ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ فرائیڈ اور فاسٹ فوڈ درمیانی عمر کے افراد میں قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھا دیتی ہے اور اس کا حد سے زائد استعمال کسی بھی طرح درست نہیں۔
قبل ازیں کئی تحقیقات اور مطالعات سے ثابت ہوچکا ہے کہ اندھا دھند فاسٹ فوڈ کھانے سے کئی طرح کے امراض بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ فاسٹ فوڈ کا بے تحاشا استعمال امراضِ قلب اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بھی بڑھاتا ہے۔ برٹش میڈیکل جرنل میں شائع تحقیق کے مطابق اس ضمن میں امریکہ میں ایک سروے کیا گیا ہے جس میں 50 سال سے زائد عمر کی خواتین اور فرائیڈ فوڈ کے درمیان تعلق واضح طور پر سامنے آیا ہے۔ مطالعے میں 50 سے 79 سال کی 106,966 خواتین کو شامل کیا گیا اور ایک پروگرام کے تحت 1993ء سے 1998ء تک ان کی صحت کا جائزہ لیا گیا، اور آخر میں فروری 2017ء میں دوبارہ ان سے رابطہ کیا گیا۔ اس دوران 31 ہزار 500 سے زائد خواتین کا انتقال ہوگیا جن میں 9320 عارضہ قلب سے فوت ہوئیں، 8358 کینسر سے مریں اور 13 ہزار 880 خواتین کے مرنے کی دیگر کئی وجوہ تھیں۔ رپورٹ میں ان کے کھانے پینے کی عادات کو بھی نوٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ رغبت سے فرائیڈ فوڈ کھانے والی خواتین میں دل کا دورہ پڑنے کے امکانات زیادہ تھے اور اسی کیفیت میں ان کا انتقال بھی ہوا، سب سے زیادہ خطرہ ان خواتین میں دیکھا گیا جو روزانہ کم ازکم ایک مرتبہ فرائیڈ فوڈ یا فاسٹ فوڈ کھایا کرتی تھیں۔
اس طرح دیگر خواتین کے مقابلے میں جنہوں نے روزانہ کی بنیاد پر ایک مرتبہ فرائیڈ فوڈ کھایا اُن میں تمام وجوہ سے موت کا خطرہ 13 فیصد اور دل کے دورے سے مرنے کا خطرہ 12 فیصد زیادہ سامنے آیا۔ اسی مطالعے کی روشنی میں ماہرین نے 50 برس سے زائد عمر کی خواتین کو فرائیڈ فوڈ کھانے میں احتیاط اور اسے محدود کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
پاکستان میں ’پودوں سے ذیابیطس کے علاج‘ کی ایشیائی کانفرنس کا آغاز
جامعہ کراچی میں واقع بین الاقوامی مرکز برائے حیاتیاتی کیمیائی علوم (آئی سی سی بی ایس) کے ذیلی ادارے ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی) کے زیرِاہتمام تین روزہ ذیابیطس کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے جس سے صوبائی وزیرِصحت و بہبودِآبادی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے بھی خصوصی خطاب کیا۔ ایشین نیٹ ورک آف اینٹی ڈائیبیٹک پلانٹس (اے این آر اے پی) کے تحت سہ روزہ کانفرنس کے پہلے روز ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے بین الاقوامی سیمینار کو قابلِ ستائش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ANRAP ذیابیطس پر گراں قدر تحقیقی کام سرانجام دے رہا ہے۔ انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ سندھ حکومت نے صوبائی اسمبلی میں زخمی افراد کے لازمی اور فوری علاج معالجے کا بل متعارف کروایا ہے۔
اس سیمینار میں ساڑھے تین سو سے زائد ملکی و غیر ملکی سائنس دان اور محققین شرکت کررہے ہیں۔ افتتاحی تقریب میں کراچی میں بنگلہ دیشی ڈپٹی ہائی کمشنر نورِ ہلال سیف الرحمن، اے این آر اے پی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرمحمد مسیح الزماں، شیخ الجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان، سربراہ آئی سی سی بی ایس پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چودھری، چین کے اسکالر پروفیسر ڈاکٹر ویے وینگ، آسٹریلیا کے پروفیسر ڈاکٹر بیری نالر، پنجوانی سینٹر کی ڈاکٹر عصمت سلیم اور ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، جبکہ ڈاکٹر پنجوانی میموریل ٹرسٹ کے ڈاکٹر امتیاز بشیر سمیت ملکی و غیر ملکی ماہرین اور طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نے اس تقریب میں شرکت کی۔ ’پودے سے پیٹنٹ تک‘ سیمینار کا ذیلی عنوان بھی تھا۔
فیس بُک کا اپنی تمام میسجنگ ایپس اکٹھی کرنے کا فیصلہ
انسٹاگرام، واٹس ایپ اور فیس بُک میسنجر ایک ہی کمپنی کی مختلف میسجنگ ایپلی کیشنز ہیں اور اربوں افراد انہیں استعمال کرتے ہیں، مگر ایک ایپ سے دوسری میں میسج بھیجنا ابھی ناممکن ہے۔مگر اب لگتا ہے کہ یہ بات ماضی کا قصہ بننے والی ہے، کیونکہ فیس بُک انسٹاگرام، میسنجر اور واٹس ایپ صارفین کو ایک دوسرے کو کسی بھی ایپلی کیشن میں میسج بھیجنے کی سہولت فراہم کرنے پر کام کررہی ہے۔
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ تینوں سروسز خودمختار ایپ کے طور پر کام کرتی رہیں گی، مگر ایسا انفرااسٹرکچر بنایا جائے گا جو صارفین کو اس کمپنی کی تمام ایپس میں میسجنگ کی سہولت فراہم کرے گا۔ فیس بُک کے ایک ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ’ہم ہر ممکن حد تک بہتر میسجنگ تجربہ صارفین کو فراہم کرنا چاہتے ہیں، اور لوگ بھی تیز، سادہ، قابلِ انحصار اور نجی میسجنگ کے خواہش مند ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی میسجنگ پراڈکٹس کو اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن سے لیس کرنے پر کام کررہے ہیں، جبکہ تمام نیٹ ورکس پر دوستوں اور رشتے داروں تک رسائی کو آسان بنارہے ہیں‘۔
تینوں ایپس کے صارفین کو تمام پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقع فراہم کرنے پر فیس بُک کو توقع ہے کہ صارفین اپنا زیادہ وقت اس کی ایپس میں گزاریں گے اور یوزر انگیجمنٹ بڑھ جائے گی۔