مظفر وارثی

پیشکش: ابوسعدی
رسیلے لہجے اور ترنم کے حوالے سے عالمگیر شہرت رکھنے والے نعت خواں اور غزل گو شاعر مظفر وارثی کا اصل نام مظفر الدین صدیقی تھا۔ 23 دسمبر 1933ء کو میرٹھ [یو پی، بھارت] میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے غزلیں بھی لکھیں، حمدو نعت کے میدان میں اصل شہرت حاصل کی، مضامین بھی تحریر کیے، اور ملّی گیت نگاری میں بھی منفرد مقام حاصل کیا۔ انہوں نے کئی کتب تصنیف کرنے کے علاوہ اپنی خودنوشت ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ کے عنوان سے بھی تحریر کی۔ مظفر وارثی الحاج کے والد محمد شریف الدین احمد کو صوفی وارثی بھی کہا جاتا تھا۔ یہ میرٹھ کے زمیندار تھے۔ صوفی وارثی دینی عالم بھی تھے، ڈاکٹر بھی اور شاعر بھی۔ انہیں دو خطاب ملے ’’ فصیح الہند‘‘ اور ’’شرف الشعرا‘‘۔ صوفی وارثی حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے دوست تھے۔ اس کے علاوہ اکبر وارثی، عظیم وارثی، حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، احسان دانش، ابوالکلام آزاد اور مہندر سنگھ بیدی بھی ان کے احباب میں شامل تھے۔ مظفر وارثی کے بھتیجے عثمان وارثی گلوکار، موسیقار اور شاعر ہیں۔ ان کے پوتے امثل وارثی بھی گلوکار، نغمہ نگار اور شاعر ہیں۔ مظفر وارثی ایک بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے جب شاعری شروع کی تو ملّی گیت نگاری کی طرف توجہ دی، لیکن جلد ہی گیت نگاری چھوڑ کر حمدیں اور نعتیں لکھنا شروع کردیں۔ ان کی مشہور حمد اور نعتوں میں کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے، میرا پیمبر عظیم تر، اور یارحمۃ للعالمین میں شامل ہیں۔ اور آج کی مشہور و مقبول نعت ’’تُو کجا من کجا‘‘کے خالق بھی آپ ہی ہیں۔ مظفر وارثی کو رعشے کا مرض تھا۔ بہت عرصہ علیل رہنے کے بعدآپ کا انتقال 28 جنوری 2011ء کو ہوا۔

گدھا اور بن مانس

ایک گدھا اور بن مانس آپس میں بیٹھے ہوئے خدا کی ناشکری کررہے تھے۔ گدھے کو یہ شکایت تھی کہ : ’’ہائے میرے سر پر سینگ نہیں‘‘۔ اور بن مانس اس سے ناخوش تھا کہ:’’افسوس میں دُم سے محروم ہوں‘‘۔
چھچھوندر یہ باتیں سن کر بولی: ’’چُپ ہو۔ کم بختو، مت کفر بکو۔ مجھ کو دیکھو کہ سینگ اور دُم کے علاوہ آنکھیں بھی نہیں‘‘۔
حاصل
خدا نے ہم کو جس حال میں رکھا ہے قابلِ شکر ہے۔ حریص خوش نہیں رہ سکتا۔
(’’منتخب الحکایات‘‘… نذیر احمد دہلوی)

انوکھی تصنیف

علامہ اقبال
علامہ اقبال کو حکومت کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب ملا تو انہوں نے اسے قبول کرنے کی یہ شرط رکھی کہ ان کے استاد مولانا میر حسن کو بھی ’’شمس العلماء‘‘ کے خطاب سے نوازا جائے۔ حکام نے یہ سوال اٹھایا کہ ان کی کوئی تصنیف نہیں، انہیں کیسے خطاب دیا جاسکتا ہے!
علامہ نے فرمایا:’’ان کی (یعنی مولانا کی) سب سے بڑی تصنیف خود میں ہوں۔ چنانچہ حکومت کو ان کے استاد کو’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینا پڑا۔

