پہلے بہت دور سے بھیجے گئے ایک صاحبِ علم کا خط۔ یہ محبت نامہ پروفیسر محمد حمزہ نعیم، ایم اے عربی، ایم اے علوم اسلامیہ، ڈپلومہ ریاض یونیورسٹی سعودیہ، سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج جھنگ نے بھیجا ہے۔
پروفیسر صاحب نے 7 اکتوبر 2018ء کو روزنامہ ’اسلام‘ میں وہ مضمون پڑھ لیا جس میں ’علاوہ‘ اور ’سوا‘ پر بات کی گئی ہے۔ ہم نے تو اپنے محدود علم کے مطابق فرق واضح کیا تھا کہ بہت سے لوگ سوا کی جگہ علاوہ استعمال کرجاتے ہیں، تاہم پروفیسر محمد حمزہ نعیم نے اس پر بڑی وضاحت سے گفتگو کی ہے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایسے عنوانات پر یہ عاجز بھی لکھتا رہتا ہے مگر لوگ مانتے نہیں۔ حضرت! لوگ ہماری بھی کب مانتے ہیں؟ لیکن آپ اپنا کام کیے جائیں، کہیں نہ کہیں اثر ضرور ہوتا ہے۔ انہوں نے ’علاوہ‘ کے عنوان سے بڑا جامع اور علمی مضمون بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’علاوہ کلمہ استثنا اور کلمہ انقطاع نہیں بلکہ یہ کلمہ ایزاد، کلمہ توسیع اور کلمہ شراکت ہے۔ عربی زبان کے تین الفاظ ’’الّا، غیر، اور سوا‘‘ کلماتِ استثنا کے طور پر اردو میں بھی عام استعمال ہوتے ہیں۔ لفظ ’علاوہ‘ بھی عربی کا لفظ ہے، لیکن یہ نہ کلمۂ استثنا ہے، نہ کلمہ انقطاع، اس کے باوجود اسے غلطی سے کلمۂ استثنا اور کلمۂ انقطاع کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ مثلاً ’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں‘‘ یا ’’اللہ کے علاوہ مشکل کشا اور حاجت روا کوئی ہوسکتا ہے؟‘‘ یہاں ’علاوہ‘ اثباتی انداز میں آیا ہے۔ پہلے جملے میں ’علاوہ‘ کا مطلب یہ ہوگا کہ ’’اللہ بھی نہیں اور کوئی اور بھی نہیں‘‘، اور دوسرے جملے میں ’علاوہ‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ بھی مشکل کشا اور حاجت روا ہے اور مزید کچھ ہستیاں بھی مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔ دونوں فقروں میں ’علاوہ‘ نے ایزاد اور اضافہ کا معنیٰ دیا ہے۔ پہلے میں منفی صورت میں اضافہ ہے، دوسرے میں اثباتی صورت میں اضافہ ہے۔‘‘
یہ مضمون طویل ہے لیکن اس کا تذکرہ کرنا باربار ضروری ہے، کہ یہ غلطی اتنی عام ہوگئی ہے کہ صحافت میں تو عام ہے ہی، کچھ اہلِ علم بھی اس سے بچ نہیں پاتے اور مطلب بالکل ہی اُلٹ جاتا ہے۔
ایک طالب علم برہان الدین نے ’کے‘ اور ’کہ‘ کا فرق معلوم کرنا چاہا ہے۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ طالب علم کچھ سیکھنا چاہتے ہیں، ورنہ شعبۂ صحافت میں ہمیں اپنے ساتھیوں سے یہی گلہ ہے کہ سیکھنا نہیں چاہتے یا اس گمان میں ہیں کہ سب کچھ جانتے ہیں۔ مثلاً کئی بار لکھنے اور زبانی سمجھانے کے باوجود ’خورد برد‘ آج بھی خردبرد ہے۔ نشاندہی کرو تو جواب ملتا ہے کہ ہم نے تو ایسے ہی پڑھا اور یوں ہی لکھا ہے۔ اسی طرح ’عوام‘ بھی اس بری طرح مونث واحد ہوئے ہیں کہ اب ان کے جمع مذکر ہونے کا امکان بہت کم رہ گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹی وی چینلز سے مسلسل ان کو واحد مونث بنایا جارہا ہے، اور برقی دانش ور، حتیٰ کہ صدرِ مملکت اور دیگر افراد بھی عوام کو مونث ہی کہہ رہے ہیں۔ کاش یہ لوگ بھی لغت دیکھ لیا کرتے۔ شاہنواز فاروقی کے ایک مضمون کا عنوان ہے ’خط کتاب سے نیچے…‘ بات صحیح ہے۔ ہمارا معاشرہ واقعی خط غربت سے بڑھ کر خط کتاب سے نیچے زندگی گزار رہا ہے، لیکن ایسے طالب علم تو ہیں ناں جو کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔
تو بات ہورہی تھی ’کے‘ اور ’کہ‘ میں فرق اور محلِ استعمال کی۔ ’کے‘ کے استعمال میں کوئی ابہام نہیں۔ جیسے ’کے‘ لیے متعلق فعل اور ’کا‘ کی جمع ہے۔ مثلاً آپ کا گھر اور آپ کے گھر۔ کا کی تانیث کی ہے مثلاً آپ کی خاطر۔ فارسی میں ’کے‘ کے اور بھی کئی مطلب ہیں۔ یہ حرفِ استفہام کے طور پر آتا ہے، یعنی کب۔ اردو میں ’کے‘ کتناکے معنوں میں بھی آتا ہے۔ مثلاً کے بار۔ لیکن یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ ’کہ‘ اردو میں کہنا مصدر سے صیغہ امر ہے، یعنی بات کر۔ تاہم مذکورہ سوال کے مطابق ’کہ‘ فارسی میں بیان کے معنوں میں آتا ہے، مطلب ہے: یعنی، نیز، جو، یا۔ عطف کے لیے، علت کے لیے، بلکہ تعریف و توصیف کے لیے۔ اگر، اچانک، نتیجہ ظاہر کرنے کے لیے، صلے کے لیے، مقابلے کے لیے، ربط کے لیے، اعتراض کے لیے، تب، پھر، تاکہ۔ یعنی اس چھوٹے سے لفظ میں متعدد معانی پنہاں ہیں۔ فارسی کا ایک محاورہ ہے ’’کہ خربستہ بہ گرچہ دزد آشناست‘‘ یعنی گدھے کا باندھنا بہتر ہے گو چور دوست ہے۔ فارسی میں ’کہ‘ چھوٹا کے معنوں میں بھی آتا ہے، اور زیادہ چھوٹا ہو تو ’’کہتر‘‘۔ مثالوں سے شاید ’کے‘ اور ’کہ‘ کا فرق زیادہ واضح ہوجائے۔ ایک مصرع ہے:
اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے
دوسرا مصرع دیکھیے:
تُو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
برقی ذرائع ابلاغ پر تو ہر وقت ہی لطیفے ہوتے رہتے ہیں۔ ایک لطیفہ یہ ہے کہ خاتون فرمارہی تھیں ’’نو سربازاری بڑھ گئی ہے‘‘۔ واقعی اتنی بڑھ گئی کہ اب اس کی گرم بازاری ہے، اور صرف ’نوسربازی‘ کہنے سے کام نہیں چلے گا۔ ایک لفظ غلط (غَ۔لط) ایسا ہے جس کو بڑے سینئر صحافی بھی غلط ہی بولتے ہیں۔ ایک نہایت محترم صحافی ہارون الرشید ٹی وی کے مذاکرے میں اسے غلْط کہہ رہے تھے، جیسے جلد۔ اب اگر ٹی وی پروگرام ’’حسبِ حال‘‘ کے پروگرامر اوسط (او۔سط) کو اوسط بروزن دوست کہیں تو ان کو حق ہے۔ عربی کی ایک کہاوت ہے ’’الغلْط غلَطْ‘‘ یعنی غلْط کہنا غلط ہے، لیکن اب یہ بھی غلط العوام نہیں غلط الخواص ہے۔
الفاظوں، واقعاتوں کا تماشا تو اخبارات میں عام ہے، خاص طور پر رپورٹر حضرات کو الفاظ اور واقعات لکھنے سے تسلی نہیں ہوتی۔ بعض انگریزی الفاظ کا بھی استیصال ہورہا ہے مثلاً عموماً کہا جاتا ہے ’’کیس دوبارہ ری اوپن کیا جائے گا‘‘ یا ’’دوبارہ ریپیٹ کریں‘‘۔ ان جملوں میں ’دوبارہ‘ کی گنجائش نہیں۔
خط کتاب سے نیچے زندگی بسر کرنے والے معاشرے کی ایک مثال معروف صحافی اور کالم نگار حسن نثار نے دی ہے۔ گزشتہ دنوں وفاق کی طرف سے سندھ پر چڑھائی کے اعلانات پر پیپلز پارٹی کی ایک خاتون رہنما نے ٹی وی پروگرام میں انتباہ کیا کہ یاد رہے محمد بن قاسم کا کیا حشر حجاج بن یوسف نے کیا تھا۔ حسن نثار نے اس پر کڑی گرفت کی ہے۔ دراصل خاتون کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ حجاج بن یوسف محمد بن قاسم کا چچا اور سسر تھا اور اسی نے اپنے داماد کو سندھ کی مہم پر بھیجا تھا۔ وہ محمد بن قاسم کے حشر سے دو سال پہلے خود انتقال کرگیا تھا۔ تاہم خود ایک پروگرام میں حسن نثار نے پانی پت کی جنگ میں بابر کے مقابلے میں رانا سانگا کو لاکھڑا کیا۔ حالانکہ پانی پت کی پہلی جنگ ظہیر الدین بابر اور دہلی پر حکمران ابراہیم لودھی کے درمیان ہوئی تھی، رانا سانگا سے نہیں۔ البتہ رانا سانگا یا سنگرام سنگھ سے بابر کی فیصلہ کن جنگ ہلدی گھاٹ کے مقام پر ہوئی تھی۔ ایک دلچسپ سہو بڑے کالم نگار اور تجزیہ کار امتیاز عالم سے سرزد ہوا۔ انہوں نے ایک پروگرام میں قائداعظم کی بے تعصبی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کابینہ میں ایک ہندو وزیر آئی آئی چندریگر بھی تھے۔ نرم الفاظ میں یہ لاعلمی کی انتہا ہے۔ آئی آئی چندریگر پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے۔ ان کا نام ابراہیم اسماعیل چندریگر ہے۔ بھارت سے جو ڈاک آتی ہے اس پر چندی گر روڈ لکھا ہوتا ہے۔ کیا امتیاز عالم نے یہ ایڈریس پڑھ لیا؟