سانحہ ساہیوال :حکومت ملزموں کو بچانے کے لیے کوشاں کیوں ہے؟

عینی گواہوں اور ویڈیو نے تمام سرکاری کہانیوں کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔۔۔!
پورا ملک ایک ہفتے سے سوگ کی کیفیت میں ہے۔ سانحہ ساہیوال نے پوری قوم کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ تین معصوم کلیاں، اپنے بھائی اور والدین کے ہمراہ ہفتہ 19 جنوری کی صبح ہنسی خوشی لاہور میں اپنے گھر سے بورے والا میں اپنے کزن کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہوئیں۔ کسے خبر تھی کہ ان کا یہ سفر موت کا سفر بن جائے گا۔ وہ جب ساہیوال سے کچھ پہلے قادر آباد کے قریب پہنچے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی ایک بڑی گاڑی نے انہیں روکا اور اس میں سوار اہل کاروں نے دو بچیوں اور بچے کو نکال کر اپنے ڈالے میں منتقل کرنے کے بعد گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ جب تسلی ہوگئی تو گاڑی بھگا کر یہ جا وہ جا۔۔۔ پھر بھاگتے ہوئے تھوڑی دور جاکر معصوم بچوں کو گاڑی سے اتار کر سنسان سڑک پر کھڑا کردیا اور خود آگے دوڑ لگا دی۔ قریب سے گزرنے والوں نے ان کمسن بچوں کو لاوارث دیکھ کر قریبی پیٹرول پمپ پر جا بٹھایا۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی والوں کو نہ جانے کیا سوجھی کہ واپس آئے اور پیٹرول پمپ پر سہمے بیٹھے بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر ہمراہ لے گئے۔
جب فائرنگ کرنے والوں کی دہشت ذرا کم ہوئی اور صورت حال کچھ سنبھلی تو معلوم ہوا کہ بے دریغ کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں لاہور کا کریانہ فروش 42 سالہ خلیل اور 38 سالہ بیوی نبیلہ، 13 برس کی بیٹی اریبہ اور دوست ذیشان جاوید جو کار چلا رہا تھا، جاں بحق ہوچکے ہیں، جب کہ خلیل کا دس برس کا بیٹا عمیر اور اس کی سات سالہ بہن منیبہ گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے، تاہم سب سے چھوٹی بچی پانچ سالہ ہادیہ معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔
اس انتہائی اندوہناک واقعہ کے بارے میں سرکاری طور پر پہلے یہ بتایا گیا کہ ایک گاڑی میں دو بچیوں کو لاہور سے اغوا کرکے لے جایا جا رہا تھا، پولیس نے ساہیوال کے قریب کارروائی کرکے بچیوں کو بازیاب کرا لیا، تاہم فائرنگ کے تبادلے میں گاڑی میں سوار چار اغوا کار جن میں دو مرد تھے اور دو عورتیں، موقع پر ہلاک ہوگئے۔
سی ٹی ڈی پنجاب نے واقعے کی جو ابتدائی رپورٹ آئی جی پنجاب کو پیش کی، اس کے مطابق ساہیوال سی ٹی ڈی ٹیم نے حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی مؤثر اطلاع پر ساہیوال میں جوائنٹ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک چار دہشت گرد ہلاک ہوگئے، جب کہ ان کے قبضے سے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد برآمد کرلیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ہفتے کی دوپہر بارہ بجے کے قریب ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب ساہیوال سی ٹی ڈی کی ٹیم نے کار اور موٹر سائیکل پر سوار دہشت گردوں کو روکنے کی کوشش کی جس پر دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی کی ٹیم پر فائرنگ شروع کردی، سی ٹی ڈی کی ٹیم نے اپنے تحفظ کے لیے جوابی کارروائی کی، جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو چار دہشت گرد جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں، اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک پائے گئے، جب کہ ان کے تین ساتھی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق ساہیوال میں ہونے والا آپریشن 16 جنوری کو فیصل آباد میں ہونے والے آپریشن کا تسلسل ہے، اور سی ٹی ڈی کی ٹیم ریڈ بک میں شامل انتہائی مطلوب دہشت گردوں شاہد جبار اور عبدالرحمن کو ٹریس کررہی تھی۔ گزشتہ روز معتبر ذرائع سے اطلاع موصول ہوئی کہ وہ اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد کے ساتھ ساہیوال کی جانب سفر کررہے ہیں۔ دہشت گرد پولیس چیکنگ سے بچنے کے لیے اپنی فیملیز کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ انہیں سرنڈر کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے فائرنگ شروع کردی۔ دہشت گرد شاہد جبار، عبدالرحمن اور ایک نامعلوم دہشت گرد فائرنگ کرتے ہوئے موٹر سائیکل پر موقع سے فرار ہوگئے۔ سی ٹی ڈی ٹیم نے موقع سے خودکش جیکٹس، ہینڈ گرنیڈز اور رائفلز سمیت دیگر اسلحہ اپنے قبضے میں لیا۔ سی ٹی ڈی فرار ہونے والے تین دہشت گردوں کا تعاقب کررہی ہے، جب کہ تفتیش کے دائرہء کار کو بھی وسیع کردیا گیا ہے۔
حکام کی طرف سے مزید دعویٰ کیا گیا کہ آپریشن میں ہلاک ہونے والے ایک دہشت گرد کا نام ذیشان ہے، جب کہ عدیل حفیظ فیصل آباد آپریشن میں ہلاک ہوا تھا۔ داعش سے منسلک اس نیٹ ورک نے ملتان میں حساس ادارے سے منسلک تین افسران اور فیصل آباد میں ایک پولیس آفیسر کو ہلاک کیا تھا، جب کہ امریکن شہری وارن وائن اسٹائن اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا میں بھی یہی دہشت گرد ملوث تھے، اس کے علاوہ مذکورہ دہشت گرد متعدد کارروائیوں میں درجنوں معصوم شہریوں کو شہید کرچکے ہیں، اور یہ پنجاب میں داعش نیٹ ورک کے سب سے خطرناک دہشت گردوں میں شامل ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ہر لمحہ بدلتے مؤقف نے سارے معاملے کو مزید مشکوک کردیا۔ جونہی واقعہ کی اطلاع ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچی۔۔۔ لاہور سمیت جہاں کے مقتولین رہائشی تھے، ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج شروع ہوگیا۔ لوگوں نے سرکار کی واقعہ کے بارے میں کہانیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور انہیں ہر پولیس مقابلے کے بعد پولیس کی جانب سے روایتی کہانی سے زیادہ حیثیت نہیں دی۔
عوام کی جانب سے شدید احتجاج کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور دیگر حکومتی وزرا بھی حرکت میں آئے، جب کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعہ کے بارے میں وزیراعلیٰ سے رابطہ کر کے معلومات حاصل کیں اور انہیں فوری طور پر ساہیوال روانہ ہونے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ نے واقعہ کی فوری تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی اور 72 گھنٹے کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ تاہم اس ضمن میں چار صوبائی وزرا نے صوبائی وزیر قانون راجا بشارت کی قیادت میں پریس کانفرنس کی اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کا انتظار کیے بغیر یہ دعویٰ کیا کہ حساس ادارے کی رپورٹ پر کیا گیا سی ٹی ڈی کا یہ آپریشن سو فیصد درست تھا اور اس میں جاں بحق ہونے والے افراد کا تعلق دہشت گردوں سے تھا جو خواتین کا کور لے کر کارروائی کرنے جارہے تھے۔
