اسلام آباد مذاکرات کی کہانی

مذاکرات کی اندرونی کہانی یہ ہے کہ طالبان نے امریکی نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد سے پاکستان میں مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے اس امید پر پاکستان میں اپنے قیام میں توسیع کی تھی کہ شاید طالبان مذاکرات پر آمادہ ہوجائیں، لیکن طالبان اس مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ افغان حکومت سے کوئی بات نہیں کی جائے گی، اور امریکہ سے صرف افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا، قیدیوں کے تبادلے اور تحریک طالبان افغانستان پر پابندی ختم کرنے کے مطالبات پر ہی بات ہوگی۔ طالبان کی سابق حکومت کے وزیر مذہبی امور حافظ محب اللہ کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ مذاکرات میں معاونت کریں گے، لیکن ابھی تک اس بات کی باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی۔ مذاکرات کا دھندلا سا منظر یہ ہے کہ پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے مجوزہ مذاکرات میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے نمائندے بطور مبصر، خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں گے۔ طالبان، قیدیوں کے تبادلے اور تاوان کے علاوہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی منسوخی کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ امریکی انتظامیہ بھی پریشان ہے کہ تاخیر ہوئی تو صدر ٹرمپ یک طرفہ طور پر افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کا اعلان کرسکتے ہیں۔ طالبان بھی امریکی انتظامیہ کو اسی نہج تک لانا چاہتے ہیں۔ طالبان قیادت اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر افغانستان میں امن عمل کے لیے مدد کی درخواست کی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت سمجھتی ہے کہ امریکیوں کے لیے کام کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ لیکن طالبان نے مذاکرات کا عمل روک کر اسلام آباد، واشنگٹن، بیجنگ، متحدہ عرب امارات، قطر، ماسکو۔۔۔ سب جگہ خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں۔ صورت حال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے زلمے خیل زاد اسلام آباد پہنچے تھے اور اسلام آباد میں اپنے قیام میں توسیع کردی ہے کہ شاید طالبان مذاکرات پر آمادہ ہوجائیں۔ اسلام آباد میں زلمے خلیل زاد کی پاکستانی حکام اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتوں کے پس منظر میں طالبان سے اسلام آباد میں ملاقات متوقع تھی۔ یہ بات آگے بڑھ سکتی ہے، طالبان کا خیال ہے کہ علاقائی طاقتیں چاہتی ہیں کہ طالبان امریکی سفارت کار سے اسلام آباد میں ہی ملاقات کریں۔ لیکن طالبان یہ خواہش مسترد کرچکے ہیں۔ طالبان نے زلمے خلیل زاد پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے طے شدہ ایجنڈے سے انحراف کیا ہے، اور یہ کہ واضح نہیں کہ اب دوبارہ مذاکرات کب ہوں گے؟ امریکی انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ مذاکرات عالمی سطح پر تسلیم شدہ افغان حکومت کے ساتھ ہوں گے، جسے طالبان تسلیم نہیں کرتے۔ تاہم باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ امریکہ سے مذاکرات کا آغاز جن شرائط پر ہوسکتا ہے ان میں سرفہرست امریکہ کا افغانستان سے انخلا، اس کے علاوہ قیدیوں کا تبادلہ، طالبان کے خلاف اقوام متحدہ کی قرارداد کی واپسی، طالبان رہنماؤں پر عائد تمام سفری پابندیاں ختم کرنا، اتحادی افواج کے مرحلہ وار انخلا کا نظامِ الاوقات، مذاکرات سے پہلے 18 برس میں ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے امریکہ کی جانب سے تاوانِ جنگ کا تعین کرکے اس کی ادائیگی کا اعلان شامل ہیں۔
