کی صورت میں) تمہیں مالداری کی امید ہو اور (خرچ کی صورت میں) محتاجی کا ڈر بھی ہو۔ اس میں تاخیر نہ کرو حتیٰ کہ روح حلق تک پہنچ جائے اور تم کہنے لگو کہ اتنا مال فلاں کے لیے اور اتنا فلاں کے لیے۔ حالانکہ اس وقت وہ فلاں کا (وارثوں کا) ہو ہی چکا ہوتا ہے” (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
ڈاکٹر محمد رفعت
جو لوگ دعوت و اصلاح کا کام کرتے ہیں، اُن کو یہ سوال اکثر پریشان کرتا ہے کہ راہِ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی لوگ حق کو قبول کیوں نہیں کرتے؟ ذیل کی سطور میں یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے گی کہ قرآنِ مجید اس سوال کا کیا جواب دیتا ہے؟ یعنی قرآنِ مجید کے مطابق کن لوگوں کو ہدایت ملتی ہے اور کون اس سے محروم رہ جاتے ہیں؟
ہدایت اور اِذنِ الٰہی
داعی حق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تبلیغ کے تمام آداب کا لحاظ رکھے۔ مخاطب کے ذہن کو سامنے رکھ کر دل نشیں انداز میں دلائل پیش کرے، آفاق و انفس کی نشانیوں کی طرف توجہ دلاکر حق کو واضح کرے، موعظت ِ حسنہ سے کام لے، صبر کے ساتھ مخاطب کے سوالات کو سنے اور اُن کا جواب دے اور اپنی بساط بھر مخاطب پر حجت تمام کردے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود یہ ممکن ہے کہ مخاطب دعوت ِ حق کو قبول نہ کرے۔ یہ تجربہ ہر داعی کو ہوتا رہتا ہے۔ ایسی صورت ِ حال پیش آنے پر مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے داعیٔ حق کو یہ حقیقت اپنے ذہن میں تازہ کرلینی چاہیے کہ کسی شخص کو بہرصورت ہدایت دے دینا اُس کا کام نہیں ہے، بلکہ ہدایت ملنے یا نہ ملنے کا تعلق اللہ کی مشیت سے ہے۔ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:
’’آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں‘‘ (القصص: 56)
اس بنیادی حقیقت کے سامنے آجانے کے بعد ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہدایت سے متعلق مشیت ِ الٰہی، اللہ کی جس سنت کے تحت کام کرتی ہے وہ سنت کیا ہے اور اس کے مطابق کون لوگ ہدایت سے فیض یاب ہوتے ہیں اور کن لوگوں کو ہدایت نہیں ملتی۔
ہدایت پانے والے
قرآنِ مجید انسانوں کو اُن کی سعی و جہد کے مطابق دو قسموں میں تقسیم کرتا ہے۔ اُن میں سے ایک قسم اُن انسانوں کی ہے، جن کے لیے راہِ راست پالینا آسان ہوتا ہے:
’’درحقیقت تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں تو جس نے (راہِ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا اور بھلائی کو سچ مانا اُس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔‘‘ (الیل :4-7)
ان آیات میں راہِ راست پانے والوں کی تین اعلیٰ انسانی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ آدمی زر پرست نہ ہو بلکہ بھلائی کے کاموں میں مال خرچ کرنے کے لیے تیار ہو۔ جو شخص خرچ کرنے کے مواقع پر مال کو صحیح مصرف میں خرچ نہیں کرتا وہ دراصل اپنے انسانی مرتبے سے گرجاتا ہے۔ اس لیے کہ دنیا اور اُس کے وسائل کو تو اللہ نے اُسے اسی لیے بخشا تھا کہ وہ بوقت ِ ضرورت اُن سے صحیح کام لے۔ اب اگر وہ ان وسائل پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے اور ان کو صحیح مصرف میں نہیں آنے دیتا تو وہ گویا اپنے اعلیٰ انسانی مقام کی خود نفی کردیتا ہے۔ اِس کے برعکس جو شخص مال کو بھلے کاموں میں خرچ کرتا ہے، وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ دنیا اور اُس کے وسائل کی صحیح پوزیشن سے آگاہ ہے یعنی اس حقیقت سے باخبر ہے کہ دنیا کے وسائل اُس کو بھلے کاموں میں استعمال کرنے کے لیے دیے گئے ہیں۔ جو شخص اِس اعلیٰ انسانی صفت کا مظاہرہ کردے اُس کے لیے ہدایت کے راستے یقینا کھل جانے چاہئیں۔
