افغان امن مذاکرات،پاکستان کو لیے نیا جال

چند ہفتے پہلے تک ایسا محسوس ہورہا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات اب دنوں کی بات ہے۔ قطر میں طالبان اور افغان مفاہمت کے لیے امریکی حکومت کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کے درمیان بات چیت سے سفارتی حلقے بے حد پُرامید تھے۔ اسی دوران یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ صدرٹرمپ نے افغانستان سے اپنی آدھی فوج واپس بلانے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ اس پس منظر میں گزشتہ ہفتے زلمے خلیل زاد اور امریکہ کی نائب وزیرخارجہ محترمہ ایلس ویلز کی افغانستان و پاکستان آمد سے لوگوں کو توقع تھی کہ باقاعدہ امن مذاکرات بہت جلد شروع ہوں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا، اور خلیل زاد کی دھمکی نے معاملے کو مزید خراب کردیا۔ موصوف نے اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں فرمایا کہ اگر طالبان مذاکرات پر راضی نہیں تو ہم جنگ کے لیے تیار ہیں۔ اس بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ امریکی فوج تیاری کرلے، ہم تو گزشتہ 40 سال سے جہاد میں مصروف ہیں اور ہمیں کسی تیاری کی ضرورت نہیں۔
طالبان نے ابتدا ہی میں امن مذاکرات کے لیے دو بنیادی شرائط رکھی تھیں، یعنی امریکہ سے براہِ راست ملاقات اور افغانستان سے غیر ملکی فوج کا مکمل، غیر مشروط اور فوری انخلا۔ دوسری طرف امریکہ کا اصرار تھا کہ امن بات چیت طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان ہونی چاہیے۔ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے نام خط میں ان سے درخواست کی تھی کہ پاکستان طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کرے۔ پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں تعاون کا وعدہ بھی کرلیا۔
دوسری طرف صدر ٹرمپ کی گفتگو اور زلمے خلیل زاد کے حالیہ دورے سے یہ تاثر ابھرا کہ امریکہ طالبان سے براہِ راست مذاکرات پر تیار ہے۔ تاہم طالبان کا اصرار ہے کہ باقاعدہ مذاکرات سے پہلے امریکہ افغانستان سے انخلا کا نظام الاوقات (ٹائم ٹیبل) جاری کرے، اور اس باب میں سخن گسترانہ بات یہ آن پڑی کہ امریکہ افغانستان سے واپسی کے بعد بھی ملک میں کم از کم تین فوجی اڈوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن یہ ضمانت دینے کو تیار ہے کہ ان اڈوں پر تعینات عملہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور ان اڈوں کے باہر طالبان کی چوکیاں ہوں گی۔ لیکن طالبان ایک بھی غیر ملکی سپاہی کو ملک میں رکھنے کے روادار نہیں۔ وہ اس بات کی ضمانت دینے کو تو تیار ہیں کہ افغان سرزمین امریکہ یا کسی بھی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دی جائے گی، لیکن غیر ملکی فوجی اڈے ان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
اس تعطل کے نتیجے میں افغانستان حکومت سے مذاکرات پر اصرار مزید بڑھ گیا اور اپنے اخلاص کا یقین دلانے کے لیے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بلا سوچے سمجھے یہ بیان داغ دیا کہ جلد یا بدیر طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔ دوسری طرف ترک ٹیلی ویژن TRT کو اپنے ایک انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ طالبان نے پاکستانی وزیرخارجہ اور وزیراعظم کے بیانات کو مجبوری کے تحت سیاسی و سفارتی جگالی سمجھ کر نظرانداز کردیا، لیکن اسلام آباد پر امریکہ کی جانب سے دباؤ برقرار رہا۔
اسی دباؤ کے نتیجے میں طالبان کے ایک رہنما حافظ محب اللہ محب کو پشاور میں گرفتار کرلیا گیا۔ حافظ صاحب ٹھنڈے مزاج کے شیریں بیان عالم و خطیب ہیں۔ وہ طالبان حکومت میں وزیراوقاف تھے۔ حافظ صاحب کی گرفتاری کا انکشاف طالبان کے ترجمان نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کیا۔ پاکستان نے اب تک اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ طالبان کا مزاج درست کرنے کے لیے حافظ صاحب کو گرفتار کیا گیا ہے اور مستقبل میں مزید سختی متوقع ہے۔کیا اس گرفتاری یا مستقبل میں مزید جبر و تشدد سے طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟ اس کا فطری جواب نفی میں ہے کہ گوانتانامو کا عقوبت خانہ ان سخت جان ملاّؤں کے اعصاب کو شکست نہ دے سکا تو پشاور یا اڈیالہ جیل ان کا کیا بگاڑ لے گی!
