اس جرگے نے خان عبدالصمد خان کو 14 سال قید کی سزا سنائی، اور وہ فروری یا مارچ 1969ء میں اُس وقت رہا ہوئے جب جنرل یحییٰ خان نے ایوب خان کا تختہ الٹ دیا۔ میں جیل سے رہائی کے بعد ایک دن جناح روڈ کے فٹ پاتھ پر ایک ہوٹل کے قریب سے گزر رہا تھا تو میر صاحب کے چھوٹے بھائی کو رکشہ میں اچانک دیکھ لیا، اور اُن سے ہاتھ ملایا تو وہ خوف زدہ تھے۔ اُن سے پوچھا کہ بڑے بھائی صاحب بھی رہا ہوگئے ہیں؟ اُس نے کہا کہ بھائی صاحب چھوٹ گئے ہیں، لیکن کسی کو میرے بارے میں مت بتانا۔ ان سے کہا آپ فکر نہ کریں کسی کو نہیں بتائوں گا۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ دونوں بھائی قتل کردیے گئے۔ جب ذوالفقار علی مگسی گورنر بلوچستان بنے تو میں سابق امیر صوبہ عبدالمتین اخونزادہ کے ہمراہ اُن سے ملنے گیا۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ انہیں بتادوں کہ آپ کے والد کے قاتل میرے ساتھ مچھ جیل میں تھے۔ دورانِ گفتگو جب میں نے گورنر بلوچستان کو اچانک بتایا کہ مچھ جیل میں آپ کے والد کے قاتل کے ساتھ تھا اور میں سیاسی قیدی تھا تو وہ حیرت زدہ ہوگئے۔ چند لمحے خاموش رہے اور پھر بتایا کہ وہ دونوں قتل ہوگئے تھے۔ ماحول بالکل بدل گیا۔ پھر میں نے نواب مگسی سے کہا کہ آپ تو ایچی سن کالج کے طالب علم رہے ہیں، آپ نے اپنے علاقے میں اس طرز کا کالج کیوں نہیں بنایا؟ اس کا جواب انہوں نے ایک خاموش مسکراہٹ کے ساتھ دیا۔ ماسٹر رمضان شک میں پکڑا گیا تھا، وہ بھی چھوٹ گیا۔ اب معلوم نہیں کہ وہ اس دنیا میں ہے یا نہیں؟ اب جب جیل کی داستان بیان کررہا ہوں تو لگ رہا ہے کہ وہ میرے سامنے بیٹھا ہوا ہے اور ہم خوش گپیاں کررہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہے، جبکہ اس واقعے کو 45 برس بیت گئے ہیں۔
مچھ جیل کی بی کلاس کا احاطہ خاصا بڑا تھا۔ مجھے ورزش کی عادت تھی اس لیے عصر کی نماز پڑھ کر اس احاطے کے گرد تیز قدمی کرتا جو مغرب کی اذان تک جاری رہتی۔ پھر اپنے احاطے میں آجاتا اور نماز کی تیاری کرتا۔ ہم باجماعت نماز ادا کرتے اور مغرب کے بعد اپنے اپنے احاطے میں جانا ہوتا۔ چونکہ میرے احاطے میں چنبیلی کی بیل اور گلاب کے پودے تھے، میں ان پھولوں کو جمع کرتا اور اپنے بستر پر ڈال دیتا، جن کی مہک ایک خوشگوار اثر طبیعت پر ڈالتی تھی اور اس معطر ماحول کا اثر ذہن پر بڑا اچھا پڑتا۔ میں حسام الدین سے کہتا کہ مغل شہزادے بھی اس طرح رہتے تھے اور میں بھی شاہ جہاں اور جہانگیر سے کم نہیں ہوں، پھولوں میں رات بسر ہوتی ہے۔
جیل کے دن اور راتیں بڑی خوشگوار ہوتیں، اور یوں ایک باغی کی زندگی کے دن گزر رہے تھے۔ یہ میرے لیے اعزاز کی بات تھی کہ ایک سچ نے مجھے حکمرانوں کی نگاہوں میں معتوب اور باغی ٹھیرایا۔ اب خیال آرہا ہے کہ جہاں جہاں اور جس جس کمرے میں رہا اُس کی فوٹو گرافی کرلوں تا کہ کتاب شائع ہو تو یہ تصاویر بھی موجود ہوں۔ آئندہ کسی قسط میںکچھ مچھ جیل کے بارے میں بھی لکھنا چاہتا ہوں ۔ یار زندہ صحبت باقی۔