(KFC)کرنل ہارلینڈ سینڈرز

آپ کو پاکستان کے بڑے شہروں میں KFC کے بورڈ والے ریسٹورنٹ دکھائی دیں گے۔ اس طرح کے ریسٹورنٹ دنیا کے 80 ممالک میں پائے جاتے ہیں، جن میں 2 ارب فرائی چکن سرو کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے کو شروع کرنے والے صاحب کا نام کرنل ہارلینڈ سینڈرز تھا۔ اس نے اپنے وژن کو کس عمر میں عملی شکل دینے کا آغاز کیا تھا؟ یہ وہ عمر ہے جب ہمارے ہاں قبر میں جانے کی تیاری ہورہی ہوتی ہے۔ اُسے اس لیے کامیابی حاصل ہوئی کیونکہ اُسے اپنے آئیڈیا کی کامیابی پر کامل یقین تھا۔ تب تک وہ سوشل سیکورٹی سے ملنے والی رقم سے گزارا کررہا تھا۔
ہارلینڈ سینڈرز نے 6 سال کی عمر میں کھانا پکانا سیکھ لیا۔ اس کے باپ کا تب انتقال ہوچکا تھا۔ اس کی ماں نے مجبوراً مزدوری کرنا شروع کی۔ گھر کے کام کاج کے علاوہ سینڈرز میز پر کھانا لگاتا۔ اس نے پہلا کام 12 سال کی عمر میں ایک فارم پر کیا۔ پھر وہ ویگنوں کا کنڈیکٹر بن گیا۔ وہ بطور فوجی کیوبا میں گیا۔ وہ ریل روڈ فائر مین بنا۔ اس نے خط کتابت کے ذریعے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اس نے انشورنش اور ٹائر فروخت کیے اور اوہائیو دریا میں اسٹیم بوٹ آپریٹر رہا اور گیس اسٹیشن چلایا۔
جب اس کی عمر 40 برس ہوگئی تو سینڈرز نے اپنے گیس اسٹیشن پر بھوکے مسافروں کو کھانا کھلانا شروع کیا۔ وہ یہ کھانا اپنے رہائشی کوارٹر میں ڈائننگ ٹیبل پر کھلاتا۔ جلد ہی لوگ اس کے ہاتھوں کا پکا کھانا کھانے اس کے ہاں آنے لگے۔ اس نے 142 افراد کے بیٹھنے والا ریسٹورنٹ کھول لیا۔ اگلے 9 سال کے دوران اس نے گیارہ جڑی بوٹیوں اور مسالہ جات پر مشتمل اپنے کھانوں کا نسخہ مکمل کرلیا، جو آج تک استعمال ہورہا ہے۔ اس کی شہرت بڑھتی گئی، حتیٰ کہ دو ریاستوں کے درمیان مین ہائی وے تعمیر کی زد میں اس کا ریستوران بھی آگیا اور مجبوراً اسے بیچنا پڑا۔ اپنے تمام قرضے اُتارنے کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچا تھا اور اسے 105 ڈالر سیکورٹی چیک پر گزارا کرنا پڑا۔لیکن کرنل کے پاس ایک وژن تھا۔ اس نے 1952ء میں اپنے فرائی چکن فارمولے کو فرنچائز کرنا شروع کیا۔ 65 سالہ کرنل نے اپنی کار میں پورے امریکہ کا چکر لگایا اور ریستورانوں کے مالکوں کو اپنا تیار کردہ چکن ٹیسٹ کروایا۔ جنہوں نے ہامی بھری۔ ان کے ساتھ طے پایا کہ وہ اس کا چکن ایک آنے میں خریدیں گے۔ 1964ء تک امریکہ اور کینیڈا میں 600 ریستوران اس کے گاہک بن چکے تھے۔ اس نے اپنے شیئرز 20 لاکھ ڈالر میں ایک سرمایہ کار کو فروخت کردیے۔ وہ بطور ترجمان کام کرتا رہا اور 1976ء میں وہ دنیا کا دوسرا جانا پہچانا نام بن چکا تھا۔ کرنل سینڈرز نے اس کے بعد بھی اپنی ’’کے ایف سی‘‘ ایمپائر کے وزٹ کا سلسلہ جاری رکھا اور 90 سال کی عمر میں انتقال کرنے سے پہلے وہ 2 لاکھ 50 ہزار میل سفر طے کرچکا تھا۔
(بشکریہ ماہنامہ اقدار ملت)