زلمے خلیل زاد کا ان مذاکرات اور افغان قضیے کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں خطے کا یہ پانچواں دورہ ہے۔ افغان امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل طالبان اُس وقت تک مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوں گے جب تک افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا نظامِ الاوقات سامنے نہیں آجاتا۔ پاکستان اپنا اثررسوخ استعمال کررہا ہے، لیکن اب تک کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔ پاکستان میں سابق افغان سفیر عمر زخیل وال کے مطابق امن کوششوں میں بعض رکاوٹیں آگئی ہیں، شاید اس کی وجہ اعتماد سازی کے اقدامات اور ابتدائی سہولت کاری میں غیرحقیقی توقعات اور جوش وخروش میں اضافے پر مبنی کچھ مطالبات پیش کرنا ہے۔ شکوک اور علاقائی فریقین میں باہمی کشاکش کی وجہ سے بھی اس ضمن میں مدد نہیں مل رہی ہے۔
حکام سے ملاقاتوں کے بعد زلمے خلیل زاد نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’’میں ٹھوس پیش رفت کا منتظر ہوں، مجھے پاکستانی حکام نے افغانستان میں امن عمل کے لیے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے‘‘۔ حالیہ دنوں میں زلمے خلیل زاد کی طالبان سے تین ملاقاتیں ہوچکی ہیں، ان میں سے مذاکرات کا آخری دور دسمبر میں دبئی میں ہوا تھا جس میں پاکستان اور سعودی عرب کے حکام بھی شریک ہوئے تھے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنماؤں کے درمیان اسلام آباد میں ملاقات کی افواہیں صداقت پر مبنی نہیں۔ یہ بیان اس لیے جاری ہوا کہ طالبان امریکہ پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ فریقین میں بداعتمادی کی وجہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ افغان طالبان کا مؤقف ہے کہ غیر ملکی فوج افغانستان سے باہر نکلے۔ ان کا یہ مؤقف بالکل درست ہے، تاہم مذاکرات کے عمل میں تعطل پیدا ہونے کی وجوہات اور بھی ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ مذاکرات کا دوسرا دور اسلام آباد میں کیا جائے کیوں کہ افغان طالبان اسلام آباد کے زیراثر ہیں۔ لیکن افغان طالبان کس پر اعتماد کرتے ہیں اور کس پر اعتماد نہیں کرتے یہ بات بھی اسلام آباد میں مذاکرات ہونے کی صورت میں کھل کر سامنے آجائے گی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے زلمے خلیل زاد نے اسلام آباد کو براہِ راست مداخلت کرنے کے لیے کہا ہے اور پاکستان نے فیصلہ کیا کہ طالبان کو دعوت دی جائے کہ وہ اسلام آباد آئیں، لیکن مذاکرات کہاں ہوں گے یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔
یہ مذاکرات اس لیے بھی آگے نہیں بڑھ رہے کہ امریکی انتطامیہ اور پینٹاگان بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ اور پینٹاگان کے ترجمان ایک دوسرے کی نفی کررہے ہیں۔ پاکستان نے بھی دوٹوک کہہ رکھا ہے کہ ہم کرائے کی بندوق نہیں بنیں گے۔ زلمے خلیل زاد کے دورۂ پاکستان کے بعد افغان صدر اشرف غنی اور وزیراعظم عمران خان میں ٹیلی فون پر گفتگو بھی ہوئی ہے۔ خبر یہ ہے کہ مذاکرات کے تعطل کے باوجود بیک ڈور چینل سے بات چیت جاری ہے اور یہ امکان بھی موجود ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اسلام آباد کا دورہ کریں۔ لیکن زلمے خلیل زاد کے اس ٹویٹ نے سارا کھیل بگاڑ کر رکھ دیا ہے’’امریکہ امن چاہتا ہے، افغانستان کی آزادی اور خودمختاری اور خطے کی ریاستوں کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا، واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ صرف امن چاہتا ہے، امن کے قیام کے لیے تمام افغانیوں کے تحفظات دیکھیں گے‘‘۔ زلمے کے اس ٹویٹ کو یوں سمجھا گیا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں لڑائی فوری ختم ہو۔ لیکن امن کی تلاش کا مطلب ہے کہ اسے ضرورت کے مطابق لڑنا بھی پڑے گا، اسی لیے تو وہ افغانیوں کے مفادات کی بات کررہا ہے۔ زلمے کا یہ ٹویٹ ہی وہ چھرا ہے جو مذاکرات کی پیٹھ میں گھونپا گیا ہے۔