صوبائی وزرا اور پولیس حکام کے دعووں کے برعکس عینی گواہوں کا مؤقف یہ تھا کہ گاڑی میں سوار کسی فرد کی طرف سے کوئی مزاحمت کی گئی اور نہ ہی فائرنگ۔۔۔ تمام کارروائی یک طرفہ اور سی ٹی ڈی کی طرف ہی سے تھی۔ جب کہ اہلِ محلہ بھی اس بات کو تسلیم کرنے پر کسی طور آمادہ نہیں کہ مقتولین کا کسی دہشت گرد تنظیم یا سرگرمی سے کوئی تعلق تھا۔ خلیل گزشتہ طویل عرصے سے علاقے میں کریانہ کی دکان چلارہا ہے اور اہلِ علاقہ نے کبھی اس کی کوئی مشکوک سرگرمی نہیں دیکھی۔ یہی احوال ذیشان جاوید کا بھی بتایا گیا ہے کہ اُس کی ماں نے محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کی پرورش کی، اور وہ بھی کبھی کسی قابلِ اعتراض سرگرمی میں ملوث نہیں پایا گیا، اس کا سگا بھائی خود پولیس میں ملازم ہے اور وہ بجا طور پر دعویٰ کررہا ہے کہ جب وہ پولیس میں بھرتی ہوا تو خفیہ اداروں نے صرف اس کے بارے ہی میں نہیں، بھائی ذیشان سمیت پورے خاندان کے متعلق تحقیقات کیں، اور پورے اطمینان کے بعد ہی اسے پولیس میں بھرتی کیا گیا۔ ایسے میں اب اچانک ذیشان کا تعلق داعش اور دہشت گردوں کے ساتھ جوڑنا کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
ماضیِ قریب کے حالات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ساہیوال کا سانحہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ چند سال قبل کراچی میں رینجرز نے ایک نوجوان موٹر سائیکل سوار کو دن دہاڑے گولیوں سے بھون دیا، حالانکہ وہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا رہا اور کہتا رہا کہ اسے گرفتار کرلیا جائے اور گولی نہ ماری جائے، مگر ’’فرض کی پکار پر لبیک‘‘ کہنے والے رینجرز اہل کاروں نے اس کی ایک نہ سنی اور اسے موت کی نیند سلا کر دم لیا۔ پھر گزشتہ برس ایس ایس پی راؤ انوار اور ساتھیوں کی جانب سے ایک شہری نقیب اللہ کو گولیاں مار کر دہشت گرد قرار دینے اور اپنی یک طرفہ کارروائی کو پولیس مقابلہ قرار دینے کا سنگین واقعہ بھی ابھی تک لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا۔ اس سے قبل 2014ء میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے حکومت کے خلاف اسلام آباد تک مارچ اور دھرنے کے اعلان کے بعد پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے مرکز ماڈل ٹاؤن لاہور پر پولیس کی چڑھائی اور ٹی وی کیمروں کے سامنے خواتین سمیت 14 افراد کو گولیوں سے بھون دینے اور سو کے قریب لوگوں کو شدید زخمی کردینے کی کارروائی کو بھی آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا۔ مگر افسوس کہ 14 قیمتی جانوں کے ضیاع کے باوجود ابھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین سمیت ان تمام واقعات کے مجرموں میں سے کسی کو قرار واقعی سزا نہیں دی جا سکی، جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ قانون نافذ کرنے کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے والے پولیس اور دیگر اداروں کے اہل کاروں کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں اور وہ جب اور جسے چاہتے ہیں کسی خوفِ جواب دہی کے بغیر موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ کاش ماضی کے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دے دی جاتیں تو آج ساہیوال کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔
سانحۂ ساہیوال میں یہ امر توجہ طلب ہے کہ سی ٹی ڈی کی ماضی کی تمام کارروائیاں رات کی تاریکی میں نامعلوم مقامات پر ہوتی رہیں، چنانچہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو دعویٰ کیا گیا اور عوام کو جو کہانی سنائی گئی، لوگوں نے اسے قبول کرلیا۔ چنانچہ سی ٹی ڈی اہل کار اپنے ’’کارناموں‘‘ پر عوام سے داد سمیٹتے رہے۔ یہ پہلا ’’آپریشن‘‘ ہے جو دن کی روشنی میں بر لبِ سڑک کیا گیا، اور اس کا بھانڈا چوراہے میں پھوٹ گیا۔ جتنے دعوے اس کے متعلق کیے گئے، ایک ایک کرکے تمام جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے۔
سانحۂ ساہیوال میں بار بار حساس اداروں کی رپورٹ کا ذکر بھی کیا جارہا ہے کہ ان کی فراہم کردہ معلومات پر یہ آپریشن کیا گیا۔ اسی طرح آپریشن میں شامل 16 افراد میں جو 6 افراد بغیر وردی کے تھے، اُن کا تعلق بھی حساس اداروں سے بتایا جارہا ہے۔ یہ اگرچہ وزیراعلیٰ کی قائم کردہ کمیٹی کے دائرۂ کار میں شامل نہیں، تاہم بہتر ہو اگر خود حساس اداروں کے ذمہ داران اس سے متعلق تحقیقات کا اہتمام کریں کہ ان کے اداروں سے وابستہ لوگ کس حد تک ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کیونکہ ’’لاپتا افراد‘‘ کے متعلق ان اداروں کے کردار پر بہت سے سوالات اب زبان زدِ عام ہیں۔
ساہیوال سانحہ کے بارے میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ جاں بحق ہونے والے کار ڈرائیور ذیشان جاوید کے بارے میں بار بار الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس کا تعلق خطرناک دہشت گرد تنظیم ’’داعش‘‘ سے تھا جو بہت سی اہم کارروائیاں مختلف شہروں میں کرچکی ہے۔ ہمارے اہلِ اقتدار اب تک کئی بار یہ اعلان کرچکے ہیں کہ پاکستان میں ’’داعش‘‘ نام کی کسی تنظیم کا کوئی وجود نہیں اور اس ضمن میں بیرونی قوتوں کے دعوے سراسر بے بنیاد ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’داعش‘‘ کے وجود یا عدم وجود کے بارے میں اربابِ اختیار کے اب تک کے دعوے درست تھے؟ یا سانحۂ ساہیوال کے بعد ذیشان جاوید اور اس کے بعض مبینہ ساتھیوں کی ’’داعش‘‘ سے وابستگی اور ان کی خطرناک کارروائیوں کے بارے میں دعوے؟ اور یوں پاکستان میں ’’داعش‘‘ کے وجود کے اعتراف کی بات درست ہے؟
سانحۂ ساہیوال کے بارے میں عینی شاہدوں نے سرکاری مؤقف کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے، حالانکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ عینی شاہدوں اور جاں بحق ہونے والے خلیل اور ذیشان کے اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب کو حقائق بیان کرنے کے ضمن میں شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ تاہم موقع واردات کی جو ویڈیو منظرعام پر آئی ہے اُس نے تو سرکاری حکام کی بار بار بدلتی تمام کہانیوں کا پردہ چاک کردیا ہے۔ اس ویڈیو میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ سڑک کے کنارے کھڑی کار میں سوار افراد کی طرف سے قطعی کوئی مزاحمت کی گئی ہے نہ اُن کی طرف سے کوئی فائرنگ ہوئی ہے۔ سی ٹی ڈی اہل کار یک طرفہ طور پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں، خوفزدہ بچوں کو کار سے نکال کر اپنی گاڑی میں بٹھاتے ہیں، کار سواروں کے سامان کا بیگ اپنی گاڑی میں منتقل کرتے ہیں، اور کار سوار خواتین اور مردوں کو کراہتے چھوڑ کر جائے وقوعہ سے فرار ہوجاتے ہیں۔ فائرنگ چونکہ یک طرفہ تھی اس لیے اہل کاروں میں سے کسی کے زخمی یا جاں بحق ہونے کی بات تو دور کی ہے، ان میں سے کسی کو خراش تک نہیں آتی۔ جن تین موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ اور ان کے موقع سے فرار ہونے کا سرکاری کہانی میں دعویٰ کیا گیا ہے، ان کا کوئی وجود پوری ویڈیو میں کہیں نظر نہیں آتا۔
