پانچ صدیوں سے پہلے تاریخ تہذیبوں کا عروج وزوال تھی، مگر اس کے بعد یہ انسانی تہذیب کا مجموعی زوال بن گئی۔ تہذیب ثقافت سے خاندان، اور پھر خاندان سے فرد کی تنہائی، اور تنہائی سے خودکشی پر پہنچ گئی۔ یہ تہذیب کشی کی تاریخی مہم کا نتیجہ ہے۔ یہ مہم کوئی الزام، سازشی کلیہ، یا دعویٰ نہیں، بلکہ سائنس پرستوں کا وہ ارادہ ہے جسے برملا ظاہر کیا گیا، اورکیا جارہا ہے۔ یعنی انسانی تہذیب کی نمو جدیدیت کی موت، اور جدیدیت کی زندگی تہذیب کشی میں ہے۔ یہی مغربی سائنس کی تاریخ کا اصل بیانیہ ہے۔
جدید مغربی سائنس کا دعویٰ ہے کہ زرعی عہد اور مقدس مذاہب نے انسان کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، بلکہ ترقی کی راہیں مسدود کیں۔ یہ نامبارک عہد تھا۔ مغربی یورپ کی سائنسی پیش رفت سے جہالت کے اندھیرے چھٹ گئے۔ علوم الٰہیات، ریاضیات جیسے عملی مضامین میں ڈھل گئے۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی میں عسکری ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مغربی یورپ اور برطانیہ، جنہوں نے انسانی تہذیبوں کی تشکیل میں پندرہویں صدی تک کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا، وہ اب تاریخ میں اہم کردار ادا کررہے تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور جدید سائنس کے رومان نے ترقی کی نئی منزلیں طے کیں۔ باقی دنیا میں کچھ نہیں ہورہا تھا، صرف مغربی یورپ ہی تھا جو سمندری مہمات پر نکل کھڑا ہوا تھا، اور سائنسی دریافتیں کررہا تھا۔ مختصر یہ کہ جو انسانی تہذیب زرعی دور میں استوار ہوئی، وہ درحقیقت جنگلی انسان کی غیر فطری پیش رفت تھی۔ اس مبینہ ’جہالت‘ کا خاتمہ پانچ سو سال قبل جدید سائنسی دورکی ابتدا سے ہوا۔
جدید مغربی سائنس کا یہ دعویٰ سراسر جھوٹ پرگھڑا گیا ہے۔ اس کی وجہ ہے سائنس پرستی۔ واضح رہے سائنس پرستی اور سائنس نہ صرف یکسر الگ اور متحارب اصطلاحیں ہیں، بلکہ عملی سائنس کی ابتدا بھی ’سائنس‘ کی اصطلاح سے نہیں ہوئی تھی، یہ لاطینی زبان کے scientia سے ماخوذ ہے، یہ عربی سے لاطینی تراجم کے دوران استعمال ہوا۔ مسلم اندلس میں ’حکمت‘ کی اصطلاح رائج تھی۔ اس اسلامی ’حکمت‘ یا عملی سائنس کی تاریخ بارہ سو سال پرانی ہے۔ عملی سائنس کی اصل تاریخ کا مختصر جائزہ واضح کرسکے گا کہ انسانی تہذیب آج مجموعی طور پر کیوں روبہ زوال ہے، اورکس طرح اس کا احیا ممکن ہوگا۔
جدید سائنس کی تاریخی عمارت جھوٹ کی ان بنیادوں پر کھڑی کی گئی کہ چرچ سائنسی علوم کا مخالف تھا، اور عملی سائنس کا آغاز اٹلی سے ہوا۔ یہ دونوں غلط بیانیاں ہیں، جن پر جدید سائنس کا مذہب مخالف بیانیہ استوار ہوا۔ یہاں ادب اور مغرب کے معروف اور معتبر نقاد محمد حسن عسکری کی دانش رہنما ہوگی، ’’نشاۃ ثانیہ: جدیدیت کا آغاز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’عام طور سے یورپ میں مشہور ہے کہ ’نئی دنیا‘ یعنی جدیدیت کا آغاز 1453ء سے ہوتا ہے جب ترکوں نے قسطنطنیہ فتح کیا، اور یونانی عالم اپنی کتابیں لے کر وہاں سے بھاگے اور سارے یورپ میں پھیل گئے۔ انہوں نے یونانی علوم یورپ والوں کو پڑھائے۔ اس دور کو ’نشاۃ ثانیہ‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یونان اور روم کے زوال کے بعد یورپ کا ذہن گویا مرگیا تھا، اور ہزار سال تک مدفون رہا۔ پندرہویں صدی میں جب یونانی علوم پھیلے تو مغرب کا ذہن دوبارہ پیدا ہوا۔ یہ بیان سراسر غلط ہے۔ یونانی علوم ازمنہ وسطیٰ میں بھی رائج تھے، مگر انہیں ثانوی حیثیت دی جاتی تھی، سب سے بڑا درجہ دینی علوم کا تھا۔ پندرہویں صدی میں سب سے اونچی جگہ یونانی علوم کو دی گئی۔ یہ علوم وحی پر مبنی نہیں تھے، بلکہ عقلی تھے۔‘‘
تاریخ پرلکھی گئی نئی کتاب The Silk Roads کے مصنف پیٹر فرینکوپین نے تعارف میں لکھا ہے کہ ’’دمشق، اصفہان، سمرقند، کابل، کاشغر اور دیگر ایسے کئی (مسلم) شہر تھے، جو وقت کے بڑے عالم فاضل لوگوں کی آماج گاہ تھے۔ ان میں سے محض مٹھی بھر لوگوں کے نام ہی آج سنائی دیتے ہیں، جیسے ابن سینا، البیرونی، اور الخوارزمی، جو علم فلکیات اور طب و ادویہ میں اوج پر تھے۔ دورِ جدید کے آغاز سے صدیوں پہلے دنیا میں آکسفورڈ، کیمبرج، اور ہارورڈ جیسے علوم کے اعلیٰ ترین مراکز یورپ یا مغرب میں نہیں تھے، بلکہ بغداد، بلخ، بخارا، اور سمرقند میں تھے۔‘‘ ایک صدی پیچھے جائیں تو1919ء کی ایک اہم کتاب The Making of Humanity کے مصنف رابرٹ بریفالٹ نے The House of Wisdom (دارالحکمت)کے واضح عنوان سے باقاعدہ باب رقم کیا، اور واضح کیا کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ پندرہویں صدی میں نہیں ہوئی، بلکہ اُس وقت شروع ہوچکی تھی جب یورپیوں نے عربوں سے اکتسابِ علم کیا، یورپ کی دوسری پیدائش کا گہوارہ اٹلی میں نہیں، مسلم اندلس میں تھا۔ بریفالٹ نے خاصی تفصیل سے یورپی مؤرخین کی منظم بددیانتی کا ذکرکیا ہے، اورآٹھویں سے پندرہویں صدی تک مسلمانوں کی عملی سائنس پر پردہ ڈالنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کو بے نقاب کیا ہے۔ غرض مغرب میں اس تاریخی جرم کا اعتراف تو درکنار، ذکربھی گنتی کے دیانت دار مؤرخین نے کیا ہے، رابرٹ بریفالٹ ان میں سے ایک ہیں۔
رابرٹ بریفالٹ لکھتے ہیں: ’’ہم جسے یورپ میں سائنسی انقلاب کہتے ہیں، یہ تحقیق کی نئی روح اور اُس کا نتیجہ تھا، تحقیق کے نئے عملی طریقے، تجربے، مشاہدے، پیمائش، اعدادوشمار اور ریاضیات کی وہ صورتیں تھیں، جن سے یونانی قطعی نابلد تھے۔ سائنس کی یہ روح، یہ طریقے یورپی دنیا میں عربوں نے متعارف کروائے تھے… نہ صرف یہ کہ عربوں نے ریاضیات کے وہ اصول تخلیق کیے جن پر سائنسی تجزیوں نے انحصار کیا، بلکہ انہوں نے تجرباتی تحقیق کے وہ طریقے بھی رائج کیے جن پر جدید مغربی سائنس کی بنیاد رکھی گئی… پندرہویں صدی کے بعد یورپ کی ہر سائنسی سرگرمی عربی علم وحکمت کی مرہونِ منت رہی، مگر اسے کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔‘‘ غرض یہ کتاب اور اس کا یہ باب ہر مسلمان محقق کے مطالعے میں لازماً آنا چاہیے۔ اس باب میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ واسکوڈی گاما کی سمندری مہم جوئی میں عرب اور یہودی اساتذہ کی بحریہ اکیڈمی کا کردار رہنما تھا۔ کولمبس کا سمندری سفر بھی ممکن نہ ہوتا اگر البطانی کی جدول پر سمندری تقویم معلوم نہ کی جاتی، یوں نئی دنیاؤں کی دریافت بھی مسلمان سائنسی حکماء کی بالواسطہ مرہونِ منت رہی ہے۔ مگر مغربی سائنس کی تاریخ میں منظم انداز میں اور مستقل مزاجی سے یہ جھوٹ لکھا گیا اور کہا گیا کہ یونان کے بعد مغربی یورپ ہزار سال کی نیند سے ازخود بیدار ہوا۔ یہ تاریخی احسان فراموشی اور علمی کم ظرفی کی بدترین مثال ہے۔
