ابو علی سینا

پیشکش:ابوسعدی
ابو علی الحسین ابن عبداللہ (980ء۔ 1037ء) ایک بہت بڑے فلسفی، طبیب، ریاضی دان اور مفکر تھے۔ ان کی علمی فضیلت کے باعث انہیں الشیخ الرئیس بھی کہا جاتا ہے۔ وہ بخارا کے نواح میں ایک قریے افشنہ میں 370ھ میں پیدا ہوئے۔ دس سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور پھر مختلف علوم و فنون میں مہارت پیدا کی۔ سائنسی اور طبی علوم کی طرف ان کی توجہ بہت زیادہ تھی۔ ان کے والد کے ہاں اکثر اسمٰعیلی دعاۃ آیا کرتے تھے، اس لیے ان کے افکار کے اثرات بھی آپ نے قبول کیے۔ فارابی کی تصانیف کی مدد سے مابعد الطبعیات میں درک پیدا کیا۔ نوح بن منصور، والیِ بخارا کے علاج کی کامیابی نے انہیں شاہی کتب خانے کا انچارج بنوا دیا، مگر اسی امیر کی وفات کے ساتھ ہی ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا، البتہ بعد میں کئی شاہی درباروں سے ان کا تعلق قائم رہا۔ ابن سینا کی نظم و نثر میں بہت سی تصنیفات ہیں۔ وہ بیک وقت عربی اور فارسی زبانوں میں لکھتے تھے۔ طب، منطق اور الٰہیات میں ان کی تالیفات ہیں، جن میں ’’القانون فی الطب‘‘ کو عالمگیر شہرت ملی۔ نفسیات اور تحلیلِ نفسی کے مسائل بھی ان کے ہاں ملتے ہیں۔ ریاضی، طبعیات اور دوسرے کئی سائنسی علوم میں ان کی تالیفات ملتی ہیں۔ فلسفہ و تصوف میں بھی ان کے افکار ملتے ہیں۔ مگر ان کی تائید و تردید میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ فلسفہ میں ابن سینا نے مشائی روایت کو برقرار رکھا، جس کے باعث نو افلاطونی تصورات ان کے ہاں کثرت سے ملتے ہیں، جن میں ایک مسئلہ قدم ارواح بھی ہے۔ ذات اور وجود کے مسئلے پر ان کی آرا بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ علم نفسیات اور تحلیلِ نفسی پر وہ مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)

پروانہ اور جگنو

(پروانہ)

پروانے کی منزل سے بہت دور ہے جگنو
کیوں آتشِ بے سوز پہ مغرور ہے جگنو

(1) پروانہ جگنو سے کہتا ہے: جگنو پروانے کے مقام سے بہت دور ہے۔ پروانہ شمع پر گر کر جل مرتا ہے، لیکن جگنو کے پاس جو آگ ہے، اس میں جلن ہے ہی نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جگنو بے سوز آگ پر کیوں اترا رہا ہے۔
(جگنو)

اللہ کا سو شکر، کہ پروانہ نہیں میں
دریوزہ گر آتشِ بیگانہ نہیں میں

دریوزہ گر: بھکاری۔
(2) جگنو جواب دیتا ہے: خدا کا شکر ہے کہ میں پروانہ نہیں بنا، اس لیے کہ مجھے جل مرنے کے لیے دوسرے سے آگ کی بھیک نہیں نہیں مانگنی پڑتی۔
اس نظم سے ہمیں یہ اخلاقی سبق ملتا ہے کہ ہر وجود کو صرف اپنے جوہروں سے کام لینا چاہیے، اپنے جوہر کی نمائش کے لیے دوسروں کا محتاج ہونا شایان نہیں۔ یہ امر خود داری کے خلاف ہے۔