اسی طرح جن خودکش جیکٹوں اور بھاری اسلحہ کی کار سے برآمدگی کا دعویٰ کیا گیا تھا، واقعہ کی تصویری کہانی اس کی بھی تصدیق کے بجائے دوٹوک تردید کرتی ہے۔
عینی شاہدوں کے بیانات اور ویڈیو سے جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے ظاہر ہے کہ کار سواروں کی طرف سے کوئی مزاحمت کسی مرحلے پر سامنے نہیں آئی۔ اسی طرح مقتول خلیل کے کم سن بیٹے نے وقوعہ کی جو روداد اپنی معصوم زبان میں سنائی ہے اس میں وہ بتاتا ہے کہ اس کے والد فائرنگ کرنے والوں کو دہائی دیتے رہے کہ تمہیں جتنی رقم چاہیے لے لو، ہمیں گولی نہ مارو، مگر کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔ گویا یہ طے ہے کہ سی ٹی ڈی اہل کار اگر چاہتے تو کار سوار ’’دہشت گردوں‘‘ کو آسانی سے گرفتار کرسکتے تھے۔ مگر نہ جانے ان اہل کاروں پر کوئی خوف طاری تھا یا انہیں ہدایات ہی یہی دی گئی تھیں، یا انہیں مقتولین کے زندہ رہنے کی صورت میں کسی راز کے افشا ہونے کا ڈر تھا کہ انہوں نے ہر صورت جان سے مارنا ہی ضروری سمجھا۔ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ انہیں آخر زندہ کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟
وقوعہ کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے 72 گھنٹے گزرنے پر اپنی ابتدائی رپورٹ پیش کردی ہے جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ خلیل اور اس کے اہلِ خانہ قطعی بے گناہ، بے قصور اور معصوم تھے، اور سی ٹی ڈی ان بے گناہوں کی موت کی ذمہ دار ہے۔ جب کہ ذیشان کے بارے میں کمیٹی نے کہا ہے کہ اس سے متعلق مزید تحقیقات ہونی چاہئیں جس کے لیے مزید وقت درکار ہے، کیونکہ ابھی تک اس کے دہشت گرد ہونے کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں ملا۔
پنجاب حکومت نے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں کی گئی ابتدائی سفارشات کی روشنی میں ساہیوال کے ایس ایس پی جواد قمر اور ڈی ایس پی آصف کمال کو معطل کردیا ہے۔ تین بڑے افسران ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر، اے آئی جی آپریشن اظہر حمید، اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بابر سرفرار کو ان کے عہدوں سے ہٹادیا ہے، جب کہ کارروائی میں براہِ راست ملوث پانچ اہل کاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرا دیا گیا ہے جو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا۔
مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ واضح الفاظ میں کہہ رہی ہے کہ خلیل کا خاندان بالکل بے گناہ تھا، جب کہ ذیشان جاوید کو بھی کمیٹی نے دہشت گرد تسلیم نہیں کیا، مگر صوبائی وزیر قانون راجا بشارت نے کابینہ کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں پھر یہ دعویٰ کیا ہے کہ سی ٹی ڈی کی کارروائی بالکل درست تھی اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ وہ اپنے اس دعوے کی صداقت میں کوئی دلیل یا ثبوت پیش کرنے سے بھی قاصر ہیں مگر اس سے پیچھے ہٹنے اور غلطی کا اعتراف کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔ منگل کی شام کی گئی اس پریس کانفرنس میں انہوں نے اعلان کیا کہ بدھ کو حکومت سانحۂ ساہیوال کے بارے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ان کیمرہ بریفنگ دے گی۔ مگر بدھ کا سارا دن گزر گیا ہے، اس ان کیمرہ بریفنگ کی بھی نوبت نہیں آئی، حکومت نے اسے منسوخ کردیا ہے کہ اہلِ صحافت کے سوالوں کا کوئی جواب اہلِ اقتدار کے پاس نہیں کہ وہ سانحۂ ساہیوال کے ملزموں کو بچانے کے لیے کیوں کوشاں ہیں؟