حزبِ اسلامی افغانستان کے سربراہ اور سابق جہادی راہنما انجینئر گلبدین حکمت یار کے افغانستان کے 20 جولائی کو منعقد ہونے والے چوتھے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان سے جہاں صدارتی امیدواران کی تعداد تقریباً ایک درجن تک پہنچ گئی ہے، وہیں ان کی بطور صدارتی امیدواراعلان سے افغان سیاست کے ساتھ ساتھ افغانستان کے حالات سے گہری وابستگی رکھنے والی علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں میں بھی ہلچل مچ گئی ہے۔ اسی طرح گلبدین حکمت یارکے صدارتی دوڑ میں شامل ہونے سے اگر ایک طرف ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے اُن کے لاکھوں مداحوں کے علاوہ اسلام پسند حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، تو دوسری جانب اُن کے اس اچانک اعلان سے اسلام مخالف قوتوں بالخصوص ملک کے سابق کمیونسٹ اور موجودہ لبرل حلقوں میں پیدا ہونے والی تشویش کو بھی بآسانی دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ انجینئرگلبدین حکمت یار تقریباً دو دہائیاں جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد موجودہ افغان حکومت کے ساتھ ایک امن معاہدے کے تحت 2017ء میں افغانستان واپس لوٹے تھے۔ بیس سالہ جلاوطنی کے دوران وہ طالبان دورِ حکومت میں پہلے کچھ عرصہ ایران میں مقیم رہے تھے اور بعدازاں پاکستان میں روپوشی کی زندگی گزارتے رہے تھے۔ البتہ 2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد انہوں نے امریکی اور اتحادی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے خلاف سخت گیر مؤقف اپناتے ہوئے ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں جہادی سرگرمیوں کو منظم کرنے میں فعال کردار ادا کیا تھا، جس کی وجہ سے امریکی شہہ پر اقوام متحدہ کی جانب سے لگنے والی پابندیوں اور عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں نام شامل کیے جانے کے باعث وہ زیرزمین چلے گئے تھے۔ ان کی جماعت حزبِ اسلامی کی جانب سے کابل میں کئی بڑی کارروائیوں کے علاوہ افغانستان کے مشرقی علاقوں میں امریکی افواج پر ہونے والے چھاپہ مار حملوں کے نتیجے میں افغان حکومت کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ جب تک گلبدین حکمت یار جیسی بڑی قدآور سیاسی اور جہادی شخصیت کو اعتماد میں لے کر جہادی سرگرمیوں سے دور نہیں کیا جائے گا تب تک افغانستان میں نہ تو پائیدار امن بحال ہوگا اور نہ ہی ملک میں امن واستحکام کی منزل حاصل کی جاسکے گی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے اگر ایک طرف ایک ڈرون حملے میں انجینئر گلبدین حکمت یار کے جواں سال بیٹے کو شہید کیا تو دوسری جانب ان کے داماد ڈاکٹر غیرت بحیر کو گرفتار کرکے پانچ سال تک امریکہ کے بگرام میں بنائے گئے عقوبت خانے میں رکھا گیا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ گلبدین حکمت یار صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل ہوکر اپنی سیاسی جماعت حزبِ اسلامی کو ایک جائز پوزیشن دینے کی کوشش میں ہیں۔
واضح رہے کہ اِس سال جولائی میں ہونے والے ملک کے چوتھے صدارتی انتخابات کا اعلان گزشتہ سال اکتوبر نومبر میں طے شدہ شیڈول کے مطابق منعقد نہ ہونے کے بعد کیا گیا ہے، جس میں حصہ لینے کے لیے اب تک تقریباً ایک درجن امیدواران کے نام سامنے آچکے ہیں، جن میں موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور سابق جہادی راہنما انجینئر گلبدین حکمت یار کے علاوہ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، ڈاکٹر اشرف غنی کے قومی سلامتی کے سابق مشیر حنیف اتمر، سابق وزیر داخلہ رحمت اللہ نبیل، سابق وزیر خارجہ زلمے رسول، بھارت میں سابق افغان سفیر شاہدہ محمد ابدالی، سینٹر فار اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر فرامرز تمنا، رکن پارلیمان عبداللطیف پدرام، شمالی اتحاد کے سابق راہنما احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ولی مسعود، محمد حکیم تورسن، سید نوراللہ جلیلی، عنایت اللہ حفیظ اور سابق وزیر داخلہ نورالحق علومی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
