نیویارک: مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا منصوبہ ناکام

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

نیویارک میں پولیس نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا منصوبہ ناکام بناکر چار ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ ملزمان میں 16 برس کا ایک طالب علم بھی شامل ہے۔ نیویارک پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک نوعمر لڑکے سمیت 4 افراد کو گرفتار کیا ہے جو کہ نیویارک سے ڈیڑھ سو میل دور واقع مسلمانوں کی بستی ’اسلام برگ‘ پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ 16 سالہ طالب علم کے گھر چھاپہ مارکر پولیس نے تین خودساختہ بم اور دو درجن گن برآمد کی ہیں۔ پولیس کے مطابق اوڈیسی اکیڈمی کے ایک طالب علم نے اپنے ہم جماعت کو ایک تصویر دکھائی اور کہا کہ وہ اسکول شوٹر جیسا ہوسکتا ہے۔ اسکول سیکورٹی کو طالب علم کے خیالات کا پتا چلا تو انھوں نے پولیس کو اطلاع کردی۔ زیرحراست افراد میں 20سالہ برائن، 18سالہ اینڈریو اور 19 سالہ ونسنٹ کے علاوہ 16 برس کا طالب علم بھی شامل ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اگر ملزمان اپنے منصوبے میں کامیاب ہوجاتے تو متعدد لوگ مارے جاتے۔