دوسری انسانی صفت جس کا ذکر کیا گیا ہے وہ تقویٰ ہے۔ یہ وہی بات ہے جو سورۂ بقرہ کے آغاز میں کتاب ِ الٰہی کا تعارف کراتے ہوئے کہی گئی ہے: ’’یہ کتاب ہدایت ہے، پرہیزگار لوگوں کے لیے۔‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس کے ذیل میں فرماتے ہیں:
’’(تقویٰ کی صفت سے مراد یہ ہے کہ) آدمی پرہیزگار ہو، بھلائی اور برائی میں تمیز کرتا ہو، برائی سے بچنا چاہتا ہو، بھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ، جو دنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں، جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہش نفس دھکیل دے، یا جدھر قدم اٹھ جائیں، اُسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائی نہیںہے۔‘‘(تفہیم القرآن، سورہ البقرہ، حاشیہ:3)
ہدایت پانے کے لیے تیسری صفت جس کاتذکرہ کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی حق اور راستی کا قدردان ہو۔ جب حق اُس کے سامنے آئے تو وہ اسے ایک قیمتی متاع سمجھے اور شوق و ذوق کے ساتھ اُس کی طرف لپک پڑے، اور جب سچائی اُس پر کھل جائے تو وہ پوری جرأت کے ساتھ اُس کی تصدیق کرے۔ رہے وہ لوگ جو حق کو حق ماننے سے ’نفع و نقصان‘ کا حساب لگائیں اور اگراُن کی کوتاہ بیں آنکھوں کو قبولِ حق کے راستے میں دنیا کا ظاہری گھاٹا نظرآئے تو حق سے منہ پھیر لیں تو ایسے لوگ یقینا ہدایت کے مستحق نہیں ہیں۔ داعیٔ حق کی بات اُن کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔
عشق فرمودۂ قاصد پہ سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیٔ پیغام ابھی
ہدایت سے محروم رہنے والے
سطورِ بالا میں ہدایت پانے والوں کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ یہ ایک قسم کے انسان ہیں۔ انسانوں کی دوسری قسم وہ ہے جو ہدایت سے محروم رہتی ہے۔ یہ محرومی بلاوجہ نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ اُن کی اپنی مساعی ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:
’’اور جس نے بخل کیا اور (اپنے خدا سے) بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا، اس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اور اُس کا مال آخر اُس کے کس کام آئے گا، جب کہ وہ ہلاک ہوجائے۔‘‘ (الیل : 8-11)
بخل، حق سے بے نیازی اور بھلائی کو جھٹلانا… یہ وہ ناپسندیدہ صفات ہیں جو انسان کو ہدایت سے محروم رکھتی ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ان صفات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بخل سے مراد محض وہ بخل نہیں ہے جس کے لحاظ سے عام طور پر لوگ اُس آدمی کو بخیل کہتے ہیں جو روپیہ جوڑجوڑ کر رکھتا ہے اور اُسے نہ اپنے اوپر خرچ کرتا ہے، نہ اپنے بال بچوں پر۔ بلکہ اِس جگہ بخل سے مراد راہِ حق میں اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مال صَرف نہ کرنا ہے اور اِس لحاظ سے وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنی ذات پر، اپنے عیش و آرام پر، اپنی دلچسپیوں اور تفریحوں پر تو خوب دل کھول کر مال لٹاتا ہے، مگر کسی نیک کام کے لیے اُس کی جیب سے کچھ نہیں نکلتا، یا اگر نکلتا بھی ہے تو یہ دیکھ کر نکلتا ہے کہ اس کے بدلے میں اُسے شہرت، نام و نمود، حکام رَسی، یا کسی اور قسم کی منفعت حاصل ہوگی۔
بے نیازی برتنے سے مراد یہ ہے کہ آدمی دنیا کے مادّی فائدوں ہی کو اپنی ساری تگ و دو اور محنت اور کوشش کا مقصود بنالے اور خدا سے بالکل مستغنی ہوکر اس بات کی کچھ پروا نہ کرے کہ کس کام سے وہ خوش اور کس کام سے وہ ناراض ہوتا ہے۔
رہا بھلائی کو جھٹلانا، تو وہ اپنی تمام تفصیلات میں بھلائی کو سچ ماننے کی ضد ہے۔‘‘
(تفہیم القرآن، سورہ لیل، حاشیہ:4)