بیاد عبدالستار غوری

وہ افراد کامیاب، خوش قسمت، خوش نصیب اور لائقِ مبارک باد ہوتے ہیں جن کو اللہ رزقِ حلال اور صدقِ کلام کی توفیق عطا کرکے نفسِ مطمئنہ کی دولت سے سرفراز فرماتا ہے… جن کو ہر لمحہ حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی فکر دامن گیر رہتی ہے… جو زبان و نسل، فقہی مسالک، مسلم و غیر مسلم کی تمیز کے بغیر اپنی استطاعت کے مطابق تعلیم کے فروغ، اور وسائل سے محروم خلقِ خدا کی خدمت کو دینی فریضہ سمجھ کر زندگی گزارنے کو اپنا شعار بناتے ہیں۔
مسلم معاشرہ کسی دَور میں بھی عشقِ رسولؐ سے سرشار ایسے نیک اطوار، پاک باز افراد، جماعتوں اور گروپوں سے کبھی خالی نہیں رہا، اور نہ آج ہے۔ خلافتِ راشدہ کے دَور کے بعد غریب اور بے سہارا لوگوں کی کفالت کی ذمہ داری میں اہم اور بنیادی کردار ہمارے رُوحانی سلسلوں سے جڑے خانقاہی نظام نے ادا کیا ہے۔ دینی مدارس، یتیم خانے اور اہلِ خیر کے قائم کردہ وقف املاک کے ٹرسٹ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ مسلمان اپنے ’چیریٹی‘ کے نظام کو ترقی یافتہ ممالک کی طرح مربوط طریقے پر اپنے نظامِ حکومت میں اور اداروں کی سطح پر وضع کرلیں، جو عصرِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو تو مسلم سماج میں ’چیریٹی‘ کے ذریعے وہی نتائج برآمد کیے جاسکتے ہیں جو دوسری اقوام نے اپنے ’چیریٹی‘ کے نظام کو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے برآمد کیے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ مسلمان آج بھی اپنی زکوٰۃ و صدقات اور خیرات کے ذریعے ’چیریٹی‘ میں سب سے آگے ہے۔ جب تک ہم یہ نظام وضع کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے اُس وقت تک وسائل سے محروم طبقات کی دادرسی خلقِ خدا کی خدمت کے جذبے سے سرشار افراد اور وہ ادارے اور جماعتیں ہی کریں گے، جو خدا کی مخلوق کی مشکلات و مصائب میں کمی لانے کے عمل کو بھی عبادت کے درجے میں رکھتے ہوں۔
ماضیِ قریب میں اندرونِ سندھ ضلع سانگھڑ کی تحصیل ٹنڈوآدم سے تعلق رکھنے والی شخصیت عبدالستار غوری ایڈووکیٹ (مرحوم) بھی ایسے ہی قابلِ رشک لوگوں میں سے ایک تھے، جن کو اللہ نے زندگی بھر علم کے فروغ اور دُکھی انسانیت کی خدمت کے بے لوث جذبے سے سرشار رکھا۔ عبدالستار غوری مرحوم کو 29 جنوری 2019ء کو دُنیا سے رُخصت ہوئے بیس سال ہوجائیں گے مگر آج بھی ٹنڈوآدم کے مسلم اور غیر مسلم باشندے ان کے سیاسی نقطۂ نظر اور مذہبی رجحانات سے قطع نظر کرکے ان کی امانت و دیانت اور حسنِ اخلاق کی گواہی دیتے ہیں اور شہریوں کی بے لوث خدمت کے معترف ہیں۔
عبدالستار غوری مرحوم کا تعلق ایک لوئر متوسط گھرانے سے تھا۔ ان کے والد مرحوم حبیب احمد خاں غوری کا ذریعہ معاش عمارات کی تعمیر میں استعمال ہونے والے جے پور کے پنک پتھر کی سنگ تراشی تھا۔ ویسے عبدالستار غوری صاحب اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتے تھے: میں سنگ تراش میسن کا بیٹا ہوں۔
1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد وہ جے پور سے ہجرت کرکے ٹنڈوآدم میں آباد ہوگئے تھے۔ غوری مرحوم کے آبا و اجداد بابر کے زمانے میں افغانستان سے ہجرت کرکے پہلے دہلی، وہاں سے فتح پور سیکری (جس کی شہرت پاک و ہند کے معروف روحانی بزرگ حضرت سلیم فاروقی چشتی ؒ کے مزارِ مبارک کی وجہ سے ہے)، بعد ازاں جے پور میں مستقل آباد ہوگئے تھے۔