”لائسنس ٹو کِل‘‘

ریاست مدینہ کے خواب اپنی جگہ، جدید ’’ملمع کار جمہوریت‘‘ بھی شاید یہ سب برداشت نہ کرسکے جو اس ملک میں گزشتہ 70 سال سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صرف ایک قانونی تحفظ سے قتل و دہشت گردی کا لائسنس دیا گیا ہے۔ ہر ایسے سانحے کو جس میں بے گناہ انسانوں کی جانیں چلی جائیں، مارنے والوں کے لیے کہا جاتا ہے “Acting in good faith” یعنی وہ نیک نیتی اور اچھے مقصد کے لیے یہ اقدام اٹھا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک جامعہ حفصہ، ماڈل ٹائون، اکبر بگٹی کا قتل، یا خروٹ آباد میں مدد کو پکارتی عورتوں کے قاتل قانون کے کٹہرے میں نہیں آسکے، کیونکہ جس دن ان میں سے کسی ایک کی نیک نیتی کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا اور وہ اپنی نیک نیتی اور اچھے مقصد کو ثابت نہ کرسکا تو پھر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جو قتل کرنے کا لائسنس ہے وہ ختم ہوجائے گا۔ دنیا کے کسی غیر جمہوری ملک میں بھی یہ اختیار نہیں ہے لیکن اس ملک میں گزشتہ پندرہ برسوں سے ہمیں دہشت گردی کے نام پر ڈرا کر اس لائسنس کے تحت قتل، اغوا، تشدد اور سفاکی کو نیک نیتی کے نام پر جائز قرار دیا گیا ہے۔ روس کوئی جمہوری ملک نہیں ہے اور نہ ہی جمہوری روایات کا حامل۔ جس طرح کی چیچن جنگجوئوں کے ساتھ اسے جنگ کا سامنا تھا، پاکستان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ گروزنی شہر کی جنگ کے مناظر آج بھی دل دہلا دیتے ہیں۔ یکم ستمبر 2004ء کو باسلان کے ایک اسکول میں 1300 بچوں کو 32 چیچن جنگجوئوں نے یرغمال بنا لیا۔ یہ سارے بچے ایک جمنازیم میں جمع کردیئے گئے اور ان سے مذاکرات شروع ہوئے اور اس شام 26 نرسوں اور کمسن بچوں کو چھوڑ دیا گیا۔ ایکشن اور سسپنس کے دلدادہ چند ایک کمانڈروں نے اندر گھسنے کی کوشش کی اور مار دیئے گئے۔ وقفے کے بعد تیسرے دن پھر مذاکرات شروع ہوئے اور چیچن اس بات پر آمادہ ہوگئے کہ زخمیوں اور مرنے والوں کے لیے ایمبولینس اندر بھیجی جائے، لیکن پھر ایکشن اور سسپنس کے شوقین سیکورٹی ایجنسیوں کے افراد اور ایف ایس پی کے لوگوں نے ان مذاکرات کے دوران اسکول کی عقبی گرائونڈ سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی اور دوسری جانب سے فائر آگیا۔ کمانڈو بچ گئے لیکن دو میڈیکل ورکر مارے گئے۔ پھر کیا تھا تڑاخ پڑاخ شروع ہوگئی۔ کمانڈوز اپنے ایکشن سے ناکام لوٹے تو فضا میں MI24 اور MI8 گن شپ ہیلی کاپٹر پرواز کرنے لگے اور اسکول کو APCBIR گاڑیوں اور ٹینکوں نے گھیر لیا۔ سیکورٹی اہلکار طاقت کے نشے میں کہہ رہے تھے کہ اب ہمارا جانی نقصان ہوچکا، اب ہم نہیں چھوڑیں گے۔ پانچویں دن آپریشن مکمل ہوا۔ رات کو سیکورٹی فورسز کے ترجمان نے اعلان کیا کہ کُل 331 شہری یعنی بچے اور عورتیں ماری گئی ہیں جبکہ گیارہ کمانڈو ہلاک ہوئے ہیں۔ کسی صحافی کو اس جگہ تک جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ آندرے بیس باٹ کائی سیکورٹی فورسز سے جھگڑا تو جیل بھیج دیا گیا۔ سارے شہر کے اسپتالوں سے موبائل فون چھین لیے گئے۔ ٹیلی فون پر اپنے لوگ بٹھا دیئے گئے اور ڈاکٹروں کو اسپتال سے باہر جانے سے روک دیا گیا تاکہ لوگوں تک مرنے والوں کی تعداد نہ پہنچ سکے، لیکن اس کے باوجود بھی حقائق لوگوں تک پہنچ گئے۔ سب کی زبان پر تھا کہ 1300 لوگ مارے گئے۔ سب یہ سمجھ رہے تھے کہ حکومت ان معصوموں کو بچا سکتی تھی۔ اگرچہ اس واقعے کے بعد روس میں سیکورٹی سخت کردی گئی۔ دس ہزار سے زیادہ لوگوں کو بلاوجہ اور بغیر عدالتی کارروائی کے گرفتار کرلیا گیا، لیکن پیوٹن کو اندازہ تھا کہ عوامی غیظ و غضب اسے اقتدار سے محروم کرسکتا ہے، اس نے پورے روس میں دو دن سوگ کا اعلان کیا۔ وزیر داخلہ کازیک زینٹو نے اسے اپنی ناکامی قرار دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ صدر نے FSB کے سربراہ ولادی آندریو کو برطرف کردیا۔ یہاں تک کہ از دلیٹو اخبار کے ایڈیٹر ریف شاکروف سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا۔ اس لیے کہ لوگ اور رائے عامہ یہ کہتی تھی کہ یہ شخص آگ بھڑکانے والا تھا۔ اس سارے عرصے میں اس کا رویہ ایک شقی القلب انسان جیسا تھا اور وہ مسلسل یہ لکھتا رہا کہ ’’حکومت ڈٹی رہے۔‘‘ اس شخص کے اندر انسانی جانوں اور معصوم بچوں کے لیے جذبات نہیں تھے۔ ایک کمیشن بیٹھا، تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی لیکن وہ جن کے معصوم بچے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اکٹھے ہوئے۔ ان میں سے 89 والدین نے یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت میں مقدمہ کردیا۔ یہ مقدمہ ایکشن اور سسپنس کے دلدادہ ان تمام سیکورٹی سربراہوں کے خلاف تھا۔ کہا گیا کہ اس اسکول میں ولادی میر پیوٹن کا بیٹا ہوتا، وزیر دفاع کی بیٹی ہوتی یا سیکورٹی کے سربراہ کا فرزند ہوتا تو کیا ایسا ایکشن ہوتا؟ کیا ریف شاکروف کا بیٹا یا بیٹی اس اسکول میں پڑھ رہے ہوتے تو وہ اپنے اخبار میں ایسے مضمون لکھتا کہ حکومت ڈٹی رہے، کسی کے ساتھ مذاکرات نہ کرے؟ یہ کسی جمہوری معاشرے یا جمہوری روایات والے معاشرے کا قصہ نہیں ہے، صرف ایک ایسے ملک کا قصہ ہے جہاں انسان رہتے ہیں اور وہ اپنے سینوں میں دل رکھتے ہیں۔ لیکن انگریز کی تیار کردہ پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کے پاس ماضی کی ایسی لاتعداد روایات ہیں جن میں عام شہری کا قتل کرکے قانون کے نفاذ کا تمغا سینے پر سجایا جاتا ہے۔ امرتسر کے 1919ء کے جلیانوالہ باغ میں گولیاں چلانے والے برطانیہ سے نہیں آئے تھے، کلکتہ کے بلیک ہول میں انسانوں کو محبوس کرکے مارنے والے بھی یہیں کے لوگ تھے۔ آج صرف آقا بدل گیا ہے۔ پہلے انگریز تھا اور آج تو اپنی زبان بولنے والا اپنا ہی بھائی بند حکم دیتا ہے۔ اسی لیے 1953ء میں لاہور شہر میں ختم نبوت کے جلوس پر ٹینک چڑھانے سے لے کر ساہیوال میں کار پر حملہ کرکے چار معصوموں کا خون کرنے تک سب نیک نیتی اور نیک مقصد کے قانون کی چادر تلے رہا ہے، لیکن ریاست مدینہ کے علم بردار عمران خان کے لیے یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ قانون کے پاسبان نئے چیف جسٹس کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کیا اب بھی سوموٹو 184(3) کی تلوار نیام میں رہے گی۔ سوال وہی ہے کہ اگر اس گاڑی میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا بیٹا اور بہو سفر کررہے ہوتے، عمران خان صاحب کے دونوں لاڈے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوتے اور کسی بھی سیکورٹی فورس کے سربراہ کا کوئی بچہ وہاں موجود ہوتا تو کیا سی ٹی ڈی قتل کرنے کے بعد اس ڈھٹائی سے بیان بدلتی، ایسے ان لوگوں کو دہشت گرد کہہ سکتی، ایسے قتل کرکے قانون کی چادر میں چھپ جاتی؟
(اوریا مقبول جان۔ روزنامہ 92،پیر 21 جنوری 2019ء)