ساری دنیا میں حکمران باپ کی طرح ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں حکمران پاپ کی طرح ہوتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سانحۂ ساہیوال ہے۔ اس سانحے میں ایک جعلی مقابلے میں پنجاب کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ماں، بیٹی اور شوہر سمیت چار افراد کو دن دہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مقتول خلیل احمد کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا زخمی ہونے کے باوجود قسمت سے زندہ بچ گئے۔ سانحے کی اطلاع ملتے ہی مقتول خلیل کی والدہ انتقال کرگئیں۔ اطلاعات کے مطابق خلیل احمد مرحوم اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ شادی میں شرکت کرنے کے لیے لاہور سے بورے والا جارہے تھے۔ پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی کی مجرمانہ ذہنیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بقول اس نے سانحے کے حوالے سے سات مرتبہ اپنا مؤقف تبدیل کیا۔ اس سانحے کی المناکی نے پوری قوم کو سوگوار کردیا ہے۔ عوامی ردعمل سے گھبرا کر پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کے لیے دو کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے اور ایک جے آئی ٹی قائم کردی ہے جو تین دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے بھی سانحے کا نوٹس لے لیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ وہ دورۂ قطر کے بعد ذمے داروں کو قرار واقعی سزا بھی دلوائیں گے اور پنجاب پولیس کے ڈھانچے پر بھی نظرثانی کریں گے۔
پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کی تاریخ سفاکی اور اخلاقی و سیاسی بے حیائی سے بھری ہوئی ہے۔ لیاقت علی خان پاکستان کے بانیوں میں سے تھے مگر انہیں دن دہاڑے جلسے میں شہید کردیا گیا، لیکن آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کا قاتل کون تھا اور انہیں کس ’’خوشی‘‘ میں قتل کیا گیا؟ قائداعظم کی بہن اور مادرِِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا تو انہیں غدار اور بھارت کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے اور فوجی آپریشن کی نوبت آئی تو جنرل ٹکا خان نے فرمایا کہ ہمیں لوگ نہیں چاہئیں، علاقہ چاہیے۔ ٹائیگر کہلانے والے جنرل نیازی نے اعلان کیا کہ ’’ہم‘‘ بنگالیوں کی نسل بدل ڈالیں گے۔ یعنی اتنی بڑی تعداد میں بنگالی عورتوں کی عصمت دری کریں گے کہ بنگالی بنگالی نہیں رہیں گے۔
گھر میں گلاس ٹوٹ جاتا ہے تو انسان جاننا چاہتا ہے کہ گلاس کس نے اور کیوں توڑا؟ مگر 1971ء میں پاکستان ٹوٹ گیا اور ہمیں آج تک معلوم نہیں کہ پاکستان کس نے اور کیوں توڑا؟ سانحۂ مشرقی پاکستان کے جائزے کے لیے قائم کیے گئے حمودالرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں صاف کہا کہ جنرل یحییٰ، جنرل نیازی، جنرل مٹھا اور جنرل عمر پر مقدمات چلنے چاہئیں۔ مگر ان پر کبھی مقدمات نہ چلائے جاسکے۔ اس کے برعکس انہیں ان کے انتقال کے بعد پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ یہاں تک کہ حمودالرحمن کمیشن کی پوری رپورٹ آج تک شائع نہیں ہوسکی۔ پاکستان کی تخلیق میں جرنیلوں کا کوئی کردار ہی نہیں، مگر جرنیل جب چاہتے ہیں مارشل لا لگادیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد سول حکمران بھی سول نہیں، اس لیے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ملک و قوم کو بھٹوئوں، شریفوں، الطافوں اور عمران خانوں کے تحفے دیے ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک شخص کے قتل کے الزام میں پھانسی چڑھادیا گیا اور پوری قوم کو 20سال کے لیے پیپلز پارٹی کے حامیوں اور پیپلزپارٹی کے حریفوں کی بے معنی محاذ آرائی میں جھونک دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق ملک کے صدر بھی تھے اور پاک فوج کے سربراہ بھی، مگر ان کا طیارہ دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا گیا۔ قوم اب تک سوال کرتی ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے طیارے تک کس کی رسائی ہوسکتی تھی؟ قوم سوال کرتی ہے کہ جنرل ضیاء الحق کا طیارہ کس نے اور کیوں تباہ کیا؟ پاکستان کے فوجی یا سول حکمرانوں نے کبھی قوم کو ان سوالات کے ’’سرکاری جوابات‘‘مہیا نہیں کیے۔ ڈی جی رینجرز سندھ محمد سعید نے حال ہی میں اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ گزشتہ 35سال کے دوران کراچی میں 92ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فوجی اور سول حکمرانوں نے ایک شہر میں 92ہزار لوگوں کی المناک ہلاکت کو کیوں قبول کیا اور آج تک قوم کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ 92ہزار افراد کی موت اور 92ہزار خاندانوں کو سوگ میں مبتلا کرنے کا ذمے دار کون ہے؟ الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم؟ 35سال کے دوران تین بار اقتدار میں آنے والے میاں نوازشریف؟ اس عرصے میں اقتدار پر چار بار قابض ہونے والی پیپلز پارٹی؟ اسٹیبلشمنٹ؟ یا بیک وقت تمام؟ سوال یہ کہ جب اتنے بڑے بڑے اور اتنے اہم سوالات کے جوابات آج تک فراہم نہیں ہوسکے تو اس سوال کا جواب کون مہیا کرے گا؟سانحہ ساہیوال کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ لیکن اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان کا حکمران طبقہ اتنا سفاک، اتنا سنگ دل اور اپنی قوم سے اتنی نفرت کرنے والا کیوں ہے؟
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب جب انسان، انسان بنا ہے، جب جب اس نے تہذیب اختیار کی ہے، جب جب اس نے انسانوں کو انسان سمجھا ہے، اس کے پس منظر میں حقیقی مذہب اور حقیقی اخلاق موجود رہا ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ مذہب ہی سے تہذیب پیدا ہوتی ہے، مذہب ہی سے اخلاق جنم لیتا ہے، اور مذہب ہی سے تاریخی شعور ابھرتا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا نہ کوئی مذہب ہے، نہ اس کی کوئی تہذیب ہے، اورنہ اس کی کوئی تاریخی حس ہے۔ اقبال نے صاف کہا ہے ؎
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
یہاں ’’چنگیزی‘‘ کا مطلب طاقت پرستی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا حکمران طبقہ طاقت پرست ہے۔ وہ پچاس سال سے امریکی کیمپ میں کھڑا ہے تو اس لیے کہ وہ طاقت پرست ہے۔ وہ اب چین کی طرف راغب ہورہا ہے تو اس لیے کہ چین طاقت کا بڑا مرکز بن کر ابھر رہا ہے۔ وہ مارشل لا لگاتا ہے تو اس لیے کہ وہ طاقت پرست ہے اور معاشرے کو ڈنڈے کے زور پر چلانا چاہتا ہے۔ وہ ماورائے عدالت قتل کی وارداتیں کررہا ہے تو اس لیے کہ طاقت کی پرستش اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے۔ وہ لاپتا افراد کا ’’کلچر‘‘ تخلیق کرتا ہے تو اس لیے کہ اس کے سر پر طاقت کا تاج رکھا ہوا ہے اور وہ خود کو خدا سمیت کسی کے آگے جواب دہ نہیں سمجھتا۔ قوت کیا چیز ہے اور لادین ہونے سے کیا مسائل جنم لیتے ہیں، اقبال سے سنیے۔ ان کی نظم ہے ’’قوت اور دین‘‘
اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قبا چاک
تاریخِ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحبِ نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک
اس سیلِ سبک سیر و زمیں گیر کے آگے
عقل و نظر و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک
لا دیں ہو تو ہے زہرِ ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
مگر ہمارے حکمران طبقے کا مسئلہ صرف طاقت پرستی نہیں، اس کو ایک اور بہت بڑی روحانی، تہذیبی، تاریخی اور سیاسی بیماری لاحق ہے۔
اس بیماری کو کوئی نام دیا جائے تو کہا جائے گا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ نوآبادیاتی ذہنیت یا Colonial mentality کا شکار ہے۔ اس بیماری کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ خود کو آقا اور پوری پاکستانی قوم کو اپنا غلام سمجھتا ہے، چنانچہ ’’گورے انگریز‘‘ اپنے غلاموں سے جو سلوک کرتے تھے’’کالے انگریز‘‘ اپنے غلاموں سے ویسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ بلکہ بعض معاملات میں تو کالے انگریز گورے انگریزوں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ لوگ جرنیلوں کو جرنیل سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جرنیل ’’عسکری آقا‘‘ یا ’’عسکری وڈیرے‘‘ ہیں، اور وہ قوم کو اپنا ’’سیاسی ہاری‘‘ سمجھتے ہیں۔ لوگ سیاسی حکمرانوں کو سیاسی حکمران سمجھتے ہیں حالانکہ وہ جمہوری جاگیردار ہیں اور پوری قوم کو اپنا سیاسی ’’باج گزار‘‘ خیال کرتے ہیں۔ آقا اپنے غلاموں پر الفاظ کے تیر چلائے تو درست۔ آقا اپنے غلام کو علم، شعور، انسانیت سے محروم کرے تو اس کی مرضی۔ آقا اپنے غلاموں کو لاپتا کردے تو ٹھیک۔ آقا اپنے غلاموں کو رائو انوار سے قتل کرادے تو درست۔ آقا ساہیوال کے قریب چار بے گناہوں کو دہشت گرد قرار دے کر مار ڈالے تو قرین قیاس۔ اسلام میں حکمران کا تصور یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو میں جواب دہ ہوں گا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی ریاست میں بکری کے بچے کی بھی عزت ہے، اس کی جان کی بھی قدر و قیمت ہے مگر پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی اشرافیہ نے جو پاکستان خلق کیا ہے اس میں انسانوں کا مرتبہ جانوروں سے بھی کم ہے۔ انہیں کبھی بھی، کہیں بھی اور کسی بھی جواز کے بغیر گرفتار کیا جاسکتا ہے، ذلیل کیا جاسکتا ہے، لاپتا کیا جاسکتا ہے، مارا جاسکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی تاریخ عجیب ہے، یہ حکمران بھارت اور امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم پر ہتھیار اٹھاتے ہیں۔ امریکہ نے ’’دشمنوں‘‘ کے لیے گوانتاناموبے اور ابوغریب کی جیل تخلیق کی۔ ہمارے حکمران اپنی قوم کے لیے سیاسی، نفسیاتی اور ذہنی گوانتاناموبے اور ابوغریب تخلیق کرتے ہیں۔ گہرائی میں غور کیا جائے تو ہمارے حکمرانوں کی ’’آقائیت‘‘ دراصل غلامانہ ذہنیت اور غلامانہ نفسیات کا حاصل ہے۔ آزاد آدمی خود آزاد ہوتا ہے اور اپنے پیاروں کو بھی آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔ صاحبِ عزت آدمی اپنی بھی عزت کرتا ہے اور دوسروں کی بھی عزت کرتا ہے۔ روحانی اعتبار سے زندہ آدمی کو اپنی جان بھی پیاری ہوتی ہے اور اسے دوسروں کی جان کا بھی پورا خیال ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ خود غلام ہوں وہ دوسروں کو بھی غلام بناکر خوش ہوتے ہیں۔ جن کی خود اپنی نظر میں کوئی عزت نہیں ہوتی، وہی دوسروں کو ذلیل کرکے خوش ہوتے ہیں۔ اور جو خود اپنی جان کی حرمت سے آگاہ نہیں ہوتے، وہی دوسروں کی جان کو آسانی سے تلف کرتے ہیں۔ ذرا دیکھیے تو، اقبال اپنی معرکہ آراء نظم ’’الہام و آزادی‘‘ میں آزاد انسان اور غلام انسان کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں ؎
ہو بندۂ آزاد اگر صاحبِ الہام
ہے اس کی نگہ فکر و عمل کے لیے مہمیز
اس کے نفسِ گرم کی تاثیر ہے ایسی
ہو جاتی ہے خاکِ چمنستاں شرر آمیز
شاہیں کی ادا ہوتی ہے بلبل میں نمودار
کس درجہ بدل جاتے ہیں مرغانِ سحر خیز
اس مردِ خود آگاہ و خدا مست کی صحبت
دیتی ہے گدائوں کو شکوہِ جم و پرویز
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گر اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز
اس تناظر میں دیکھا جائے تو جب تک پاکستان کے حکمران طبقے کو غیر نو آبادیاتی یا De-colonized نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک پاکستانی قوم اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں پامال ہوتی رہے گی۔
پاکستان کے حکمران طبقے کا ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ فی زمانہ بادشاہوں کو گالی بنایا جاتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارا حکمران طبقہ اچھے بادشاہوں کا پاسنگ بھی نہیں ہے۔ اچھے بادشاہوں کو حال کی فکر ہو یا نہ ہو، مستقبل کی فکر ضرور ہوتی تھی، انہیں رہ رہ کر خیال آتا تھا کہ مؤرخ انہیں کس طرح یاد کرے گا۔ مگر ہمارا حکمران طبقہ اتنا جاہل ہے کہ اسے تاریخ اور مؤرخ کی رتی برابر بھی فکر نہیں۔ اس کے لیے حال کا زندان ہی سب کچھ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو طبقہ خود کو خدا کے سامنے جواب دہ نہ سمجھتا ہو وہ خود کو تاریخ یا مؤرخ کے سامنے کیا جواب دہ سمجھے گا! ۔