ان کا گھرانہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ہم رکاب تھا۔ قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تو عبدالستار غوری مرحوم نے جے پور میں ہائی اسکول سے نویں جماعت کا امتحان پاس کرلیا تھا، مگر پاکستان آکر کئی برس نامساعد حالات اور معاشی تنگ دستی کے باعث تعلیم کا سلسلہ منقطع رہا۔ عبدالستار غوری مرحوم کا سنِ پیدائش 1932ء ہے۔ ان کی پیدائش جے پور میں کھیتری میں ہوئی تھی جہاں ان کا خاندان آباد تھا۔ عبدالستار غوری کے خاندان کا تعلق پٹھان قبیلے کی شاخ آبندہ افغان سے ہے۔ جے پور سے ہجرت کرکے ٹنڈوآدم میں آباد ہونے والے غوری برادری کے افراد کی تعداد کم و بیش 25 ہزار ہے۔ عبدالستار غوری مرحوم پاکستان آکر کئی برس روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہے، تاآنکہ اپنے والد کے مشورے پر ٹائپ کرنا سیکھا اور اس میں اتنی مہارت حاصل کی کہ شہر میں ان کے مقابلے میں درست انگریزی میں برق رفتاری کے ساتھ کم ہی لوگ ٹائپ کرپاتے تھے۔ عبدالستار غوری مرحوم فطری طور پر دردمند دل رکھتے تھے، اس لیے دوسروں کی مجبوریوں کا احساس ان کے ذہن پر نقش رہا، اسی وجہ سے دوسرے حضرات جو مسودہ کئی سو روپے لے کر ٹائپ کرکے دیتے، وہ اتنا کام پچاس سے سو روپے کے اندر اندر کردیتے تھے۔ اللہ نے اس ذریعہ روزگار میں کم معاوضہ لینے کے باوجود کشادگی کا دروازہ کھول دیا تو غوری صاحب مرحوم نے تعلیم کا سلسلہ پھر سے شروع کیا۔ میٹرک، انٹر اور بی اے کا امتحان پرائیویٹ اُمیدوار کے طور پر پاس کیا، جب کہ ایل ایل بی کا امتحان سندھ یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن لے کر تیسری پوزیشن میں پاس کیا تھا۔ اُردو اَدب سے شوق کی وجہ سے پنجاب یونیورسٹی سے ادیب فاضل کا امتحان بھی پاس کیا تھا۔ ان کی ذاتی لائبریری میں دینی کتب کے علاوہ ادب اور دیگر موضوعات پر کتابوں کا وافر ذخیرہ اُن کے شوق کا غماز تھا۔ بقول ان کے: کتاب سے تعلق پیدا کرنے میں ٹنڈوآدم شہر کے کپڑے کے معروف تاجر خواجہ منظورالحسن کا بنیادی کردار ہے۔
پچاس کے عشرے میں غوری صاحب کو مجدّدِ عصر سیّد مودودیؒ کی دو کتابیں ’’دینیات‘‘ اور ’’خطبات‘‘ پڑھنے کو دی گئی تھیں، جنہوں نے ان کے دل کی کایا پلٹ دی تھی۔ پھر وہ سیّد مودودیؒ کی فکر کے ایسے اسیر ہوئے کہ زندگی کے آخری سانس تک خدا کے دین کی سربلندی کی جدوجہد کے لیے قائم جماعت اسلامی کی تنظیم سے جڑے رہے۔ عبدالستار غوری نے پچاس کے عشرے میں جماعت اسلامی کی رُکنیت اختیار کی تھی۔ وہ جماعت اسلامی کے 1957ء میں ہونے والے ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں بھی شریک تھے۔ انتخابی سیاست کا آغاز 1960ء کے عشرے میں بلدیاتی انتخاب میں حصہ لے کر کیا۔ 1979ء اور 1983ء میں دوبار عبدالستار غوری مرحوم بلدیہ ٹنڈوآدم کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
وہ جماعت اسلامی ٹنڈوآدم شہر کے امیر بھی رہے اور ضلع سانگھڑ کے امیر بھی۔ ان کا انتقال ہوا تو اُس وقت بھی وہ ضلع سانگھڑ، صوبہ سندھ اور جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رُکن تھے۔ تعلیم کے فروغ اور اپنے پرائے کی تمیز کیے بغیر دُکھی انسانیت اور شہریوں کی بے لوث خدمت کا جذبہ ان کے دل میں ہمیشہ موجزن رہا۔ انہوں نے اپنی غوری برادری کے سیکریٹری کی حیثیت میں پرائمری اسکول قائم کیا تھا، اور جماعت اسلامی میں شامل ہونے کے بعد بھی خدمتِ خلق ان کی ترجیح اوّل رہی۔