یہاں ان اقتباسات کا مقصد جدید سائنس کے تاریخی جھوٹ نمایاں کرنا ہے، کیونکہ بعد کی تاریخ کا رجحان اور نفسیات ان ہی جھوٹی بنیادوں پر استوار ہوئی، یہ تہذیب کش اور مذہب دشمن تاریخ تعلیمی درس گاہوں میں رائج ہوئی۔ یہ عالمی اکادمی فساد تھا۔ مغربی جامعات سے مشرقی درس گاہوں تک مذہب کی منظم کردارکشی کی گئی۔ یہ سلسلہ آج بھی عام ہے۔
غرض، حسن عسکری نے یورپ کے مسلمان عالم رینے گینوں (عبدالواحد یحییٰ) کے حوالے سے لکھا ہے کہ چودھویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی کے آخر یا پہلی جنگِ عظیم تک دین کی مخالفت اور دین پر حملوں کا زمانہ ہے۔ وہ ’ازمنہ وسطیٰ دور‘ کے باب میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ دور تقریباً پانچویں صدی عیسوی سے لے کر پندرہویں صدی تک ہزار سال پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دور کو سمجھنے میں بڑی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ پروٹسٹنٹ مذہب رکھنے والے مصنفوں نے، پھر اٹھارہویں صدی کے متشککین نے اس دور کے متعلق بڑی غلط فہمیاں پھیلائی ہیں… یہ تصویر بڑی حد تک خیالی ہے۔ ازمنہ وسطیٰ کے ادب کے بارے میں زیادہ تر تحقیق بیسویں صدی میں ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ازمنہ وسطیٰ میں یورپ کی تہذیب نے جو لطافت اور علو حاصل کرلیا تھا وہ اسے پھر کبھی حاصل نہیں ہوسکا۔ کیونکہ ازمنہ وسطیٰ کے مغربی ادب اور علوم پر عربوں کا گہرا اثر ہے۔ طب، نجوم، فلسفہ وغیرہ میں تو یونانیوں کے بعد عرب مصنفوں کو ہی سند مانا جاتا تھا۔ رازی، ابن سینا، امام غزالی کے نام یورپ میں اسی طرح مشہور تھے جس طرح مسلمانوں میں… خالص عقل کے میدان میں ازمنہ وسطیٰ کے مفکرین کا یہ حال تھا کہ ارسطو کی منطق میں جو خامیاں تھیں وہ ان لوگوں نے دور کی تھیں۔ یونانی فلسفہ اس دور میں بھی پڑھایا جاتا تھا، البتہ یہ لوگ فلسفے کو اپنے دین کے تابع رکھنا چاہتے تھے۔‘‘
اس ساری صورت حال میں بگاڑ کیسے پیدا ہوا؟ اس کے لیے ہم ایک اور اقتباس کی جانب بڑھتے ہیں۔ مغربی ماہرالٰہیات ایڈون اے برٹ کتاب Philosophy of Relgion کے باب ’’پروٹسٹنٹ نقطہ نگاہ سے سائنس اور مذہب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’پروٹسٹنٹ نقطہ نگاہ سے مذہب کا تصور جدید سائنس کی نشوونما میں مددگار ثابت ہوا، لیکن دوسرے لحاظ سے ان دونوں میں مطابقت بہت مشکل ہوگئی۔ جب اس نے فکر، تقریر اور تحریر کی آزادی پر زور دیا تو اس سے سائنسی تحقیقات میں بڑی مدد ملی… یہ حقیقت ہے کہ سترہویں اور اٹھارہویں صدیوں میں جدید سائنس کی ترقی پروٹسٹنٹ ملکوں میں ہوئی۔ جب پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں اور خود پروٹسٹنٹ گروہ کے مختلف فرقوں کے درمیان مسلسل الٰہیاتی جھگڑے شروع ہوئے تو اس سے مخالفین نے یہ دعویٰ کرنا شروع کیا کہ ان اختلافات سے ایک حقیقت واضح ہوتی ہے کہ بائبل کی تفسیر اور الٰہیاتی تعبیر و تاویل کا طریقہ حق و صداقت تک پہنچنے کے لیے بالکل ناکافی ہے (ہمارے مغرب زدگان بھی یہی دلیل اسلام کے خلاف استعمال کرتے ہیں) اور کم از کم جہاں تک اس طبعی ومادی دنیا کے علم کا تعلق ہے، صحیح طریقہ عقلی استدلال اور تجربہ ہے۔ اٹھارہویں صدی میں عقلیت (عقلیت پرستی) کا دور شروع ہوا جس کا آغاز علم ہیئت میں نیوٹن کے اکتشافات کی کامیابی کے بعد ہوا۔ اس کے باعث سائنس اور اس کے طریقہ کار کے متعلق ایک ایسا عظیم الشان اعتماد پیدا ہوا جو آج تک قائم ہے۔‘‘
انیسویں صدی تک سائنس پرستوں نے مذہب کی حیثیت کسی نہ کسی درجے میں برداشت کی، مگر جب نظریہ ارتقاء کی آمد ہوئی، گویا جدیدیت کے ہاتھ ایک ایسا عقیدہ لگ گیا، جس نے مذہبی تہذیبوں کی روح مجروح کی۔ یہ نظریہ جدید مغرب کا مذہب بن گیا۔ اس کے خلاف کوئی بات، کوئی دلیل نہ دی جاسکتی ہے، نہ سنی جاسکتی ہے۔ اس پر اسلامی عالم حسین نصر نے بطور عینی شاہد بھرپور تبصرہ کیا ہے۔ کتاب ’’سائنس اور اسلام کا تصورِ جہاں‘‘ میں ارتقاء پر مکالمے میں کہتے ہیں: ’’جدیدیت کے عقیدے کی عمارت کی بنیاد نظریہ ارتقاء پر ہے۔ اگر یہ بنیاد اکھڑ جائے، تو جدیدیت کا سارا ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آگرے گا۔ اس لیے جدیدیت کے پاسبانوں کی طرف سے اسے ایک مذہبی عقیدے کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ صحیح معنوں میں اسے سائنسی نظریہ بھی نہیں کہنا چاہیے، جیسا کہ اس کا دفاع کرنے والوں کا دعویٰ ہے… اٹلی کے جی سر میونٹے اور آرفونڈی نے ایک کتاب لکھی جس کا نام Doloo Darwin (ڈارون کے بعد) ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اٹلی، فرانس اور جرمنی میں ماہرینِ حیاتیات یقین رکھتے ہیں کہ ڈارون کے نظریۂ ارتقاء نے حیاتیات کے شعبے کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے، اور پھر ارتقاء کا نظریہ اس حیاتیاتی مواد سے بھی مطابقت نہیں رکھتا جو کہ ٹھوس سائنسی تجربات سے اکٹھا کیا گیا ہے، کیونکہ فوسلز کی مدد سے ملنے والا مواد ایک بڑی چھلانگ کو ظاہر کرتا ہے، نہ کہ بتدریج ارتقائی عمل کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ ماضیِ قریب میں مختلف سائنسی نظریات پیش کیے گئے ہیں، جیسے طبیعی نظریۂ کائنات یا کوانٹم میکانیت کا نظریہ ہے، اگر کوئی سائنسی میدان میں ان نظریات کی مخالفت کرے یا انہیں چیلنج کرے، توکم از کم اس کے لیے جامعہ یا ادارے کا دروازہ بند نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کے برعکس نظریۂ ارتقاء یکسر مختلف معاملہ ہے، اگر آپ مغربی دنیا میں ارتقاء کے نظریے پر خالصتاً سائنسی بنیادوں پر تنقید کرتے ہیں، تو نہ صرف آپ کو سختی سے رد کردیا جائے گا بلکہ آپ کو عہدے سے برطرف کردیا جائے گا، حتیٰ کہ آپ کے شعبہ جات کے لوگ سمجھیں گے کہ آپ کا دماغی توازن درست نہیں ہے، اور اس مؤقف کے ساتھ آپ کو کسی ادارتی ترقی کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔‘‘ یعنی سائنس پرستوں کے لیے نظریۂ ارتقاء ایمان کا درجہ رکھتا ہے، جس کے خلاف برداشت، آزادیِ اظہارکا حق، اور انسانی حقوق وغیرہ کوئی درجہ نہیں رکھتے۔ اس رویّے میں انتہا پسندی کس قدر نمایاں ہے۔