چاند پر ملکیت کا حق کس کا؟

کچھ کاروباری کمپنیاں آج کل نادر معدنیات کی تلاش میں چاند پر کان کنی کے بارے میں سوچ رہی ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چاند کے ان قدرتی وسائل پر حق کس کا ہے اور کیسے؟
چاند پر پہلے انسانی قدم کو تقریباً 50 برس گزر چکے ہیں۔ نیل آرمسٹرانگ کا وہ ’پہلا چھوٹا سا قدم‘ جسے انھوں نے ’انسانیت کے لیے ایک بہت بڑی چھلانگ‘ کہا تھا۔
اس تاریخی قدم کے تھوڑی دیر بعد ہی نیل آرمسٹرانگ کے ہمسفر بزایڈرن بھی اس پُرسکون سمندر میں قدم رکھ چکے تھے۔ چاند گاڑی ایگل کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے جب بزایڈرن نے چاند کی دور دور تک خالی سطح پر نظر دوڑائی تو اسے ایک ’شاندار ویرانی‘ سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن اب صورتِ حال تبدیل ہوسکتی ہے کیونکہ اب کئی کمپنیاں نہ صرف چاند کی سطح کے بارے میں مزید کھوج لگانے میں دلچسپی ظاہر کررہی ہیں بلکہ اسے کھود کر وہاں سے سونا، پلاٹینیم اور الیکٹرونکس میں استعمال ہونے والی دیگر معدنیات نکالنے کا بھی سوچ رہی ہیں۔ پچھلے ہی ماہ چینی ماہرین نے چاند کے اُس حصے پر اپنا خلائی مشن اتارا جو ہمیں زمین سے دکھائی نہیں دیتا، اور وہاں کپاس کا بیج اگانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ لگتا ہے اب چین وہاں ایک تحقیقی مرکز بھی قائم کردے گا۔ اس کے علاوہ ایک جاپانی کمپنی ’آئی اسپیس‘ زمین اور چاند کے درمیان آمد و رفت کے لیے ایک پلیٹ فارم تعمیر کرنے کے علاوہ چاند پر پانی کی تلاش کا کام شروع کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ ایسے میں کیا کوئی قوانین یا اصول موجود ہیں جن کے اطلاق سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ایڈرن کی ’شاندار ویرانی‘ اپنی جگہ پر قائم رہے؟ اقوام متحدہ نے 1967ء میں امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین سے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کروائے جب امریکہ کا خلائی ادارہ ناسا چاند پر انسانی مشن بھیجنے کی تیاری کررہا تھا۔ اقوام متحدہ میں ہونے والے اس معاہدے کو ’آؤٹر اسپیس ٹریٹی‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں واضح کیا گیا کہ کوئی بھی ملک چاند یا دوسرے خلائی اجسام پر موجودگی کی بنیاد پر اس کی ملکیت اور حاکمیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ خلا سے متعلق کمپنی ایلڈن ایڈوائزر کی ڈائریکٹر جان ویلر کہتی ہیں: ’آؤٹراسپیس ٹریٹی‘ کو خلا کا میگنا کارٹا بھی گردانا جا سکتا ہے۔ جان ویلر کہتی ہیں ’’چاند پر جھنڈا لہرانا، جیسے نیل آرمسٹرانگ اور اس کے جانشینوں نے کیا، بے معنی عمل ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے کسی فرد، کمپنی یا ملک کو اس خلائی جسم کے مالکانہ حقوق نہیں مل جاتے‘‘۔ لیکن 1969ء میں عملی لحاظ سے یہ بات اتنے معنی نہیں رکھتی تھی کہ چاند کی زمین کی ملکیت یا اس پر کان کنی کا حق کس کے پاس ہے اور کس کے پاس نہیں۔ تاہم جوں جوں ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی ہے چاند کے ممکنہ وسائل سے منافع کمانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اب بھی یہ بات ہے تو مستقبل بعید کی، لیکن اس کے امکانات بہرحال زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی خیال کے پیش نظر اقوام متحدہ نے ’میثاقِ قمر‘ کے نام سے ایک معاہدہ جاری کیا تھا جس کا مقصد چاند اور دیگر آسمانی اجسام پر مختلف ممالک کی سرگرمیوں کو قانونی دائرے میں رکھنا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق خلائی وسائل کے لیے ضروری ہے کہ انھیں پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، اور ہر ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو بتائے کہ وہ خلا میں کس جگہ کوئی اسٹیشن تعمیر کرنا چاہتا ہے اور کیوں کرنا چاہتا ہے۔ معاہدے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چاند اور اس کے قدرتی وسائل انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہیں‘ اور ایک ایسا بین الاقوامی معاہدہ ہونا چاہیے جس کا اطلاق اُس وقت سے ہوجانا چاہیے جب اس قسم کے وسائل سے فائدہ اٹھانا ممکن نظر آنے لگے۔ لیکن ’میثاق قمر‘ میں مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک اس پر صرف 11 ممالک نے دستخط کیے ہیں۔ فرانس اور انڈیا نے بھی دستخط کردیے ہیں، لیکن خلائی میدان کے بڑے کھلاڑیوں مثلاً چین، امریکہ اور روس نے اس پر دستخط نہیں کیے اور نہ ہی برطانیہ نے ایسا کیا ہے۔
قطع نظر اس کے، مس ویلر کہتی ہیں کہ معاہدے میں طے کردہ اصولوں پر عمل درآمد کرانا آسان نہیں ہے، کیونکہ مختلف ممالک ایسی مختلف دستاویزات کو قانون میں شامل کرتے رہتے ہیں اور یہ یقینی بنانا ان ممالک کا کام ہے کہ ان کے شہری اور ان کی کمپنیاں ان اصولوں کی پابندی کریں۔

واٹس ایپ ایک حد سے زیادہ میسجز فارورڈ نہیں کرنے دے گا

واٹس ایپ نے اعلان کیا ہے کہ اب اس کے صارفین کسی بھی ایک پیغام کو پانچ سے زیادہ بار فارورڈ نہیں کرسکیں گے۔ ایسا جعلی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے کیا جارہا ہے۔ گزشتہ برس واٹس ایپ کے ذریعے پھیلنے والی جعلی خبروں کے باعث انڈیا میں بھیڑ میں ہلاکت کے متعدد معاملے سامنے آئے، جس کے بعد واٹس ایپ نے یہ پالیسی انڈیا میں نافذ کردی تھی۔ ابھی تک انڈیا کے سوا کہیں بھی ایک پیغام یوزر بیس مرتبہ فارورڈ کرسکتے تھے۔ تاہم جعلی خبروں کے بازار کو دنیا بھر میں بند کرنے کے مقصد سے میسجز فارورڈ کرنے کی حد پانچ تک لانے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ رواں برس انڈیا میں عام انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں ہیں۔ اپریل میں انڈونیشیا میں بھی عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اور ان انتخابات سے پہلے جکارتا میں ہونے والے ایک اجلاس میں واٹس ایپ نے نئی پالیسی کو لاگو کرنے کا اعلان کیا جس میں میسجز فارورڈ کرنے کی حد بھی شامل ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب فیس بُک اور واٹس ایپ سمیت متعدد سروسز کو جعلی خبریں پھیلانے میں مدد کرنے کا ذمہ دار ٹھیرایا جارہا ہے۔
واٹس ایپ پر ’اینڈ ٹو اینڈ اینکرپشن‘ کے استعمال کا مطلب ہوتا ہے کہ پیغامات کو صرف بھیجنے والا اور انہیں حاصل کرنے والا ہی پڑھ سکتا ہے۔ یعنی ایسے میں جعلی خبروں پر نظر رکھنے کی کمپنی کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے۔