اخبارات میں پہلی بار اُن کا نام 1964ء میں ضلع سانگھڑ میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلانے والے دبنگ سیاسی کارکن کے طور پر پڑھا تھا، مگر اس کا علم نہ تھا وہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں۔1967ء میں حیدرآباد میں ہونے والے اسلامی جمعیت طلبہ کے سالانہ اجتماع عام کے موقع پر ان سے ملاقات ہوئی ، جہاں وہ اے کے بروہی اور جناب الطاف حسن قریشی کو سننے آئے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی عبدالعزیز غوری اُس زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ سندھ کے ذمہ داروں میں تھے۔ 1991ء میں اُن کے گھر ٹنڈوآدم جانے اور وہاں ایک رات قیام کا موقع اُس وقت ملا جب جناب الطاف حسن قریشی صاحب اندرونِ سندھ کے مطالعاتی دورے پر تھے۔ ان کے گھر قیام کے لیے مولانا جان محمد عباسی (مرحوم و مغفور) لے کر گئے تھے۔ ان کے دھیمے لہجے، خوش اخلاقی اور نرم گفتاری، فروعی بحث و مباحثے سے گریز کی پالیسی، سیاسی و نظریاتی اختلافِ رائے رکھنے والوں کے ساتھ باہمی عزت و احترام کے ساتھ معاشرتی اور سماجی تعلقات قائم رکھنے کے وصف اور بے لوث خدمت گزاری نے شہر کو ان کا گرویدہ بنادیا تھا۔
اللہ نے ان کو حسنِ اخلاق کے جن شخصی اوصاف سے نوازا تھا، ان میں ایک کسی کی دل آزاری نہ کرنے کا وصف بھی تھا۔ وہ صلح جُو انسان تھے۔ اس کا فائدہ ٹنڈوآدم کے باسیوں کو ہوا۔ جب سندھ میں شہر شہر زبان اور نسل کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں نے نفرت اور تعصب کی آگ کے الائو جلاکر باہم دست و گریباں اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا تو عبدالستار غوری نے ٹنڈوآدم شہر میں سندھی اور غیر سندھی بولنے والے شہریوں کو باہم دست و گریباں ہونے سے محفوظ رکھا، اور خوف زدہ ہوکر جو شہری نقل مکانی کرنے لگے تھے اُن کوروکنے کے لیے سندھی زبان بولنے والے اور اُردو بولنے والے شہریوں پر مشتمل امن کمیٹی قائم کرکے جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ شہر میں آباد پختون جو نقل مکانی کرنے کے لیے اسٹیشن چلے گئے تھے، انہیں بھی واپس لے کر آئے۔ ان کی کوششوںسے ٹنڈوآدم شہر زبان اور نسل کی بنیاد پر سیاسی طور پر تقسیم ہونے کے باوجود قتل و غارت گری کے عذاب سے محفوظ رہا۔ 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں زبان اور نسل کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کا کچھ زور ٹوٹا تو ٹنڈوآدم کے شہریوں نے بلدیہ ٹنڈوآدم کا چیئرمین عبدالستار غوری مرحوم کے بیٹے مسرور احسن غوری کو منتخب کیا۔ پورے صوبہ سندھ میں ٹنڈوآدم واحد شہر ہے جہاں جماعت اسلامی کا نامزد نمائندہ شہر کی بلدیہ کا چیئرمین منتخب ہوا ہے۔ مسرور احسن غوری بھی اپنے والد عبدالستار غوری مرحوم کی طرح جماعت اسلامی کے کونسلرز کے علاوہ دوسری جماعتوں کے کونسلروں سمیت غیر مسلم کونسلروں کی حمایت سے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔
یہاں یہ ذکر نامناسب نہ ہوگا کہ عبدالستار غوری نے 1979ء میں بلدیاتی الیکشن جیتا تو وہ اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے خود شہر میں موجود ہی نہیں تھے بلکہ حرمین کی حاضری کے لیے سعودی عرب میں تھے۔ 1983ء میں دوسری بار بلدیاتی انتخاب میں حصہ لیا تو شہریوں نے اَزخود ایک کمیٹی قائم کرکے بلدیاتی کونسل کا الیکشن لڑنے والے تمام اُمیدواروں کو کہا کہ ہم اُس کو ووٹ دیں گے جو یہ حلف اُٹھائے گا کہ وہ کامیاب ہوکر چیئرمین شپ کے لیے عبدالستار غوری کو ووٹ دے گا۔ 1983ء کے بلدیاتی انتخاب میں ٹنڈوآدم شہر میں بھاری اکثریت سے وہ اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے جنہوں نے عبدالستار غوری کو چیئرمین منتخب کرانے کا حلف اُٹھایا تھا۔ 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں غوری صاحب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اُمیدوار تھے۔ اُس وقت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی پولنگ میں تین دن کا وقفہ ہوا کرتا تھا۔ عبدالستار غوری قومی اسمبلی کے لیے انتخاب میں حلقے کے تمام شہری پولنگ اسٹیشنوں سے تو بھاری اکثریت سے کامیاب رہے، تاہم دیہی علاقوں کے پولنگ اسٹیشنوں پر بااثر اور طاقتور زمینداروں نے دھونس، دبائو اور انتظامی مشینری کی مدد سے زبردست دھاندلی کے ذریعے انتخابی نتیجہ تبدیل کرکے عبدالستار غوری کی جیت کو ہار میں بدل دیا۔ چنانچہ تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو الیکشن کے دن شہر میں تمام پولنگ اسٹیشنوں پر ہُو کا وہی عالم تھا جس کا مشاہدہ 1977ء میں قومی اسمبلی کے انتخاب میں ہونے والی دھاندلی کے بعد صوبائی اسمبلی کے انتخاب کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد پورے ملک کے پولنگ اسٹیشنوں پر دُنیا بھر کے میڈیا نے کیا اور رپورٹ کیا تھا۔ عبدالستار غوری مرحوم کا شمار جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اُن رہنمائوں میں ہوتا تھا جو جماعت کے حلقوں سے باہر بھی مقبول ہیں۔
برِّصغیر میں سیّد مودودیؒ کی فکر کے تحت قائم ہونے والی جماعت، مذہبی سیاسی جماعتوں میں پہلی جماعت ہے، جس نے خدمتِ خلق کے شعبے کو اپنے تنظیمی ڈھانچہ میں بنیادی اہمیت دی اور باقاعدہ خدمت ِ خلق کا شعبہ منظم کیا۔ صوبہ سندھ خصوصاً کراچی اس سلسلے میں اپنی ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔
بانیِ جماعت سیّد مودودیؒ 1963ء میں’’میت گاڑی‘‘کی سہولت کا افتتاح کرنے کراچی تشریف لائے تھے۔ انہوں نے اس تقریب میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ’’جماعت اسلامی کا ’شعبۂ خدمت ِ خلق‘ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ اللہ کی رضا اور قرب کا ذریعہ اور دین کا بنیادی تقاضا ہے۔ تبھی تو سیّد مودودیؒ کی فکر سے متاثر جو لوگ بلدیاتی اداروں، قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی میں الیکشن جیت کر کامیاب ہوئے، ’خدمت ِ خلق‘اور مفادِعامّہ سے متعلق رفاہی و فلاحی اداروں کی تعمیر و ترقی کے منصوبے ان کی ترجیح اوّل رہی ہے۔ جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں کے ذہن میں سیّد مودودیؒ کا یہ جملہ اپنی پوری معنویت کے ساتھ نقش رہا کہ خدمتِ خلق مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ خود مقصد اور دین کا بنیادی تقاضا ہے۔
ٹنڈوآدم میں قیامِ پاکستان کے بعد آکر آباد ہونے والے دوسرے مہاجرین کی طرح غوری برادری کے نوجوانوں نے بھی تعلیم کی ناکافی سہولیات اور نامساعد حالات کے باوجود سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ خود عبدالستار غوری کے اپنے بچوں اور ان کے دو چھوٹے بھائیوں کی اولادوں نے بھی ٹنڈوآدم کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی اور فوج اور سول بیوروکریسی میں ترقی کی منازل طے کیں۔ عبدالستار غوری کے دو بیٹے فوج میں گئے جن میں سے ایک ڈاکٹر عبدالقیوم غوری پاک فوج سے کرنل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ دوسرے بیٹے عبدالواحد غوری میجر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ جب کہ ایک بیٹے تسنیم عالم غوری اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرونِ ملک ایک انٹرنیشنل ادارے میں اعلیٰ منصب پر فائز ہیں۔ ایک بیٹے مسرور احسن غوری بلدیہ ٹنڈوآدم کے چیئرمین ہیں اور اپنے تین دوسرے بھائیوں کی شراکت میں ذاتی کاروبار کررہے ہیں۔ جب کہ عبدالستار غوری کے منجھلے بھائی مرحوم عبدالرحیم غوری کے بڑے بیٹے عبدالمالک غوری وفاقی حکومت میں گریڈ 22 کے نیک نام اعلیٰ افسر ہیں، جب کہ دوسرے بیٹے اسلم غوری سندھ حکومت میں ایک محکمے کے ڈی جی ہیں، جب کہ تیسرے بیٹے ڈاکٹر عبدالخالق غوری حال ہی میں محکمہ صحت کی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر بیرونِ ملک صحت کے ایک انٹرنیشنل ادارے میں ملازمت کررہے ہیں، چوتھے بیٹے اکرم غوری اپنا ذاتی کاروبار کررہے ہیں۔ اسی طرح عبدالستار غوری کے تیسرے بھائی عبدالعزیز غوری کے بچے بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹنڈوآدم اور حیدرآباد میں ملازمتیں کررہے ہیں۔
