وزیراعلیٰ جام کمال اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئیرمین کی مشترکہ پریس کانفرنس
امکان ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی تحریک انصاف سے مزید تعاون اور اس کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے۔ اس کے مطالبات جن میں سرفہرست لاپتا افراد کی بازیابی ہے، وزیراعظم عمران خان کے دائرۂ اختیار میں شاید نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے بلوچستان کے اندر خالی ہونے والی سینیٹ کی ایک نشست پر بھی بی این پی کو ووٹ نہیں دیا۔ اس نے اپنی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کی کامیابی کے لیے اس کا ساتھ دیا۔
بہرحال بی این پی کی سینٹرل کمیٹی کا اہم اجلاس 16 جنوری کو کراچی میں ہوا، جس کی روشنی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو صورت حال کو دیکھے گی۔ اس کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ لاپتا افراد کے مسئلے پر بلوچستان حکومت بھی حرکت میں آئی ہے۔ اس نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کو دو ماہ کے لیے احتجاجی کیمپ بند یا مؤخر کرنے پر آمادہ کرلیا ہے۔ 16 جنوری 2019ء کو وزیراعلیٰ ہائوس میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی، جس میں وزیراعلیٰ جام کمال نے کہا کہ صوبائی حکومت دو ماہ کے دوران لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گی کیونکہ یہ صوبے کے اہم مسائل میں سے ایک ہے، بلکہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا و دیگر پر مختلف خبریں اور قیاس آرائیاں یومیہ بنیادوں پر سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں، جبکہ بلوچستان کی متعدد سیاسی پارٹیوں نے اس مسئلے کو ایجنڈے میں شامل کیا۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح ہم بھی دلاسوں سے کام لے سکتے تھے، مگر ہماری حکومت نے دوسروں کی طرح اس مسئلے پر عارضی کام یا پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے عملی اقدامات کیے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری وزیراعظم پاکستان عمران خان سے بھی بات ہوئی ہے جس پر ہمیں مثبت ردعمل اور جواب ملا ہے۔ ہماری وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے عہدیداران سے بھی ملاقات ہوئی ہے جس میں ہم نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ لاپتا افراد کے معاملے میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا، اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس بابت آن بورڈ لیا جائے گا۔ ہم نے لاپتا افراد کے لواحقین سے کہا ہے کہ وہ ہمیں دوماہ کا وقت دیں، اس سلسلے میں ہم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مشکور ہیں جنہوں نے ہمیں دوماہ کا وقت دیا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے نہ صرف حکومتی سطح پر باقاعدہ طریقہ کار بنایا جارہا ہے، بلکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور لاپتا افراد کے لواحقین کے ساتھ رابطے میں رہ کر کام کیا جائے گا، محکمہ داخلہ بھی اس معاملے کو دیکھے گا۔ لاپتا افراد سے متعلق مختلف فہرستیں ہیں تاہم موجودہ حکومت لواحقین کو بنیاد بناکر اقدام کرے گی۔ حکومت میں آنے کے بعد لاپتا افراد کے مسئلے کا حل ہماری اولین ترجیحات میں شامل رہا، بلکہ ان کی بازیابی کے لیے ہم نے عملی اقدامات اٹھائے۔ ہم اس مسئلے پر عارضی بنیادوں پر کام کرنے کے بجائے اس کے مستقل حل کے لیے کوشاں ہیں، کیونکہ یہ مسئلہ فوٹوسیشن کے بجائے عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔ موجودہ حکومت دوماہ کے دوران لاپتا افراد کے لواحقین کو خوش خبری دے گی۔ میں نے بطور وزیراعلیٰ کوشش کی کہ اس سلسلے میں لاپتا افراد کی تنظیم اور ان کے لواحقین سے وقت طلب کروں۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ دوسرے عہدیداروں کے ساتھ موجود تھے۔ اپنی گفگو میں انہوں نے کہا کہ ہم مسنگ پرسنز کے مسئلے کا حل ملکی قوانین کے مطابق چاہتے ہیں، اور روزِ اوّل سے ہی یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ جن لاپتا افراد کے خلاف کیسز ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ ہمیں موجودہ صوبائی وزیر داخلہ نے مسئلے کے حل کی یقین دہانی کرائی تھی جس کے بعد اب تک 11 افراد اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں، اب وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے دوماہ کا وقت مانگ کر یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس دوران مسئلے کو حل کیا جائے گا۔ ویسے تو ہماری تنظیم کی جانب سے گزشتہ 10 سال سے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں، تاہم خوشی اس بات کی ہے کہ موجودہ حکومت نے اس مسئلے پر ذمہ داری دکھائی ہے اور درجن بھر لاپتا افراد اپنے گھروں کو واپس آچکے ہیں۔ لاپتا افراد کے لواحقین ذہنی اذیت سے دوچار ہیں، ہمیں امید ہے کہ انہیں نقصان نہیں پہنچے گا۔ چینی قونصلیٹ حملے میں ملوث شخص کا نام ان کی فہرست میں شامل نہیں تھا، بلکہ معلوم ہوا ہے کہ اسے والد نے بھی عاق کردیا تھا۔ لاپتا افراد کا مسئلہ انسانی مسئلہ ہے، حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسے حل کرائے۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھاکہ وہ برسوں سے احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں، تاہم گزشتہ حکومتوں کی جانب سے لاپتا افراد کے مسئلے پر سیاست چمکائی گئی اور کسی قسم کے عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ موجودہ صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ نے اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے، اس لیے ہمیں امید ہے کہ اب یہ مسئلہ حل ہوگا۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے دوماہ کا وقت مانگا گیا ہے، اس لیے ہم اب دو ماہ تک اپنے احتجاج کو مؤخر کررہے ہیں، اگر دو ماہ کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو ہم اپنے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ہم نے حکومت کو فہرست دے دی ہے، جبکہ پہلے بھی فہرست مہیا کرچکے ہیں۔
جیساکہ ذکر ہوا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے مرکزی حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور ساتھ چھوڑنے پر غور شروع کردیا ہے، بدھ16جنوری کو کراچی میں بی این پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا،اجلاس کے بعد سردار اختر مینگل نے صحافیوں سے گفتگو کی۔ ان کے مطابق اگست 2018ء میں تحریک انصاف کے ساتھ ایم او یو پر دستخط ہوئے، کچھ نکات اور دیرینہ اور پیچیدہ مسائل حل کرنے پر اتفاق ہوا جس کا سب کو معلوم ہے۔ وقتاً فوقتاً یاددہانی بھی کرائی جاتی رہی اور اجلاس بھی ہوئے۔ ہمارا حکومت گرانے کاکوئی ارادہ نہیں، ہمارے مطالبات مان لیے گئے تو ہم حکومت کے ساتھ چلیں گے۔ ہمارے 6 نکات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، ہم نے حکومت کو ایک سال دیا ہے۔ پوائنٹ اسکورنگ نہیں، 6 نکات پر عمل درآمد چاہتے ہیں۔ حکومت کے اتحادی نہیں، صرف حمایتی ہیں۔ اگر اتحادی ہوتے تو بلوچستان میں سینیٹ کے انتخاب میں ہمارے امیدوار کو ووٹ ملتا۔ ساڑھے تین سو مسنگ پرسن مل چکے، اب بھی ہزاروں لوگ لاپتا ہیں۔