افغانستان میں نوزائیدہ جمہوریت جو اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، پانچ سال پہلے اُس وقت ایک بڑے حادثے سے دوچار ہوتے ہوتے بڑی تباہی سے بچ گئی تھی جب موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور موجودہ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان رن آف الیکشن میں ایک سخت ٹاکرے کے بعد نتائج کو تسلیم کرنے پر ایک بڑا تعطل پیدا ہوگیا تھا، اور نوبت سیاسی احتجاج سے خانہ جنگی کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آرہی تھی، جس پر بعد ازاں امریکہ نے ایکشن لے کر ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو ساتھ بٹھاکر اول الذکر کو صدر اور ثانی الذکر کو ایک نیا عہدہ تخلیق کرتے ہوئے ملک کا چیف ایگزیکٹو مقرر کرکے ان کی مشترکہ حکومت کو نیشنل یونٹی یعنی قومی اتحادی حکومت کا نام دیا تھا۔ یہ مشترکہ حکومت ایک واضح معاہدے کے تحت وجود میں آنے کے باوجود گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان نہ صرف مختلف اختیارات کے حوالے سے نوک جھونک کا سلسلہ جاری رہا تھا، بلکہ ان دو بڑوں کے درمیان نظریاتی اور لسانی اختلافات کے باعث بھی ملک کا انتظامی ڈھانچہ مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں ہوسکا، حتیٰ کہ وزیروں اور گورنروں کے تقرر سے لے کر طالبان سے مذاکرات اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں بھی اکثر مواقع پر صدر اور چیف ایگزیکٹو ایک دوسرے کے مدمقابل نظر آتے رہے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سال ایک سال کی تاخیر کے بعد منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتائج تاحال جاری نہ ہونے کے باعث بھی افغانستان کی نوزائیدہ جمہوریت اور وہاں کا آزاد الیکشن کمیشن جہاں افغان عوام اور مختلف سیاسی قوتوں اور قائدین کی تنقید کی زد میں ہے، وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی انتخابات کے نتائج میں طویل تاخیر کو ناپسندیدگی اور شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ لہٰذا اس پس منظر کے ساتھ آنے والے صدارتی انتخابات ملک میں رائج جمہوری نظام پر عوامی اعتماد کی بحالی کے حوالے سے یقیناًنمایاں اہمیت رکھتے ہیں۔
یہاں اس امر کی جانب اشارہ کرنا مناسب ہوگا کہ اب تک افغان صدارتی انتخابات میں جن نمایاں امیدواران کے نام سامنے آئے ہیں وہ بذاتِ خود انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یاد رہے کہ ان نمایاں ناموں میں ایک اہم ترین نام جہاں خود موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا ہے، وہیں اس دوڑ میں شامل ہونے والے ایک درجن سے زائد دیگر امیدواران کے علاوہ ایک معتبر اور نمایاں نام انجینئر گلبدین حکمت یار کا ہے، جن پر اُن کے سابق اور موجودہ سیاسی مخالفین اُن کے جنگجویانہ ماضی کو بڑھا چڑھا کر اور انہیں افغانستان کی تباہی کا واحد ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ انجینئر گلبدین حکمت یار آئندہ صدارتی انتخابات میں اپنے جہادی اور پختون پس منظر کی وجہ سے مدمقابل امیدواران کے لیے ایک سخت اور مشکل حریف ثابت ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح دیگر دوامیدواران میں افغانستان کے قومی سلامتی کے سابق مشیر محمد حنیف اتمرکو بھی ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو اب تک کے شاید وہ واحد اور پہلے پختون امیدوار ہیں جنہوں نے نہ صرف تاجک کمیونٹی میں اثر رسوخ رکھنے والے سابق نائب صدر اور جمعیت اسلامی افغانستان کے اہم راہنما یونس قانونی کو اپنا نائب صدر اول، اور ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو محمد محقق کو نائب صدر دوم کے عہدوں کے لیے نامزد کیا ہے، بلکہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں سابق افغان صدور حامد کرزئی اور صبغت اللہ مجددی، نیشنل اسلامک فرنٹ کے سابق جہادی راہنما سید حامد گیلانی، جمعیت اسلامی کے راہنما اور ہرات کے سابق گورنر اسماعیل خان، شمالی صوبے بلخ کے سابق گورنر عطا محمد نور، سابق وزیر دفاع بسم اللہ جان کاکڑ اور وحید اللہ صباؤن جیسی اہم شخصیات کی براہ راست حمایت بھی حاصل کرلی ہے۔ یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ حنیف اتمر نے گزشتہ سال موجودہ صدر اشرف غنی سے اختلافات کے بعد قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، اور اب وہ ایک جامع ٹیم اور منصوبہ بندی کے ساتھ افغان معاشرے کی تین بڑی اکائیوں کے نمائندوں کو ساتھ ملاتے ہوئے اپنی انتخابی مہم شروع کرچکے ہیں۔ انہوں نے دارالحکومت کابل میں اپنے سیکڑوں ساتھیوں اور حامیوں کے اجتماع میں صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان کرتے ہوئے حنیف اتمر نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ امن مذاکرات کا حصہ بن کر ملک میں سترہ سال سے جاری جنگی حالات کا خاتمہ کرکے قوم کو جاری بحران سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کی کابینہ کے اہم رکن اور وزیر داخلہ امراللہ صالح اپنے منصب سے استعفیٰ دے کر ڈاکٹر اشرف غنی کی انتخابی ٹیم میں بطور امیدوار نائب صدر اوّل شامل ہوچکے ہیں، جبکہ ڈاکٹر اشرف غنی نے ہزارہ کمیونٹی کے سرور دانش کو اپنا نائب صدر دوم نامزد کیا ہے۔ یاد رہے کہ انہوں نے ستائیس روز قبل وزارتِ داخلہ کا منصب سنبھالا تھا، ان کا تعلق افغانستان کی دوسری اہم لسانی اکائی تاجک سے ہے، اور انہیں طالبان کا شدید مخالف سمجھا جاتا ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ اب تک سامنے آنے والے صدارتی امیدواران میں مزید اضافے کے باوجود سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ 20 جولائی کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں بظاہر اصل ٹاکرا موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور اُن کے سابق حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہی متوقع ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس متوقع انتخابی معرکے میں انجینئر گلبدین حکمت یار کی پوزیشن اور خاص کر ماضی میں ان کے پاکستان اور ایران کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے تناظر میں ایک پوٹینشل امیدوار کے طور پر انہیں کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح حنیف اتمر کو بھی ایک مؤثر امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ابھی چونکہ انتخابات میں چھے ماہ سے زائد عرصہ باقی ہے، لہٰذا کوئی حتمی رائے قائم کرنا فی الوقت کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمیں آنے والے دنوں کا انتظار کرنا پڑگا۔
واضح رہے کہ اِس سال جولائی میں ہونے والے ملک کے چوتھے صدارتی انتخابات کا اعلان گزشتہ سال اکتوبر نومبر میں طے شدہ شیڈول کے مطابق منعقد نہ ہونے کے بعد کیا گیا ہے، جس میں حصہ لینے کے لیے اب تک تقریباً ایک درجن امیدواران کے نام سامنے آچکے ہیں، جن میں موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور سابق جہادی راہنما انجینئر گلبدین حکمت یار کے علاوہ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، ڈاکٹر اشرف غنی کے قومی سلامتی کے سابق مشیر حنیف اتمر، سابق وزیر داخلہ رحمت اللہ نبیل، سابق وزیر خارجہ زلمے رسول، بھارت میں سابق افغان سفیر شاہدہ محمد ابدالی، سینٹر فار اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر فرامرز تمنا، رکن پارلیمان عبداللطیف پدرام، شمالی اتحاد کے سابق راہنما احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ولی مسعود، محمد حکیم تورسن، سید نوراللہ جلیلی، عنایت اللہ حفیظ اور سابق وزیر داخلہ نورالحق علومی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
افغانستان میں نوزائیدہ جمہوریت جو اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، پانچ سال پہلے اُس وقت ایک بڑے حادثے سے دوچار ہوتے ہوتے بڑی تباہی سے بچ گئی تھی جب موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور موجودہ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان رن آف الیکشن میں ایک سخت ٹاکرے کے بعد نتائج کو تسلیم کرنے پر ایک بڑا تعطل پیدا ہوگیا تھا، اور نوبت سیاسی احتجاج سے خانہ جنگی کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آرہی تھی، جس پر بعد ازاں امریکہ نے ایکشن لے کر ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو ساتھ بٹھاکر اول الذکر کو صدر اور ثانی الذکر کو ایک نیا عہدہ تخلیق کرتے ہوئے ملک کا چیف ایگزیکٹو مقرر کرکے ان کی مشترکہ حکومت کو نیشنل یونٹی یعنی قومی اتحادی حکومت کا نام دیا تھا۔ یہ مشترکہ حکومت ایک واضح معاہدے کے تحت وجود میں آنے کے باوجود گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان نہ صرف مختلف اختیارات کے حوالے سے نوک جھونک کا سلسلہ جاری رہا تھا، بلکہ ان دو بڑوں کے درمیان نظریاتی اور لسانی اختلافات کے باعث بھی ملک کا انتظامی ڈھانچہ مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں ہوسکا، حتیٰ کہ وزیروں اور گورنروں کے تقرر سے لے کر طالبان سے مذاکرات اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں بھی اکثر مواقع پر صدر اور چیف ایگزیکٹو ایک دوسرے کے مدمقابل نظر آتے رہے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سال ایک سال کی تاخیر کے بعد منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتائج تاحال جاری نہ ہونے کے باعث بھی افغانستان کی نوزائیدہ جمہوریت اور وہاں کا آزاد الیکشن کمیشن جہاں افغان عوام اور مختلف سیاسی قوتوں اور قائدین کی تنقید کی زد میں ہے، وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی انتخابات کے نتائج میں طویل تاخیر کو ناپسندیدگی اور شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ لہٰذا اس پس منظر کے ساتھ آنے والے صدارتی انتخابات ملک میں رائج جمہوری نظام پر عوامی اعتماد کی بحالی کے حوالے سے یقیناًنمایاں اہمیت رکھتے ہیں۔
