معمارانِ جلیس

نام کتاب : معمارانِ جلیس
مصنف: جلیس سلاسل
قیمت: 500 روپے
ناشر: الجلیس پاکستانی بکس پبلشرز 0332-2371009
…تبصرہ نگار: محمود عالم صدیقی…
معروف مصنف، مؤرخ اور ادیب خواجہ رضی حیدر اس کتاب کے پیش لفظ میں جو ’’بے خوف تحریریں‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا ہے، بتاتے ہیں کہ جلیس سلاسل سے میرا علمی اور قلبی تعلق تقریباً نصف صدی پر محیط ہے۔ وہ ایک صاحبِ تجربہ صحافی، قلم کار اور تجزیہ نگار ہیں۔ گزشتہ پچاس سال کے دوران ان کے لاتعداد مضامین، انٹرویو اور تجزیے اخبارات و رسائل کی نہ صرف زینت بنتے رہے ہیں بلکہ انہوں نے متعدد ایسی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں جو پاکستان کی تاریخ کو سمجھنے میں معاون ہیں۔ ان کتابوں کے مطالعے سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ صحافتی تحریریں تاریخ کا اوّلین مسودہ ہوتی ہیں، لہٰذا ان صحافتی شہادتوں کو نظرانداز کرکے تاریخ نہیں لکھی جاسکتی۔ جلیس سلاسل کی تحریریں پاکستانی قوم کا ایک ایسا اعمال نامہ ہیں جو خیر اور شر دونوں کی اطلاع فراہم کرتی ہیں۔ مجھے جلیس سلاسل کی تحریریں پڑھ کر جہاں ان کی یادداشت پر رشک آتا ہے وہاں یہ سوچ کر مسرت ہوتی ہے کہ بحیثیت صحافی جلیس سلاسل کو نہ صرف اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی صحبت میسر آئی بلکہ انہوں نے ان صحبتوں کو ہم جیسے بے خبر لوگوں کے لیے آئینہ بنادیا ہے۔ ایک ایسا آئینہ جس میں ہم اپنا ماضی بھی دیکھ سکتے ہیں اور اپنے مستقبل کو مثبت خطوط پر استوار کرسکتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سابق چیئرمین شعبہ ابلاغ عامہ پروفیسر محمد شمس الدین اس کتاب کے مقدمے میں جس کا عنوان ’’نامور پاکستانی شخصیات کے خاکے اور پاکستان کی نمایاں تاریخ‘‘ ہے، لکھتے ہیں: ہمارے ملک کے معروف صحافی جناب جلیس سلاسل صحافتِ پاکستان کا ایک بڑا نام ہیں جو گزشتہ نصف صدی سے ایک بے باک صحافی، ممتاز دانشور اور اعلیٰ اقدار کے حامل کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ جناب جلیس سلاسل نے صحافت کا آغاز ہفتہ وار ’’اخبار جہاں‘‘ کراچی سے 15 فروری 1968ء کو کیا۔ اس کے بعد روزنامہ جنگ، روزنامہ حریت، جسارت، مشرق اور صداقت میں فیچر نگار، کالم نگار اور میگزین ایڈیٹر فرائض انجام دیتے رہے۔ انہوں نے ہفت روزہ چٹان، فوجی ٹائمز اور مختلف ڈائجسٹوں میں بھی صحافتی خدمات انجام دیں۔ اب تک ان کے تین ہزار سے زائد فیچر، مضامین، کالم، انٹرویو اور دیگر موضوعات پر تحریریں شائع ہوچکی ہیں۔ جلیس سلاسل غیر معمولی صلاحیتوں کے آدمی ہیں اور ساری زندگی محنت، سخت جدوجہد، لگن، حوصلہ مندی، محبت اور سچائی سے صحافت کی مختلف اصناف میں اپنی نگارشات پیش کرتے رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب ان کی صلاحیتوں کا ایک اور اضافی باب ہے جو انہوں نے مختلف شخصیات کے بارے میں تحریر کی ہے۔ ان کی تحریروں میں پاکستانیت جھلکتی ہے اور اسلام سے وابستگی بھی ظاہر ہوتی ہے جو سچے مسلمان ہونے کی دلیل ہے۔ زیرنظر کتاب اگرچہ پاکستان کی نامور شخصیات کے خاکوں کا مجموعہ ہے، مگر اس میں پاکستان کی تاریخ بھی نمایاں ہوتی ہے۔
