کراچی: کے ایم سی سرپرستی،ہل پارک مسجد”راہ نما” مسمار

کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کے نام پرشروع ہونے والی مہم بھی ایک گورکھ دھندا ثابت ہوئی ہے۔ ریاست اور ریاست کے اداروں نے پہلے بھی اس شہر کو برباد کیا اور منظم قتل وغارت گری ایم کیو ایم کو قائم کرکے کروائی، جس کے نتیجے میں شہر میں نوّے ہزار سے زائد لوگوں کا خون بہا، بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں،ادارے تباہ ہوئے، شہر کی شناخت مٹ گئی۔ اور اب اُسی ایم کیو ایم کی باقیات سے، بچ جانے والے شہر کے درو دیوار کو گرانے کا عمل جاری ہے۔ اور اس عمل میں اب خدا کا گھر بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہندوستان میں 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد مسمار اور شہید کی گئی تھی، یہ شہر اس کے لیے سراپا احتجاج رہا۔ آج اس کی اپنی مسجد اور مدرسے نشانے پر ہیں جنہیں مسمار کیا جارہا ہے۔ پچاس سال سے قائم ہل پارک میں مسجد راہ نما کو اس طرح گرایا گیا ہے جس طرح ہندوئوں نے بابری مسجد کو گرایا تھا۔ دونوں مساجد کی مسماری کی تصاویر دیکھ لیں، آپ کو لگے گا کہ گرانے والے ایک ہی ذہن اور ایک ہی ایجنڈا رکھتے ہیں۔
ہل پارک کی ’’راہ نما مسجد‘‘ کو شہید کرنا میئر کراچی وسیم اختر کے اسلام اور اسلامی شعائر سے بغض کا تاریخی تسلسل ہے۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کو جواز بنا کر وہ کھل کھیل رہے ہیں اور شہر کے لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں، اور اسی میں مساجد کو تجاوزات کا نام دے کر ڈھانے کا انہیں خوب موقع مل گیا ہے۔ اتنی یکسوئی، دلچسپی اور پھرتی تو میئر کراچی نے کراچی میں قائم فحاشی کے سیکڑوں ناجائز اڈوں اور جوئے کے مراکز کو ختم کرنے میں کبھی نہیں دکھائی، جب کہ یہ سارے کام ان کی ناک کے نیچے اور آنکھوں کے سامنے سرپرستی میں جاری ہیں۔ علاقہ مکینوں نے فرائیڈے اسپیشل کو بتایا کہ انہیں اتنی جلدی تھی کہ کوئی نوٹس بھی نہیں دیا، قرآن پاک کے نسخے نکالنے کی مہلت بھی نہ دی گئی۔ علاقے کے لوگ اس بے حرمتی پر اشتعال میں ہیں، اور یہ اشتعال شہر کی سطح پر بڑھتا جارہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ لوگ مسجد شہید ہونے کے بعد بھی اسی مقام پر نماز کی ادائیگی کررہے ہیں۔ جب کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ وہ مسجد گرانے کے بعد بھی کہہ رہی ہے کہ ’’جس مقام کو مسجد کہا جا رہا ہے اسے ایمان ریسٹورنٹ کی انتظامیہ نے اپنے ریسٹورنٹ سے متصل حصے کے طور پر مختص کر رکھا تھا جس کے دوسری جانب بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ پارک کا اسٹور واقع تھا، ہوٹل اور اسٹور کو مسمار کرنے سے ممکن ہے’’جائے نماز‘‘ بھی متاثر ہوئی ہو‘‘۔ پھر ان کا ترجمان اسی پریس ریلیز میں یہ بھی کہتا ہے کہ ’’ہل پارک میں کوئی مسجد تھی ہی نہیں، لہٰذا مسجد شہید ہونے کا تاثر دینا محض پروپیگنڈا ہے‘‘۔ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ آج بھی لوگ شہید مسجد کے ملبے سے قرآن پاک کے نسخے نکال رہے ہیں۔ ہل پارک جس میں مسجد قائم ہے، کراچی کی مشہور شاہراہ شہیدملت روڈ پر واقع ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک پہاڑی ٹکڑا ہے جس کو خوبصورتی سے ایک پارک کی شکل دی گئی ہے۔ اورمسجد اس منصوبے اور پارک کا حصہ ہے۔ یہ کام وفاقی حکومت نے شروع کراویا تھا جس میں کے ڈی اے کی منظوری شامل تھی۔ جس کے بعد کے ڈی اے نے اس منصوبے کو’’ کوہسار اسکیم‘‘ کے ساتھ اپنایا، جس میں مارکیٹ اور ریسٹورنٹ کے ساتھ مسجد بھی شامل تھی۔ خبر یہ ہے کہ کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور ڈائریکٹر جنرل پارکس آفاق مرزا سمیت دیگر افسران کے ہمراہ ہل پارک کا جب سروے کرکے وہاں قائم کمرشل ریسٹورنٹس کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا اُس وقت بھی مسجد گرانے کا کوئی پلان موجود نہیں تھا۔ یہ بات ایم کیو ایم کے میئر کو جب معلوم ہوئی کہ مسجد مسمار نہیں کی جارہی، تو انہوں نے خصوصی طور پر ڈی جی پارکس آفاق مرزا کو حکم دیا، اور پھر مسجد راہ نما کو شہیدکردیا گیا۔
جامع مسجد راہ نما کو تجاوزات قرار دے کر شہید کیا جانا اسلام دشمنی کی بدترین مثال ہے، اور یہ اُسی طرح منبر و محراب کی حرمت کی پامالی ہے جس طرح ہندوستانی ریاست نے بابری مسجد کے ساتھ کی ہے، اور اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ میں کررہی ہے۔ لوگ یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ کیا عدالت نے مساجد مسمار کرنے کے احکامات صادر کیے تھے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر راہ نما مسجد ہل پارک کو کیوں شہید کیا گیا ہے؟ پھر ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر کے ایم سی یہ سمجھتی ہے کہ مسجد غلط جگہ پر بنی ہے تو اس نے کوئی نوٹس کیوں نہیں دیا؟ اور پھر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مسجد کو مسمار کرنے سے پہلے کے ایم سی نے کوئی فتویٰ لیا؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اور میئر کراچی نے مسجد کو بھی اس طرح گرایا ہے جس طرح وہ دکانوں کو گرا رہے اور مسمار کررہے ہیں۔
ہل پارک مسجد کو گرانے کے حوالے سے قاری عثمان کا کہنا ہے کہ ’’کراچی میں تجاوزات کے نام پر آپریشن میں اب تک درجنوں مساجد شہید کی جاچکی ہیں‘‘۔ اور ان کا درست کہنا ہے کہ ہمیں اس پر احتجاج کرنا ہوگا، ورنہ جو کھیل میئر کراچی کے ذریعے شروع کرایا گیا ہے اگر اسے روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو کراچی کی سیکڑوں مساجد کو شہید اور مدارس کو مسمار کردیا جائے گا۔ سٹی گورنمنٹ میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر جنید مکاتی کا بھی کہنا ہے کہ پارک ’’کوہسار اسکیم‘‘ کے اصل پلان میں باقاعدہ مسجد شامل ہے، اور سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے مسجد راہ نما میں توسیع بھی کرائی تھی۔ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اللہ کی زمین ایک بار مسجد کے لیے وقف ہوجائے تو وہ ریاست کی بھی ملکیت سے خارج ہوجاتی ہے۔ وہ جگہ تاقیامت مسجد ہی تصور کی جائے گی۔ اس پس منظر میں جب ہم نے مفتی منیب الرحمن سے پوچھا کہ ’’ریاست کے ادارے کے ڈی اے کے پروجیکٹ کے تحت بنائے جانے والے پارک میں مسجد کو گرانے پر آپ کیا کہیں گے؟‘‘ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ’’جس طرح آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ کے ڈی اے کا منصوبہ تھا اور اسے گرایا گیا، تو یہ غلط ہے۔ ایک بار اگر مسجد کے لیے جگہ وقف کردی جائے تو وقف کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس صورت میں مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ رفاہی پلاٹوں پر بھی اگر کوئی مسجد تعمیر ہوئی ہے اور متعلقہ اداروں نے نہیں روکا تو یہ اجازت سمجھی جائے گی، کیونکہ وقف کو بدلا نہیں جاسکتا۔‘‘ مفتی صاحب کے رفاہی پلاٹوں پر مسجد کی تعمیر کے حوالے سے فتوے کی روشنی میں ہماری رائے یہ ہے کہ اگر ہل پارک میں مسجد کے ڈی اے یا اس کے کسی ادارے نے تعمیر نہیں بھی کی ہے تو ان اداروں کے سامنے یہ مسجد بنی ہے، اور ایک دو سال نہیں چالیس، پچاس سال ہوگئے، پھر کس طرح کسی دکان کو گرانے کی طرح مسجد کو گرایا جاسکتا ہے؟
اس حوالے سے فرائیڈے اسپیشل نے پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کراچی کے متحرک صدر سیف الدین ایڈووکیٹ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ مساجد کو تجاوزات قرار دے کر شہید کرنا اسلامی ریاست کے شایانِ شان نہیں ہوسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہل پارک کے نقشے میں مسجد کی جگہ موجود ہے، مسجد کو شہید کرنا کسی بھی حوالے سے درست اقدام نہیں ہے، سندھ حکومت بھی اس اقدام میں برابر کی شریک ہے کہ وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ یہ اس بات کی غمازی ہے کہ سندھ حکومت، شہری حکومت کے ساتھ مل کر بلاجواز شہریوں کو تنگ کررہی ہے‘‘۔ سیف الدین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پارک میں آنے والوں کے لیے قائم مسجد پر بغیر نوٹس بلڈوزر چلائے گئے۔ کے ایم سی عملے نے مسجد سے قرآن کریم کے نسخے، دریاں، چٹائیاں اور دیگر سامان تک نکالنے کی مہلت نہیں دی۔ امام مسجد مولانا عبداللہ نے جب مسجد کے شہید کرنے کے عمل میں مداخلت کی تو انہیں اعلیٰ افسران کی جانب سے دھمکی دی گئی کہ اگر آپ آگے بڑھے تو گرفتار کرلیا جائے گا۔ جبکہ اس مسجد میں 28 برس سے نماز تراویح بھی پڑھائی جاتی تھی۔ مذکورہ مسجد کسی بھی پرائیویٹ شخص کی ملکیتی زمین کے بجائے سرکار کی زمین پر قائم تھی۔ قانونی طور پر حکومت کسی بھی عوامی مقام پر مسجد بنانے کی پابند ہے، اسی قانون کے تحت سرائے، بس، ٹرین اسٹیشنوں و ہوائی اڈوں کے علاوہ مرکزی شاہراہ پر واقع پیٹرول پمپس پر مسجد لازمی بنوائی جاتی ہے، تاہم وسیع و عریض پارک میں قائم مسجد کو شہید کیا گیا۔ اس لیے مساجدکو تجاوزات قرار دے کر گرانا کسی مسلمان ریاست کا کام نہیں ہوسکتا۔ اگر زمین سرکار کی ملکیت ہے تو اسلامی ریاست ہونے کے ناتے اس جگہ کی ملکیت بھی اللہ رب العزت کی ہے۔ ایسی جگہ مسجد بننے اور پانچوں نمازوں سمیت جمعہ کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد کسی صورت مسجد کو گرایا نہیں جاسکتا۔ اللہ نے مساجد کی تعمیر کو اہلِ ایمان کی پہچان اور ان کو شہید کرنے یا نقصان پہنچانے کو کفار کی علامت قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقہ مکینوں اور عوام کے احتجاج کے باوجود کے ایم سی نے کارروائی کی۔ جماعت اسلامی انسدادِ تجاوزات آپریشن کی آڑ میں مسجد شہید کیے جانے کی پُرزور مذمت کرتی ہے۔ سیف الدین ایڈووکیٹ کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ ’’ملبے تلے دبی دینی کتابوں اور قرآنی اوراق کو محفوظ بناتے ہوئے فوری طور پر مسجد دوبارہ تعمیر کی جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس مسجد کو گرانے والوں میئر کراچی وسیم اختر، ڈی جی پارکس آفاق مرزا، میونسپل کمشنر سیف الرحمن اور ڈائریکٹر انکروچمنٹ بشیر صدیقی کے خلاف فیروز آباد تھانے میں مقدمہ درج کرانے کے لئے درخواست دی ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ مذکورہ افراد کے خلاف 295 اے کے تحت مقدمہ درج کیا جائے، کیونکہ انہوں نے شعائر اللہ کی توہین کی ہے‘‘۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ یہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جس کی بنیاد کلمہ لاالٰہ الا اللہ ہے، جس کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ بظاہر کلمہ پڑھنے والے آج اسلامی جمہوریہ پاکستان
میں مساجد شہید کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ ایک مہینے سے شہر میں انکروچمنٹ کے نام پر دہشت گردی کی جارہی ہے، لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کردیا گیا، پہلے ایمپریس مارکیٹ کو مسمار کیا گیا اور پھر اس کے بعد گارڈن کی 425 دکانیں مسمار کی گئیں، یہ سب کچھ انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب تو نئے پاکستان میں معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ایک غیر مسلم کی جانب سے شراب کی مذمت کے حوالے سے قرارداد پیش کی جاتی ہے لیکن تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے شراب کے حوالے سے قرارداد کی مخالفت کی گئی۔ حکومت فورا شہید مسجد ’’راہ نما‘‘ کو ازسرنو تعمیر کرائے۔اگر مسجد تعمیر نہ کی گئی تو حالات کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔ جمعہ 25جنوری کو مسجد ’’راہ نما‘‘ کے مقام پر جمعۃ المبارک کی نماز ادا کی جائے گی، تمام شہری بڑی تعداد میں شریک ہوں۔ سپریم کورٹ کے حکم کی آڑ میں پورے شہر میں انکروچمنٹ کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا جس میں علمائے کرام، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما، وکلا، اساتذہ اور عوامی نمائندے شریک ہوں گے۔ اس وقت جہاں کراچی میں مسجدیں مسمار کی جارہی ہیں وہاں سنیما گھروں اور شراب کے لائسنس دیے جارہے ہیں۔ نام نہاد تجاوزات کے خاتمے کے نام پر کراچی میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔ لوگوں کی جائز اور قانونی دکانیں بلاوجہ مسمار کی جاچکی ہیں۔ شہر کے کئی مقامات پر ختم کی گئی تجاوزات کو ازسرنو کے ایم سی اور ڈی ایم سی کا عملہ نئی رشوت اور نئے ریٹ کے ساتھ قائم کرنے اور ریڑھی والوں کو ریڑھی لگانے کی اجازت دے رہا ہے۔ کراچی میں لوگوں کا مسجد کے انہدام پرجو ردعمل سامنے آیا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیںہوگا کہ اگر حکومت نے فوری طور پر مسجد کی تعمیرکا ازسرِنو کام شروع نہیں کیا تو احتجاج کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے اور امن وامان کا سنگین مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہماری رائے میں اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ مسجد کو علماء کی رہنمائی کے ساتھ تعمیر کیا جائے۔