کابل کے عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کو مؤخر کرکے میدان میں برسرپیکار طالبان کی توجہ بٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چھاپہ ماروں کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ لڑائی تقریباً ختم ہوچکی، لہٰذا اب ہتھیار رکھ کر نئے بندوبست میں اپنا مقام بنانے کی فکر کرو۔گوریلا سپاہی جب ایک بار اپنے ہتھیار سے غافل ہوجائے تو اسے دوبارہ سربکف کرنا اتنا آسان نہیں۔ طالبان کو دشمن کی اس حکمتِ عملی کا اندازہ ہوچکا ہے۔ تحریک طالبان کے سربراہ ملّا ہبت اللہ نے اپنے ساتھیوں کو چوکنا رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ان کے ترجمان کے مطابق ملّا صاحب نے فوجی کمانڈروں کو اپنی پوزیشنیں مضبوط کرنے اور موسم بہار کی تیاری جلد از جلد مکمل کرلینے کا حکم دیا ہے۔ طالبان ہر سال برف پگھلنے کے بعد فروری کے اختتام سے افغان اور نیٹو چوکیوں پر تابڑ توڑ حملے کرکے موسم بہار کی جنگی مہم کا آغاز کرتے ہیں۔
حافط محب اللہ کی گرفتاری اور افغان حکومت سے مذاکرات پر اصرار نے طالبان اور اسلام آباد کے درمیان خلیج کو گہرا کردیا ہے۔ اسی بداعتمادی کا نتیجہ ہے کہ طالبان نے زلمے خلیل زاد سے اسلام آباد میں ملاقات کی تجویز مسترد کردی۔ طالبان نے انکار کی وجہ تو یہ بتائی ہے کہ انخلا کے ٹائم ٹیبل سے پہلے وہ ملاقات غیر ضروری سمجھتے ہیں، لیکن اسلام آباد آنے سے گریز کی ایک وجہ پاکستان کے رویّے پر ناراضی کا اظہار بھی ہے۔ امریکہ کے مبینہ اصرار پر پاکستان کی حالیہ کارروائی سے طالبان دل برداشتہ ہیں۔ امریکہ کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد کا حالیہ دورہ اس اعتبار سے ناکام رہا کہ وہ طالبان سے غیر رسمی ملاقات بھی نہ کرسکے، حالانکہ مولویوں کو منانے کی پاکستانی دفتر خارجہ نے بہت کوششیں کیں۔ تاہم روانگی سے پہلے انھوں نے جس فراخ دلی سے پاکستان کی تعریف کی ہے اس سے دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے۔ زلمے خلیل زاد پاکستان کے سخت مخالف ہیں اور وہ کھل کر کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کی ناکامی کی بنیادی وجہ پاکستان کا دُہرا کردار ہے۔ لیکن اپنے ٹویٹ میں انھوں نے افغان امن کے لیے پاکستانی عزم کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ایک درست سمت میں آگے جارہے ہیں اور پاکستان کی طرف سے مزید اقدامات متوقع ہیں جو ٹھوس نتائج کے حامل ہوں گے‘‘۔ زلمے صاحب کا یہ مبہم بیان طالبان کے لیے تشویش کا باعث ہے اور وہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ وہ کون سے اقدامات ہیں جن کا پاکستان نے امریکیوں سے وعدہ کیا ہے۔
زلمے خلیل زاد کے ساتھ ری پبلکن پارٹی کے سینئر رہنما اور امریکی سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری امور کے رکن سینیٹر لنڈسے گراہم کا حالیہ دورہ بھی معنی خیز ہے۔ سیاسی اعتبار سے انتہائی قدامت پسند سینیٹر گراہم اسلام مخالف سمجھے جاتے ہیں جو پاکستان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ پاکستان کی مدد رکوانے میں موصوف کا بڑا ہاتھ ہے، لیکن حالیہ دورے میں انھوں نے پاکستانی وزیراعظم کے کانوں میں جس فراخ دلی سے شہد گھولا ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چچا سام پاکستان کی حالیہ مالی پریشانیوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ وزیر خزانہ کہتے تو یہی پھر رہے ہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں اور اگر یہ ادارہ معقول شرائط پر قرضہ دینے کو تیارہے تو ٹھیک، ورنہ تم روٹھے ہم چھوٹے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ متبادل کے طور پر چین قرض دینے کو تیار ہے لیکن اس کی شرح سود بہت زیادہ ہے، اسی لیے اسد عمر کی خواہش ہے کہ آئی ایم ایف سے بھی قرضہ حاصل کرلیا جائے۔ آئی ایم ایف کے بورڈ میں امریکہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور قرض کے لیے واشنگٹن کی آشیرواد سے مشکلیں آسان ہوسکتی ہیں۔ تاہم ولایتی ساہوکار قرض کے عوض کچھ نقد خدمات کی توقع کررہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان، فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور دوسری اہم شخصیتوں سے تفصیلی ملاقات کے بعد امریکی سفارت خانے میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے سینیٹر گراہم نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت تعلقات غلط ہیں۔ پاکستان کے ساتھ عبوری تعلقات کے بجائے اسٹرے ٹیجک تعلقات قائم کیے جانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ، وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے مابین سہ فریقی افغان امن کانفرنس تجویز کریں گے تاکہ افغانستان میں جاری سترہ سالہ جنگ کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج نے 18 ماہ میں وہ کام کردیا جس کی امریکہ کو 18 سال سے خواہش تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ فری ٹریڈ کا معاہدہ گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ سینیٹر گراہم نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ پائیدار تعلقات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے امریکی و برطانوی دوستی کی مثال دی۔ سینیٹر گراہم نے جنرل باجوہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ مستحکم پاکستان ہمارے بھی مفاد میں ہے۔ امریکی سینیٹر کے خیال میں جنرل باجوہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہیں، جبکہ وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں امریکہ کو پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کا اچھا موقع ہے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ آئی ایم ایف کے قرض سے پاکستانی معیشت بہتر ہوگی۔ مسٹر گراہم کا یہ آخری جملہ ہی ہمارے اس خدشے کی بنیاد ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔ اسی کے ساتھ امریکی رہنما نے افغانستان کے معاملے پر جو دوٹوک بات ارشاد فرمائی وہ کچھ اس طرح ہے:
*۔۔۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پاکستان مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔
*۔۔۔ طالبان کا طاقت کے ذریعے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنا کسی کے مفاد میں نہیں۔
*۔۔۔ہم افغانستان کو نہیں کھو سکتے۔
*۔۔۔ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان دوبارہ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں چلا جائے۔
*۔۔۔ہم افغانستان سے دور نہیں جا سکتے، یہاں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
*۔۔۔دنیا طالبان کو بزور طاقت افغانستان پر قبضہ نہیں کرنے دے گی۔ مہذب دنیا کا ضمیر اس کی اجازت نہیں دے گا۔
انھوں نے مسٹر ٹرمپ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ جلد بازی میں انخلا پر راضی ہوجانے والے صدرکو تاریخ اچھے ناموں سے یاد نہیں کرے گی۔
زلمے خلیل زاد اور سینیٹر لنڈسے گراہم کے ساتھ امریکہ کی مرکزی کمان (CENTCOM)کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل بھی ان ہی دنوں پاکستان آئے اور عسکری قیادت سے ملاقات کے دوران وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار سے متاثر دکھائی دیے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ نے اپنے مہمان کو بتایا کہ پاکستان نے مشکلات کے باوجود علاقائی سلامتی کے لیے کام کیا اور پاکستان علاقائی امن و سلامتی کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔
ایسا لگ رہا ہے کہ افغان امن اور فوجی انخلا پر صدر ٹرمپ، اُن کے عسکری مشیروں اور امریکی کانگریس کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں۔ صدر ٹرمپ جلد ازجلد اس کمبل سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں جو اُن کے خیال میں اب تعفن دینے لگا ہے۔ صدر ٹرمپ ایک کاروباری آدمی ہیں اور وہ افغانستان میں امریکی فوج کے قیام کو امریکی ٹیکس دہندگان پر غیر ضروری بوجھ سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’میرے کچھ مشیروں کا خیال ہے کہ امریکی فوج کے انخلا سے طالبان اور داعش میں خونریز جنگ چھڑ جائے گی۔ میں کہتا ہوں پھر تو ہمیں فوراً وہاں سے آجانا چاہیے تاکہ ہمارے دشمن آپس میں لڑتے رہیں‘‘۔
لیکن امریکہ کی سیاسی قیادت کے لیے طالبان قابلِ قبول نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان دباؤ ڈال کر طالبان کو افغان حکومت سے مصالحت پر مجبور کرے تاکہ وہ ہتھیار رکھ دیں اور اوقاف جیسی غیر مؤثر وزارت کے عوض ملاّؤں کو کابل حکومت کے ایک وسیع البنیاد ایڈیشن کا حصہ بنالیا جائے۔ سیانوں کو یقین ہے کہ اگر طالبان ہتھیار رکھ کر افغان حکومت سے مذاکرات پر راضی ہوگئے تو پھر ان سے فوجی اڈوں سمیت کوئی بھی شرط منوانا کچھ مشکل نہ ہوگا۔
غیر جانب دار مبصرین کا خیال ہے کہ یہ بندوبست افغانستان میں خانہ جنگی کی ایک نئی لہر کا نقطہ آغاز ہوگا۔ اس وقت طالبان کی شکل میں ایک مرکزی قوت موجود ہے جس کے خوف سے قبائلی عسکریت پسند دبکے بیٹھے ہیں۔ طالبان کے غیر مسلح اور منتشر ہوتے ہی ازبک، تاجک اور دوسرے فارسی بان عسکری گروہ نکل کھڑے ہوں گے۔ دوسری طرف شیعہ ملیشیا، سلفی گروپ اور داعش بھی تیار بیٹھے ہیں۔ اگر افغانستان میں یہ آگ بھڑک اٹھی تو چنگاریوں کے ساتھ اس کے شعلے بھی یقیناً پاکستان تک آئیں گے۔
ایک طرف پاکستان امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کے چکر میں طالبان کی خرابی کے درپے نظر آرہا ہے تو دوسری جانب ہندوستان کا رویہ کچھ بدلا بدلا سا ہے۔ چند ہفتے پہلے طالبان نے دوٹوک اعلان کیا تھا کہ امن مذاکرات میں ہندوستان کا کوئی کردار ان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ لیکن اس توہین کو نظرانداز کرتے ہوئے دہلی طالبان سے راہ ورسم استوار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ کھل کر کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے براہِ راست بات چیت وقت کی ضرورت ہے۔ خبر گرم ہے کہ دہلی ایران کے ذریعے طالبان سے رابطے میں ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی چاہ بہار کی بندرگاہ افغان تجارت کے لیے استعمال ہورہی ہے اور افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد ایران تعمیر نو کے لیے برادر ملک کی مزید مدد کرے یگا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ چاہ بہار بندرگاہ کا انتظام ہندوستانی بحریہ کے ہاتھ میں ہے۔گزشتہ ہفتے سمرقند میں First India- Central Asia Dialogueکے دوران ہندوستانی وزیر خارجہ شریمتی سشما سوراج نے طالبان کوافغانستان کی تعمیرنو کے لیے مدد کی پیشکش کی تھی۔ ابھی تک طالبان نے خیرسگالی کے ہندی جذبات کا کوئی جواب نہیں دیا، لیکن پاکستان و طالبان کے درمیان غلط فہمیوں کے شجرِ زقوم نے جڑ پکڑ لی تو دلی کو موقع مل بھی سکتا ہے۔
ناقص سفارت کاری کی اس سے بری مثال اور کیا ہوگی کہ بھارت کے دشمن کو اسلام آباد خود ہی دھکیل دھکیل کر دہلی کے قریب کررہا ہے۔ پاکستان میں طالبان کے سابق سفیر ملاّ عبدالسلام ضعیف نے کہا ہے کہ حافظ محب اللہ محب کو گرفتار کرکے اسلام آباد نے طالبان کی پشت میں چھرا گھونپا ہے۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ یہ اپنے ہی پیر پر کلہاڑا مارنے کی ایک کوشش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