معروف اور تجربہ کار صحافی جلیس سلاسل کی زیر تبصرہ کتاب ’’معماران جلیس‘‘ معروف علمی، ادبی اور صحافتی شخصیات کے انٹرویوز، خاکوں اور ملاقاتوں کا ایک عمدہ مجموعہ ہے۔ یہ تمام نابغۂ روزگار شخصیات وفات پاچکی ہیں اور اپنی حیات میں انتہائی بلند مرتبے اور مقام پر فائز تھیں۔ جلیس سلاسل ایک صحافی ہونے کے ناتے ان تمام شخصیات سے ملتے تھے اور انہوں نے ان سے اپنے تعلقات بھی استوار کیے۔ ان شخصیات نے جلیس سلاسل کے صحافیانہ کردار کی شخصیت تعمیر کرنے میں یقیناً اہم کردار ادا کیا ہوگا۔ اپنی طویل صحافتی زندگی کے بعد انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی رسالے اور ڈائجسٹ بھی نکالے لیکن وہ انہیں ثابت قدمی سے جاری نہ رکھ سکے۔ ان رسالوں میں ’’اسلامی ڈائجسٹ‘‘، ’’فوجی ٹائمز‘‘، ’’ہیلتھ ڈائجسٹ‘‘ اور کئی دیگر رسالے شامل ہیں، جس کے بعد انہوں نے الجلیس انٹرنیشنل کے اشاعتی ادارے کے نام سے کتابیں شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا، جس کے تحت انہوں نے اپنی اور دیگر معروف مصنفین کی کتابیں شائع کیں جو اپنے موضوعات اور نفسِ مضمون کے لحاظ سے عمدہ ہونے کے باوجود اپنے گیٹ اَپ، چھپائی، حروف چینی اور تدوین و تالیف کے معیار کے لحاظ سے زیادہ بہتر نہ تھیں۔ جب ہم جلیس سلاسل کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں جو صحافیوں، علمی و ادبی شخصیتوں، اخبارات و جرائد کے مدیروں، ناشروں، مصنفوں اور شہرۂ آفاق شخصیتوں کے ساتھ تعلقات، طویل ملاقاتوں اور صحبتوں میں گزری تو جلیس سلاسل کی شخصیت بالواسطہ ان شخصیتوں سے متاثر ضرور نظر آتی ہے، کیونکہ وہ زندگی بھر فعال اور سرگرم رہے اور بے باکی اور خوش اسلوبی سے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے رہے۔ وہ ایک اچھے، اسلامی ذہن رکھنے والے اور مثبت سوچ کے حامل بے باک صحافی ضرور ہیں لیکن وہ اپنی صلاحیتوں سے وہ بھرپور کام نہ لے سکے جو ان میں موجود ہیں۔ بے شک ان کا یہ مجموعہ پاکستان کی نامور علمی، ادبی اور صحافتی شخصیتوں اور پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات سے مزین مجموعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس کتاب میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر نسیم حجازی، شریف الدین پیرزادہ، پروفیسر تسکین حجازی، عبدالکریم عابد، سلیم احمد، آغا شورش کاشمیری، مولانا عبدالقدوس ہاشمی، میجر جنرل غلام عمر کے تذکرے موجود ہیں، اور ان میں اہم واقعات کا ذکر بھی ہے اور پاکستان کی تاریخ کے کچھ اہم اوراق بھی اس میں ملتے ہیں۔ اس کتاب میں معروف شخصیات کے خاکوں اور انٹرویوز سے پاکستان کی تاریخ، سیاست اور گوناگوں واقعات اور کئی اہم انکشافات سے قاری کے علم میں کافی اضافہ ہوتا ہے۔