پاکستان ایک دینی اور تاریخی تقاضا

طارق جان
ڈاکٹر منظور صاحب کو مسلم لیگ کی 1932ء سے1942ء تک کی قراردادوں میں اسلامی مملکت کا ذکر نہیں ملتا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ایسی بیشتر قراردادوں کا ایک مخصوص پس منظر ہے، جو زیادہ تر دستوری ترامیم سے متعلق ہیں جن کے مخاطب انگریز اور ہندو ہیں۔ مسلم لیگ کے پرچم تلے تحریک پاکستان کی بنیاد محض یہ قراردادیں نہیں۔ اس کا ایک مزاج ہے، تحرّک ہے اور اس کے قائدین کے بیانات ہیں۔ ایک اچھا اسکالر ان سب کو ملاکر دیکھتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے۔ چونکہ موصوف تاریخ کو ایک مخصوص رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے انہیں تحریک پاکستان میں اسلامی مملکت کا سراغ نہیں ملتا، لیکن مغربی مؤرخین اور سوچنے سمجھنے والے دانش وروں کو مسلم لیگ کی قومی تحریک میں اسلامی مملکت ملتی ہے۔
ایک پاکستانی (؟) سیکولر کی سوچ اور فکری استخراج میں، اور ایک مغربی ذہن کی نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت میں اتنا ہی فرق ہے جتنا عدم دیانت اور دیانت میں ہے۔ مثال کے طور پر پروفیسر ولفریڈ کینٹ ویل اسمتھ اپنی مشہور کتاب Islam in Modern History میں کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے کہ قیام پاکستان مسلمانوں کے مذہبی وجود کا مرہونِ منت ہے۔ پروفیسر اسمتھ کہتا ہے کہ نظریاتی اعتبار سے یہ کوئی علاقائی، معاشی، لسانی اکائی نہ تھی، بلکہ یہ کوئی وطنی قومیت بھی نہ تھی کہ جو ریاست کی متلاشی تھی، یقیناً یہ ایک مذہبی قوم تھی۔ اسمتھ یہ کہنے کے بعد یہاں تک کہہ جاتا ہے کہ ہندوستان میں اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد اپنی اصل کے اعتبار سے کوئی عملیاتی نتیجہ نہ تھا جس کی بناء پر ایک ریاست اسلامی ریاست بننا چاہتی تھی، بلکہ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس کے ذریعے اسلام ریاست کا طالب تھا۔
Ideologically it was not a territorial or an economic or a linguistic or even strictly a national community that was seeking a state, but a religious community.
The drive for an Islamic state in India was in origin not a process by which a state sought Islamicness but one by which Islam sought a state.
پروفیسر اسمتھ نے یہ نتیجہ کیسے اخذکر لیا، کیا یہ خود ساختہ خیال تھا؟ اسمتھ چونکہ محقق ہے، وہ کسی پروپیگنڈے کا شکار بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے سامنے تحریکِ پاکستان، اس کے قائدین کے بیانات، عوام کی جذباتی کیفیات اور اس علاقے میں مسلمانوں کی تاریخ تھی۔ تحریکِ پاکستان کے دنوں میں وہ اسی علاقے میں موجود تھا، پھر خود قائداعظم کی کم و بیش ایک سو سے زیادہ ایسی تقاریر موجود ہیں جن میں انہوں نے اسلامی نظام اور اسلامی قانون کی بات کی ہے۔ کیا اسلامی قانون کے نفاذ سے کوئی ریاست اسلامی رنگ اختیار نہیں کرتی؟
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ ص 144۔146)

گردشِ افلاک

حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
عکس اس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے
نہ ستارے میں ہے، نے گردشِ افلاک میں ہے
تیری tقدیر مرے نالۂ بیباک میں ہے!
یا مری آہ میں کوئی شرر زندہ نہیں!
یا ذرا نم ابھی تیرے خس و خاشاک میں ہے!
کیا عجب! مری نواہائے سحر گاہی سے
زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک میں ہے!
توڑ ڈالے گی یہی خاک طلسم شب و روز
گرچہ اُلجھی ہوئی تقدیر کے پیچاک میں ہے!

پیچاک: پیچ و خم
-1جو واقعہ ابھی پیش نہیں آیا اور آسمان کے پردے میں چھپا ہوا ہے، اس کا عکس میری عقل کے آئینے میں موجود ہے۔ یعنی آئندہ جو کچھ پیش آنے والا ہے، میری دُوربیشی نے پہلے سے اس کا اندازہ کرلیا ہے۔
-2 تیری قسمت کا پلٹنا نہ ستارے کی رفتار پر موقوف ہے، نہ آسمان کی گردش پر۔ یہ میری بیباک آہ و فغاں پر منحصر ہے۔ میں سوز وگداز سے بھرے ہوئے شعروں میں جو تعلیم تجھے دے رہا ہوں اس پر کاربند ہوجانے سے تیری بگڑی بن سکتی ہے۔ اس شعر میں ایک حد درجہ غلط عقیدے کی بھی تردید کی گئی ہے۔ جب کسی پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میری قسمت کا ستارہ ڈوب گیا۔ آسمان کی گردش سے مجھ پر یہ بلا نازل ہوئی۔ یہ عقیدہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ ستارے یا آسمان نہ کسی کا کچھ بناسکتے ہیں، نہ بگاڑ سکتے ہیں۔ بنائو بگاڑ انسان کے عمل کی اچھائی یا برائی پر موقوف ہے۔
-3 میں جو دعوت دے رہا ہوں اس کا کوئی اثر محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ میری آہ و فغاں میں کوئی زندہ شعلہ ہی نہیں جو تیرے دل میں عشق کی حرارت پھونک دے، یا تیرا گھاس پھوس ابھی تک کسی قدر گیلا ہے اور اس میں نمی کا اثر باقی ہے، اس لیے شعلہ کارگر نہیں ہوتا۔
-4کیا عجب ہے کہ میرے صبح کے نغموں سے وہ آگ بھڑک اٹھے جو تیری خاک میں دبی ہوئی ہے۔
مراد یہ ہے کہ اے مسلمان! میرے شعروں سے تجھ میں زندگی کی نئی روح پیدا ہوجانی چاہیے۔
-5یہی خاک رات دن کا طلسم توڑ کر رکھ دے گی، اگرچہ وہ ابھی تک تقدیر کے پیچ و خم میں اُلجھی ہوئی ہے۔