آل انڈیا مسلم لیگ لیجسلیٹر کنونشن اپریل 1946ء۔

قائداعظمؒ کی صدارت میں مرکز اور تمام صوبوں کے منتخب اراکینِ مجالسِ قانون ساز نے یہ قرارداد اتفاقِ رائے سے منظور کی تھی: ’’چونکہ انڈیا کے اس وسیع وعریض برعظیم میں دس کروڑ مسلمان ایسے عقیدے اور دین کے حامل ہیں جو ان کی زندگی کے ہر شعبے کا نظم و انتظام کرتا ہے (خواہ وہ شعبہ تعلیمی ہو، سماجی ہو، معاشی ہو یا سیاسی) اس کا ضابطہ روحانی تعلیمات و قوانین یا مناسک و تقریبات تک محدود نہیں ہے، وہ ہندو دھرم کے اس جداگانہ خصوصی فلسفے کے مزاج سے قطعی مختلف اور برعکس ہے جس نے ہزاروں سال سے پوری سنگ دلی کے ساتھ ذات پات کے نظام کو رائج کر رکھا ہے اور آج تک جاری ہے، اور جس کی بدولت چھے کروڑ انسان اچھوت بناکر قعرِ مذلت میں ڈال دیے گئے ہیں اور آدمی کے درمیان ایک غیر فطری دیوار کھڑی ہے۔ اور اس ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے پر سماجی و معاشی عدم مساوات کے اصول بری طرح مسلط ہیں، اور اب خطرہ یہ لاحق ہے کہ وہ مسلمانوں کو، مسیحیوں کو اور دوسری اقلیتوں کو بھی سماجی اور معاشی طور پر گرا کر ناقابلِ علاج غلامی کی پستی کے درجے تک پہنچا دے۔
اور چونکہ ذات پات کا یہ ہندوانہ نظام نیشنلزم، مساواتِ انسانی، ڈیموکریسی اور تمام شریفانہ تصورات کی براہِ راست نفی ہے، انکار ہے جن کا علَم بردار اسلام ہے۔اور چونکہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے جداگانہ تاریخی پس منظر، جداگانہ روایات، جداگانہ کلچر اور جداگانہ سماجی و معاشی نظام ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ بات ناممکن ہے کہ واحد انڈین نیشن کے ارتقاء کی کوئی صورت ایسی پیدا ہو جو مشترک امنگوں اور مشترک تصورات کے ذریعے ابھر کے سامنے آئے، اور چونکہ صدیوں کے میل جول کے باوجود یہ دونوں بڑی قومیں اپنے اپنے جداگانہ امتیاز کے ساتھ بدستور قائم ہیں اور چونکہ برطانیہ کی جانب سے انڈیا میں مغربی طرز کے سیاسی اداروں کے قیام کی پالیسی روشناس ہوئی ہے جن کی بنیاد اکثریت کی حکمرانی کے اصول پر ہوگی تو یہاں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک قوم کی اکثریت سوسائٹی پر اس کی مخالفت کے باوجود اپنی مرضی تھوپے گی۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت قائم ہونے والی کانگریسی حکومتوں کے دور میں ڈھائی سال تک ہندو اکثریت کے صوبوں میں اس کا مظاہرہ ہوچکا ہے جہاں مسلمانوں کو ناقابلِ بیان حد تک خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا اور پامال کیا جاتا رہا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو یہ یقین ہوچکا ہے کہ آئین میں اور گورنروں کے ہدایت ناموں میں جو تحفظات مہیا کیے گئے ہوں وہ ناکارہ و بے اثر ہوتے ہیں، اور اب مسلمان اس ناقابلِ تردید نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ یونائیٹڈ انڈین فیڈریشن میں، اگر اس کو نافذ کیا گیا، مسلمانوں کی قسمت اپنی اکثریت کے صوبوں میں بھی اس سے کچھ اچھی نہیں ہوگی، اور مرکز میں بھی ایک پائیدار دائمی ہندو اکثریت کے مقابلے میں ان کے مفادات کی معقول حفاظت ہرگز نہیں ہوگی۔
اور چونکہ مسلمان قائل ہوچکے ہیںکہ ہندوئوں کے تسلط سے بچنے اور خود اپنی ذہانت و فطانت اور خواہشات کے مطابق اپنی ترقی و توسیع کی بھرپور گنجائش پیدا کرنے کی خاطر ضروری ہے کہ ایک خودمختار ریاست شمال مشرقی زون میں بنگال و آسام پر مشتمل، اور شمال مغربی زون میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل قائم کردی جائے۔لہٰذا مسلم لیگ کے تمام مرکزی اور صوبائی لیجسلیٹرز کا یہ کنونشن پوری احتیاط سے غوروفکر کے بعد یہ اعلان کرتا ہے کہ مسلم قوم کسی ایسے آئین کے سامنے، جو متحد انڈیا کے لیے بنایا گیا ہے، سرِتسلیم خم کرنے کو ہرگز آمادہ نہیںہوگی اور نہ کسی ایسے آئین ساز ادارے میں حصہ لینے پر تیار ہوگی جو واحد وحدت کے مقصد سے تیار کیا گیا ہو، اور یہ کہ کوئی فارمولا بھی جو برطانوی حکومت برعظیم کی قوموں کو اختیارات سونپنے کے لیے بنائے گی، اگر وہ حسب ذیل منصفانہ اور عادلانہ اصولوں کے مطابق نہ ہوا جو اس ملک میں داخلی امن و سکون کو برقرار رکھنے کے لیے ہیں، تو برعظم کے مسائل کا حل اس سے کبھی حاصل نہیں ہوگا:
1۔ وہ زون جو بنگال و آسام پر مشتمل انڈیا کے شمال مشرق میں ہیں اور پنجاب،سندھ اور بلوچستان پر مشتمل شمال مغرب میں ہیں، وہ پاکستان زون ہیں، جہاں مسلمان اپنی غالب ترین آبادی رکھتے ہیں، ان کو ایک خودمختار ریاست کی صورت دے دی جائے اور غیرمبہم انداز میں یہ ضمانت بھی دی جائے کہ اس کو روبہ عمل لاکر پاکستان کے قیام کی تکمیل کی جائے گی۔
2۔ اور یہ کہ آئین ساز ادارے جداگانہ قائم کیے جائیں جو پاکستان کے لوگوں اور ہندوستان کے لوگوں پر الگ الگ مشتمل اپنے آئین مرتب کرنے کے لیے ہوں۔
3۔ اور یہ کہ وہ اقلیتیں جو پاکستان میں اور ہندوستان میں ہوں گی، ان کو تحفظات اسی نقشے پر مہیا کیے جائیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کی قراردادِ لاہور مورخہ 23 مارچ 1940 ء میں درج ہے۔
4۔ اوریہ کہ مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کا تسلیم کرنا اور اس کو بلاتاخیر روبہ عمل لانا لازمی شرط ہے مسلم لیگ کے تعاون کی اور مرکز کی انٹرم (عارضی) گورنمنٹ کے قیام میں حصہ لینے کی۔
کنونشن مزید پوری قوت سے اعلان کرتا ہے کہ کوئی کوشش بھی اگر متحدہ ہندوستان کی بنیاد پر کسی قانون کو مسلط کرنے کی یا زبردستی کسی عارضی انتظام کو نافذ کرنے کی مسلم لیگ کے مطالبے کے برخلاف ہوئی تو مسلمانوں کے لیے کوئی چارہ اس کے سوا باقی نہیں رہے گا کہ مسلمان اپنی بقاء اور قومی وجود کی خاطر اس کی مزاحمت اور مقابلہ تمام تر امکانی وسائل سے کریں۔
(قراردادِ پاکستان کی واضح تصویر… از رضوان احمد (سوانح نگار قائداعظم) ماہنامہ ’نظریہ‘ اسلام آباد)