یہاں اس امر کی جانب اشارہ کرنا مناسب ہوگا کہ اب تک افغان صدارتی انتخابات میں جن نمایاں امیدواران کے نام سامنے آئے ہیں وہ بذاتِ خود انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یاد رہے کہ ان نمایاں ناموں میں ایک اہم ترین نام جہاں خود موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا ہے، وہیں اس دوڑ میں شامل ہونے والے ایک درجن سے زائد دیگر امیدواران کے علاوہ ایک معتبر اور نمایاں نام انجینئر گلبدین حکمت یار کا ہے، جن پر اُن کے سابق اور موجودہ سیاسی مخالفین اُن کے جنگجویانہ ماضی کو بڑھا چڑھا کر اور انہیں افغانستان کی تباہی کا واحد ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ انجینئر گلبدین حکمت یار آئندہ صدارتی انتخابات میں اپنے جہادی اور پختون پس منظر کی وجہ سے مدمقابل امیدواران کے لیے ایک سخت اور مشکل حریف ثابت ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح دیگر دوامیدواران میں افغانستان کے قومی سلامتی کے سابق مشیر محمد حنیف اتمرکو بھی ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو اب تک کے شاید وہ واحد اور پہلے پختون امیدوار ہیں جنہوں نے نہ صرف تاجک کمیونٹی میں اثر رسوخ رکھنے والے سابق نائب صدر اور جمعیت اسلامی افغانستان کے اہم راہنما یونس قانونی کو اپنا نائب صدر اول، اور ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو محمد محقق کو نائب صدر دوم کے عہدوں کے لیے نامزد کیا ہے، بلکہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں سابق افغان صدور حامد کرزئی اور صبغت اللہ مجددی، نیشنل اسلامک فرنٹ کے سابق جہادی راہنما سید حامد گیلانی، جمعیت اسلامی کے راہنما اور ہرات کے سابق گورنر اسماعیل خان، شمالی صوبے بلخ کے سابق گورنر عطا محمد نور، سابق وزیر دفاع بسم اللہ جان کاکڑ اور وحید اللہ صباؤن جیسی اہم شخصیات کی براہ راست حمایت بھی حاصل کرلی ہے۔ یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ حنیف اتمر نے گزشتہ سال موجودہ صدر اشرف غنی سے اختلافات کے بعد قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، اور اب وہ ایک جامع ٹیم اور منصوبہ بندی کے ساتھ افغان معاشرے کی تین بڑی اکائیوں کے نمائندوں کو ساتھ ملاتے ہوئے اپنی انتخابی مہم شروع کرچکے ہیں۔ انہوں نے دارالحکومت کابل میں اپنے سیکڑوں ساتھیوں اور حامیوں کے اجتماع میں صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان کرتے ہوئے حنیف اتمر نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ امن مذاکرات کا حصہ بن کر ملک میں سترہ سال سے جاری جنگی حالات کا خاتمہ کرکے قوم کو جاری بحران سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کی کابینہ کے اہم رکن اور وزیر داخلہ امراللہ صالح اپنے منصب سے استعفیٰ دے کر ڈاکٹر اشرف غنی کی انتخابی ٹیم میں بطور امیدوار نائب صدر اوّل شامل ہوچکے ہیں، جبکہ ڈاکٹر اشرف غنی نے ہزارہ کمیونٹی کے سرور دانش کو اپنا نائب صدر دوم نامزد کیا ہے۔ یاد رہے کہ انہوں نے ستائیس روز قبل وزارتِ داخلہ کا منصب سنبھالا تھا، ان کا تعلق افغانستان کی دوسری اہم لسانی اکائی تاجک سے ہے، اور انہیں طالبان کا شدید مخالف سمجھا جاتا ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ اب تک سامنے آنے والے صدارتی امیدواران میں مزید اضافے کے باوجود سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ 20 جولائی کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں بظاہر اصل ٹاکرا موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور اُن کے سابق حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہی متوقع ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس متوقع انتخابی معرکے میں انجینئر گلبدین حکمت یار کی پوزیشن اور خاص کر ماضی میں ان کے پاکستان اور ایران کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے تناظر میں ایک پوٹینشل امیدوار کے طور پر انہیں کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح حنیف اتمر کو بھی ایک مؤثر امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ابھی چونکہ انتخابات میں چھے ماہ سے زائد عرصہ باقی ہے، لہٰذا کوئی حتمی رائے قائم کرنا فی الوقت کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمیں آنے والے دنوں کا انتظار کرنا پڑگا۔