جیل کے دن عجیب اور راتیں اداس ہوتی ہیں۔ گزرے ہوئے لمحات ہوا کے جھونکوں کی طرح آ اور جارہے ہوتے ہیں۔ دوست احباب زیادہ آتے ہیں۔ والدہ زیادہ یاد آتی تھیں۔ بعض دفعہ ان سے لڑائی کرتا تھا اور وہ ہنستی تھیں۔ مجھے ماں نے ایک دفعہ تھپڑ مارا تو اُن سے کہا کہ میں اب بڑا ہوگیا ہوں اس لیے مجھے نہ مارا کریں۔ انہوں نے ایک تھپڑ اور مار دیا اور ہنسنے لگیں۔ یہ میرا میٹرک کا زمانہ تھا۔ والدہ کا انتقال جنوری 1972ء میں ہوا اور میں اپریل 1973ء میں گرفتار ہوا۔ یوں جیل کے دن گزر رہے تھے۔ میرے احاطے میں پھولوں کی بیلیں تھیں، درخت تھے، ماحول رومانٹک تھا۔ اس ماحول سے لطف اندوز ہوتا اور سوچتے سوچتے کھو جاتا تھا۔ صبح کا ماحول خوشگوار ہوتا۔ کمرہ کھلتا تو جیل کے ساتھیوں سے خوب گپ شپ ہوتی۔ جیل وارڈن آدم خان کا معمول تھا کہ روز میرے احاطے میں آتا اور اپنے گزرے ہوئے واقعات سناتا اور میرا حال احوال پوچھتا۔ اس سے دوستی ہوگئی تھی۔ ایک دن اس سے پوچھا کہ آپ نے پھانسی پانے والوں کو دیکھا؟ تو اس نے کہا کہ ہاں، اس منظر کو ضرور دیکھتا تھا۔ میں نے پھانسی پانے والے کو اکثر پھانسی گھاٹ پر اپنے پائوں سے جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ بے جان ہوجاتے تھے اور سپاہی بڑی مشکل سے انہیں تختہ دار تک لے جاتے تھے، اور وہ چیختے چلّاتے تھے۔ صرف ایک سکھ قیدی ایسا تھا کہ جو پھانسی کے تختے کی جانب بڑے اطمینان سے اپنے پائوں پر چل کر گیا۔ وہ قتل کے کیس میں گرفتار ہوا تھا۔ یہ سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ بس یہ ایک واقعہ تھا! اس نے ایک اور حیرت انگیز واقعہ سنایا جس پر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ یہ واقعہ تاج برطانیہ کے دور کا تھا۔ لڑکے کی عمر 20 سال بھی نہیں تھی اور وہ بہت خوبصورت تھا۔ پشتو زبان بولتا تھا۔ اس کو قتل کے جرم میں سزائے موت کا حکم ہوا تھا۔ آدم خان نے بتلایا کہ وہ عدالت میں کھل کر کہتا تھا میں نے کوئی قتل نہیں کیا، لیکن اس پر جرم ثابت ہوچکا تھا، وہ اپنے احاطے میں بڑے اطمینان سے رہتا تھا۔ آدم خان نے ایک رات کا واقعہ اس نوجوان کے حوالے سے سنایا جو میرے ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی تھا اور آدم خان خود بھی بڑا حیران تھا۔ یہ واقعہ کئی سال گزرنے کے بعد بھی اُس کے لیے ناقابلِ یقین تھا۔ اس نے کہا کہ ایک نصف رات کے قریب جبکہ وہ سید زادہ اپنے کمرے میں بند تھا اور اس کے کمرے پر تالا لگا ہوا تھا، اور یہ واقعہ اُس کی پھانسی سے ایک رات قبل کا تھا، ہم گشت پر تھے، میں نے دروازے سے جھانک کر دیکھا تو وہ قفل لگے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر احاطے میں ٹہل رہا تھا اور کچھ دیر بعد وہ سلاخوں کے مقفل کمرے کے اندر بڑے آرام سے چلا گیا۔ میرے ساتھ دو وارڈن بھی تھے، ہم نے اس منظر کو دیکھا تو ہمارا خوف سے بُرا حال تھا، ہم آپس میں بات بھی نہیں کرسکے۔ پھر آدم خان نے بتلایا کہ جب صبح اسے کمرے سے نکال کر پھانسی گھاٹ پر لے گئے تو وہ بڑے اطمینان اور خاموشی سے تختۂ دار پر جاکر کھڑا ہوگیا۔ جیل میں پھانسی طلوع فجر سے پہلے ہوتی ہے، پُو پھٹنے سے کچھ قبل کا لمحہ ہوتا ہے، کچھ کچھ اندھیرا جارہا ہوتا ہے اور کچھ کچھ روشنی پھیل رہی ہوتی ہے۔
ہم سب نے دیکھا کہ جیل کے اس احاطے کی چار دیواری پر بے شمار پرندے آکر بیٹھ گئے اور خوب زور و شور سے چہچہانے لگے۔ وہ اُن کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کے بعد اُس کے خوبصورت چہرے کو سیاہ غلاف سے ڈھانپ دیا گیا اور مجسٹریٹ کے اشارے پر جلاد نے تختے کا کانٹا کھینچ لیا، اس طرح وہ پھانسی کے تختے پر جھول گیا اور اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی، اور اس کے ساتھ ہی تمام پرندے بھی اڑ گئے۔ آدم خان نے بتلایا کہ اس کی لاش لینے کوئی نہیں آیا، یہی ہمارے لیے حیرانی کی بات تھی۔ پھر جیل کے عملے نے اسے مچھ جیل کے قریب قبرستان میں دفنا دیا۔ جن کے وارث نہیں ہوتے انہیں اسی قبرستان میں دفن کردیتے ہیں۔ جب آدم خان نے واقعہ سنایا تو دل میں خیال آیا کہ اس کی قبر پر جائوں گا۔ لیکن نہ جاسکا۔ حسام الدین بھی یہ سن رہا تھا۔ مجھے اس واقعے نے اداس کردیا تھا اور طبیعت کچھ کچھ بوجھل ہوگئی تھی۔ مجھے جس احاطے میں قید کیا گیا تھا اُس کے کمرے کی جالی پھٹی ہوئی تھی۔ آدم خان سے پوچھا کہ یہ جالی کیوں پھٹی ہوئی ہے، اس کا کیا معاملہ ہے اور اس کو درست کیوں نہیں کیا گیا؟ وہ خوب زور زور سے ہنسا، پھر اس نے دلچسپ انکشاف کیا کہ اب جس کمرے میں آپ رہ رہے ہیں اس کمرے میں نواب اکبر خان بگٹی قید تھے۔ جیل کے قوانین اُس دور میں بڑے سخت تھے، نواب بگٹی کو وہ کھانا دیا جاتا تھا جو عام قیدی کو دیتے تھے، لیکن نواب بگٹی کو جیل کی دیوار کے قریب آکر ان کے ملازمین بھنی ہوئی مرغی پھینکتے تھے۔ نواب نے دروازے کے نیچے اس جال کو پھاڑ دیا تھا اور وہ اس سے مرغی کو اندر کھینچ لیتے تھے۔ یوں وہ جیل میں بھی نوابی کا لطف اٹھاتے تھے۔ ایک دن ان کے ملازمین نے مرغی دیوار سے پھینکی تو اُن تاروں میں پھنس گئی جو دیوار میں قیدیوں کو بھاگنے سے روکنے کے لیے لگائے گئے تھے۔ الارم نے زور سے بجنا شروع کردیا، جیل سپرنٹنڈنٹ نے سائرن بجانا شروع کردیے۔ اس کا مطلب تھا کہ قیدی جیل توڑ کر دیواریں پھلانگ کر بھاگ رہے ہیں۔ پوری جیل میں خوف پیدا ہوگیا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ اور عملہ وہاں پہنچ گیا جہاں سے تار ٹکرا رہے تھے، دیکھا تو ایک مرغی پھنسی ہوئی ہے، اس پر اسے اطمینان ہوگیا کہ کوئی قیدی فرار نہیں ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ نواب بگٹی کو اس طرح نوابی کھانا پہنچایا جارہا تھا۔ اس کے بعد نواب کو جیل کا کھانا کھانا پڑا۔