عبدالستار غوری مرحوم نے غوری برادری کے سیکریٹری کی حیثیت سے برادری کی طرف سے جو اسلامیہ پرائمری اسکول قائم کیا تھا اور اس کی شاندار بلڈنگ تعمیر کرائی تھی اسے بہت عمدہ طریقے پر چلایا، جہاں غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ غوری صاحب اعزازی طور پر خود بھی پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے بعد ازاں یہ سلسلہ بلدیہ کے قائم کردہ مولانا محمد علی جوہر ہائی اسکول میں بھی جاری رکھا۔ ان کی برادری کا قائم کردہ اسلامیہ پرائمری اسکول اور شاندار بلڈنگ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں نجی شعبے میں قائم تمام تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لیے جانے کی پالیسی کی نذر ہوگیا۔
بلدیہ کے چیئرمین کی حیثیت سے شہر کے مغربی حصے ’’جوہر آباد‘‘ میں مولانا محمدعلی جوہر کے نام پر ہائی اسکول تعمیر کرایا۔ شہر کے اس پسماندہ علاقے کی اتنی بڑی آبادی میں کوئی ہائی اسکول نہیں تھا۔ آج اس ہائی اسکول میں ہزاروں کی تعداد میں غریب بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ٹنڈوآدم شہر میں طالبات کے لیے کوئی گرلز کالج موجود نہیں تھا۔ گورنمنٹ کالج میں ’’کو ایجوکیشن‘‘ کی وجہ سے میٹرک کے بعد شہر کی بچیوں کو یا تو مزید تعلیم کے لیے دوسرے شہروں میں جانا پڑتا تھا، یا تعلیم کو خیرباد کہنا پڑتا تھا۔ غوری صاحب نے چیئرمین بنتے ہی لڑکیوں کے کالج کے لیے زمین حاصل کی اور گرلز کالج کی شاندار بلڈنگ تعمیر کرائی۔ اس وقت اس کالج کو ڈگری کالج کا درجہ حاصل ہے۔ اسی طرح شہر کی مضافاتی بستی ’’گوٹھ خیر محمد مری‘‘ ٹنڈوآدم میں علامہ اقبال کے نام پر پرائمری اسکول قائم کیا۔ غوری صاحب نے صحت کے شعبے میں اہم خدمت یہ انجام دی کہ بلدیہ ٹنڈوآدم کی عمارت کے عقبی حصے میں آنکھوں کا ایک اسپتال ’’ایل آر بی ٹی‘‘ کے تعاون سے قائم کرایا جہاں اس اسپتال کے ذریعے علاقے کے ہزاروں مریضوں کا ہر سال مفت علاج اور آپریشن کیا جاتا ہے۔
عبدالستار غوری کا انتقال کینسر کے موذی مرض میں ہوا۔ تشخیص میں دیر ہونے کی وجہ سے آپریشن بھی کارگر نہ ہوسکا۔ تاہم انہوں نے اس موذی مرض کا مقابلہ بڑی ہمت اور حوصلہ مندی سے کیا۔ علالت کے دوران بھی رفاہی، فلاحی کاموں میں دلچسپی جاری رہی۔ جس رات انتقال ہوا اُس روز عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد اپنی اولاد کو جمع کیا، ان کو نصیحت کی کہ اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط رکھنا، قرآن کے حکم کے مطابق قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کے اُصول کی پاسداری کرنا، وسائل سے محروم طبقات کی بلاامتیاز خدمت اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کرتے رہنا۔
ان کا جنازہ اُٹھا تو لوگوں کے ازدحام کا یہ عالم تھا کہ کندھا دینے کے لیے میت کی چارپائی کو بیس بیس فٹ لمبے بانس لگانے کے بعد بھی جنازے میں شریک تمام لوگ کندھا دینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ان کے جنازے کے دونوں طرف ہندو برادری ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے احترام سے کھڑی تھی، اور ان کے لیڈر جنازے کے ساتھ چلتے رہے۔