مغربی سائنس کی تاریخی بددیانتی کی وضاحت کے بعد، یہ سمجھنا آسان ہوگیا کہ مذہب دشمنی نے کس طرح انسانی تہذیب کی تباہی وبربادی کا سامان کیا۔ صنعتی دور کی مصیبتوں کی تفصیل تاریخ کی گواہی ہے۔ ارتقاء کے نظریے کی بنیاد پر نسل پرستی کا فساد، اور اس کے نتیجے میں عالمی جنگوں کی خونیں داستانیں بھی کوئی راز نہیں۔ آخری گواہی آخری مشہور ماہر فلکیات اسٹیفن ہاکنگ کی دانش ہی سے محقق کرتے ہیں۔ وہ ’زمین پر انسان کی بقا؟‘ کے سوال پر کہتے ہیں: ’’گھڑی کی تاریخ بھی دلچسپ ہے، یہ سن 1947ء میں شروع ہوئی، جب کہ (کچھ ہی عرصہ قبل 1945ء میں) ایٹمی عہد کا آغاز ہوچکا تھا۔ رابرٹ اوپن ہائمر، مین ہٹن پراجیکٹ کا سربراہ سائنس دان ہے، اس نے پہلے ایٹمی دھماکے پر کہا تھا کہ ’’میں جانتا ہوں اب دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی۔‘‘ اُس کی اس بات پر بہت سے لوگ ہنسے، کچھ روپڑے، باقی خاموش رہے۔ مجھے ہندوؤں کی مقدس کتاب ’بھگوت گیتا‘ کی وہ سطر یاد آئی کہ ’اب میں موت بن چکا ہوں، دنیاؤں کو تباہ و برباد کرنے والا‘‘… تب سے دنیا روزِ حشر سے پہلے کی نسبت بہت زیادہ قریب ہوچکی ہے۔۔ بطور سائنس دان، ہم بخوبی سمجھتے ہیں کہ نیوکلیئر ہتھیار کتنے تباہ کن اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ کس طرح جدید انسان کی سرگرمیاں اور ٹیکنالوجیز موسم اور ماحول میں ایسی تبدیلیاں لارہے ہیں، جو زمین پر زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ سکتی ہیں۔ بطور دنیا کے عالمی شہری، یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ لوگوں کو خبردار کریں، اس غیر ضروری رسک سے، جو ہم روزانہ کی بنیاد پر لے رہے ہیں۔ اگر حکومتوں اور معاشروں نے کوئی قدم نہ اٹھایا، نیوکلیئر ہتھیاروں کو تلف نہ کیا اور موسمی و ماحولیاتی تبدیلی کونہ روکا، توہم (زمین پر) عظیم تباہی و بربادی دیکھ رہے ہیں۔‘‘
اب جبکہ مغربی ماہرینِ حیاتیات اور ماہرینِ فلکیات و طبیعات باہم متصادم ہیں، اور زمین پر انسانی زندگی کی کوئی نوید سنانے سے گریزاں ہیں، کیا رستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟ زمین کو فساد سے کیسے محفوظ بنایا جاسکتا ہے؟
معروف مؤرخ ول ڈیوراں اور ایرل ڈیوراں نے ساری تاریخ چھاننے کے بعد جو چند سبق سیکھے، اُن میں سے ایک کا ذکر انہوں نے The lessons of history کے باب Religion and History میں یوں کیا ہے: ’’تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، کہ کسی معاشرے میں مذہب کی معاونت کے بغیر اخلاقیات کا کامیابی سے نفاذ ممکن ہوسکا ہو۔ فرانس، امریکہ، اور دیگر ممالک کی حکومتیں چرچ سے علیحدہ ضرور ہوئیں، مگر معاشرتی نظم قائم رکھنے کے لیے انہیں مذہب کا سہارا لینا پڑا ہے۔‘‘
یہ وہ تاریخی سبق ہے، جو جھوٹی تاریخ کے محافظوں نے بھی سیکھا ہے۔ یہی وہ تاریخی سچ ہے جسے جتنا چھپایا جائے گا، اتنی ہی مایوسی ہوگی۔ یہی وہ تاریخی سبق ہے، جوآج بھی سائنس پرستوں کے لیے واحد سبق ہے، جسے سیکھے بغیر نہ انسانی تہذیب کی کسی کامیاب پیش رفت کا امکان ہے، اور نہ ہی زمین پر عالمگیر فلاح کی کوئی امید۔