یہ سوال بھی بڑا دلچسپ ہے کہ نواب بگٹی کیوں جیل میں تھے اور اُن کا جرم کیا تھا؟ نواب بگٹی ہی نے مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا، اور جب میں جیل سے نکلا تو اُن سے سیاسی یارانہ ہوگیا۔ نواب کو بتلایا کہ مجھے بھی اُس کمرے میں رکھا گیا تھا، اور انہیں جالی کا قصہ سنایا تو وہ خوب ہنسے اور پوچھا کہ کیا اب تک جالی پھٹی ہوئی ہے؟ انہیں بتلایا کہ جی ہاں ابھی تک پھٹی ہوئی ہے۔ اب اس اہم واقعے کی طرف آتا ہوں جس کی وجہ سے نواب بگٹی کو سزائے موت کا حکم ہوا تھا اور اس پر اُس وقت تک عمل درآمد نہیں ہوا تھا۔ نواب بگٹی پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے چچا ہیبت خان کو قتل کیا تھا۔ یہ ایوب خان کے مارشل لا کا ابتدائی دور تھا اور میرا اسکول کا زمانہ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوا تھا جس میں ہیبت خان بگٹی کی تصویر تھی، اور تلاش کرنے والے کے لیے انعام کا اعلان بھی تھا۔ نواب بگٹی کا جیل اور پھانسی کا پس منظر چچا کا قتل تھا۔ نواب پر شک ہیبت خان کے عزیزوں کو تھا، اس لیے حکومت نے نواب کو گرفتار کرلیا۔ حکومت نے جب گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا تو کوئی پولیس سپرنٹنڈنٹ انہیں گرفتار کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس پر پولیس انسپکٹر خان خلاص خان نے کہا کہ مجھے اجازت دیں، میں گرفتار کروں گا، تو حکام نے اجازت دے دی۔ خان خلاص خان جب بگٹی ہائوس پہنچا اور پیغام دیا کہ وہ نواب سے ملاقات چاہتا ہے تو بگٹی ہائوس کا مہمان خانہ اس کے لیے کھول دیا گیا۔ نواب نے بتلایا کہ جب میں داخل ہوا تو انسپکٹر خلاص خان کھڑا ہوگیا اور سلام کیا، اور بڑے احترام سے کہا کہ حکومت آپ کو گرفتار کرنا چاہتی ہے اور مجھے حکم ملا ہے، آپ میرے ساتھ چلیں گے یا خود آجائیں گے؟ نواب نے کہا میں لباس تبدیل کرتا ہوں، جب تک آپ چائے پئیں۔ نواب کو ہتھکڑی نہیں لگائی اور نواب اُس کے ساتھ چلے گئے۔ نواب اس رویّے کو زندگی بھر فراموش نہیں کرسکے۔ جب نواب گورنر بنے تو خلاص خان کو ڈی ایس پی کا درجہ دیا، اور جس وزیر اعلیٰ بنے تو اس کے بیٹے کو ڈی ایس پی کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ نواب یہ واقعہ وقتاً فوقتاً اپنے مہمانوں کو سناتے رہتے تھے۔ مجھے بھی انہوں نے ہی سنایا۔ میری نواب بگٹی کے مہمانوں سے بھی دوستی ہوگئی۔ نواب کے ہمسائے میں سردار احمد علی احمد عمرزئی رہتے تھے، وہ نواب کے جوانی کے دوست تھے۔ چونکہ وہ میرے ساتھ بہت بے تکلف تھے تو ایک دن اُن سے پوچھا کہ نواب کے چچا ہیبت خان کا کیا واقعہ ہے؟ تو انہوں نے تفصیل سے بتلایا کہ نواب کو اپنے چچا پر شک تھا کہ وہ مخبری کرتا ہے، ایک دن اپنے چچا کو گھمانے لے گئے اور بروری کے علاقہ میں قتل کرکے ایک کاریز میں پھینک دیا۔ حکومت نے جیسے ہی نواب کو گرفتار کیا تو اس کے ڈرائیور نے قتل کی واردات پولیس کو بتلادی، لیکن نواب بگٹی اس قتل سے انکار کرتے رہے۔ جب انہیں مچھ جیل منتقل کیا گیا تو وہاں نواب نے چچا کے قتل کا اعتراف کرلیا۔ یہ بھی بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ مچھ جیل میں ایک کرنل جس کا تعلق پشاور سے تھا جب اسے بتلایا کہ بلوچوں کا نواب کسی طور بھی قتل کا اعتراف نہیں کررہا ہے تو اس نے کہا یہ تو میرے لیے 5 منٹ کا کام ہے۔ وہ اپنے عملہ کے ساتھ مچھ جیل میں نواب کے کمرے میں آیا۔ اُس وقت نواب احاطے میں تھے، اس نے نواب سے کہا کہ آپ قتل کا اعتراف کرتے ہیں؟ تو نواب نے صاف انکار کردیا۔ اس کے بعد کرنل نے معلوم نہیں کیا طریقہ اپنایا کہ نواب نے چند لمحوں ہی میں قتل کا اعتراف کرلیا۔
یہ اہم واقعہ جیل میں وارڈن نے بتلایا جو اس کرنل کے ہمراہ تھا۔ جرم کے اعتراف کے بعد نواب کو سزائے موت کا حکم دے دیا گیا اور نواب پھانسی کے تختے کی طرف جانے کے لمحوں سے گزر رہے تھے۔ بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں تھے، ان سمیت کئی اہم شخصیات نے ایوب خان سے اپیل کی کہ نواب بگٹی کو پھانسی نہ دو، لیکن ایوب خان نے ان کی اپیل قبول نہیں کی۔ جب ایوب خان بلوچستان آئے اور انہیں ترین قبیلے کا سردار بنادیا گیا اور سردار نذر محمد ترین نے انہیں تلوار پیش کی اور پشتین میں سرداری کی پگڑی باندھی، اس کے بعد لورالائی گئے، وہاں بھی اُن کا شاندار استقبال کیا گیا، وہاں جوگیزئی قبیلے کے سردار نے دورانِ ملاقات اپنی پگڑی ایوب خان کے قدموں میں رکھ دی اور نواب بگٹی کو سزائے موت نہ دینے کا کہا، اور کہا کہ یہ پگڑی اُس وقت تک نہیں اٹھائوں گا جب تک آپ نواب بگٹی کو معاف نہیں کردیتے۔ ایوب خان نے پگڑی اٹھائی اور سردار جو گیزئی کے سر پر رکھ دی اور سزائے موت معاف کرکے بگٹی کو رہا کردیا۔ جب نواب بگٹی وزیراعلیٰ بنے تو اس احسان کا بدلہ اس طرح اُتارا کہ سردار جو گیزئی کے بیٹے سردار گل محمد کو گورنر بلوچستان بنادیا۔ نواب بگٹی نے یہ واقعہ خود سنایا۔ وہ کہتے تھے کہ ایک پشتون سردار کا یہ عمل میں زندگی بھر فراموش نہ کرسکا۔
جیل میں دوست احباب ملنے آتے تھے، میں کتابیں بھی منگواتا تھا۔ جیل کی ایک لائبریری بھی تھی۔ آدم خان سے کہا کہ جیل کی لائبریری دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کہ آپ کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ لائبریری کے رجسٹر میں کتابوں کی فہرست موجود ہے، جو کتاب پسند ہو وہ آپ کو لادیں گے۔ کچھ انگریزی کے ناول پڑھے، کچھ اردو کے، اور ایک ناول راجندرسنگھ بیدی کا ’ایک چادر میلی سی‘ پڑھا۔ بڑا دلچسپ تھا۔ ادب کا رجحان میرے کلاس فیلو عبدالحکیم چودھری نے پیدا کیا۔ وہ پروفیسر شمیم احمد کے شاگرد تھے اور پروفیسر شمیم احمد جناب سلیم احمد کے بھائی تھے۔ ان سے بھی ادبی اور سیاسی دوستانہ تھا۔
(جاری ہے)