مردانِ خدا

وہی ہے بندئہ حر جس کی ضرب ہے کاری
نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیاری!
ازل سے فطرتِ احرار میں ہیں دوش بدوش
قلندری و قبا پوشی و کلہ داری!
زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے
انہیں کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری!
وجود انہیں کا طوافِ بتاں سے ہے آزاد
یہ تیرے مومن و کافر تمام زناری!

حرب: جنگ۔
1۔ بندۂ آزاد یا خدا کا مقبول بندہ وہی ہے جس کا وار کاری ہو۔ یعنی جس مقصد کے لیے وہ کوئی ضرب لگائے، اسے پورا کردے۔ اسے بندۂ حر نہیں کہہ سکتے، جس کی جنگ مکاری اور عیاری پر مبنی ہو۔
2۔ قلندر ہونا، قبا پہننا اور تاج سر پر رکھنا یعنی درویشی اور سلطانی الگ الگ صفتیں سمجھی جاتی ہیں، لیکن خدا کے پاک بندوں کی فطرت میں روزِ ازل سے یہ صفتیں پہلو بہ پہلو چلی آتی ہیں۔ وہ درویشی کے باوجود سلطانی کرتے ہیں اور تختِ سلطنت پر پہنچ جانے کے باوجود درویش رہتے ہیں۔
3۔ انہیں کی خاک میں وہ چنگاری چھپی ہوتی ہے، جسے زمانہ اُٹھا کر آفتاب بنادیتا ہے۔
مراد یہ ہے کہ ان کے دل اور روح سے عشقِ حق کی جو چنگاریاںٖ نکلتی ہیں، وہ مدت تک زمانے کے لیے ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ نور بنی رہتی ہیں۔
4۔ وہی ہیں، جو خدا کے سوا کسی کو نہیں پوجتے۔ انہیں کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہر غیر اللہ شے کو بت سمجھتے ہیں اور ان بتوں کا طواف نہیں کرتے، ورنہ اے خدا! تیرے مومن اور کافر سب کے سب کم و بیش بتوں کے پجاری ہیں، گویا انہوں نے زنار باندھ رکھے ہیں۔