سب چیخ اٹھیں!۔

یوں تو ٹی وی پر ڈراما چینل کھولتے ہی ایسا لگتا ہے کہ بے حیائی کا طوفان ہر طرف اُمڈ آیا ہے۔ نہ ہی ڈراموں کی کوئی کہانی ہے اور نہ ہی کوئی ڈھنگ کا نام ہے۔ ہر ڈرامے میں عورت کو لگتا ہے کہ اُکسایا جارہا ہے کہ تمہارا حق مارا جارہا ہے، اپنا حق چھین لو، چاہے اس کے لیے کچھ ہی کرنا پڑے۔ بہن کو بہن کا دشمن دکھایا جارہا ہے۔ ماں، بیٹی کی چپقلش وغیرہ وغیرہ جیسی بیہودہ کہانیاں، نکاح، طلاق کو جیسے مذاق بنادیا گیا ہے۔ آج کل نیا شروع ہونے والا ڈراما ’’چیخ‘‘ ہے جس میں عورتوں کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے کو کہا جارہا ہے۔ انتہائی بیہودہ سین ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی اس کی بیہودگی کے چرچے ہورہے ہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ جو چاہو کرو، کوئی سنسر بورڈ نہیں ہے۔ میری ٹی وی کے اعلیٰ حکام سے اپیل ہے کہ وہ اس قسم کے ڈراموں سے باز آجائیں اور عوام بُرائی کے خلاف چیخ پڑیں۔ کیونکہ اگر آج ہم نے بُرائی کو نہیں روکا تو یہ مزید پھیلتی چلی جائے گی اور بُرائی پھیلانے والوں کو مزید تقویت ملے گی۔
خدارا ٹی وی ڈراما لکھنے والے اور چینلز کے کرتا دھرتا یہ بات سمجھ لیں کہ پاکستان میں رہنے والی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور آپ کو بھی ہم مسلمان ہی تصور کرتے ہیں، لہٰذا ٹی وی پر فحش ڈرامے اور پروگرام پیش کرکے ہم قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ میری اعلیٰ حکام سے اپیل ہے کہ بے ہودہ ڈرامے بند کرکے قوم کو بامقصد تفریحی پروگرام دکھائے جائیں۔
شہناز ظفر، کراچی

ساہیوال واقعے پر اتنا شور کیوں؟

ڈاکٹر اُسامہ شفیق
کیا یہ پہلی بار ہوا ہے کہ قانون کے رکھوالوں نے کسی بے گناہ کو موت کی نیند سلادیا؟ خروٹ آباد، بے نظیر بھٹو شہید پارک کراچی، نقیب اللہ محسود اور نجانے کتنے ہی قانون کے ان رکھوالوں کا شکار ہوئے۔ کہیں اگر کیمرے کی آنکھ نے ان مناظر کو محفوظ بھی کرلیا تو کیا ہوا؟ قانون، ریاست، عدالت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ نجانے کیوں ہم سب تبدیلی کے خواب آنکھوں میں بسائے کسی نئے پاکستان کے منتظر ہیں کہ جس کی تشکیل میں سارے پرانے چہرے شامل ہیں۔کپتان کی ٹیم میں ایک جانب پاناما لیکس کے افراد ہیں تو دوسری جانب روایتی جاگیردار، اور تیسری جانب سرمایہ دار اشرافیہ، کہ جس کے تانے بانے ہر دور کے حکمرانوں سے ملتے ہیں۔ پولیس اور قانون جن کے گھر کی لونڈی ہے۔ تبدیلی کی لہر ڈی پی او پاکپتن، آئی جی اسلام آباد سے ہوتی ہوئی ساہیوال جیسے دہشت ناک واقعے پر منتج ہوئی۔ جو افراد یہ کہہ رہے ہیں کہ پولیس اور اس کا نظام تو پرانا ہی ہے تو یہی ہوگا… تو جناب ہماری بھی یہی گزارش ہے کہ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی حرکتوں میں بھی کوئی فرق نہیں ہے، دونوں ہی اپنے مقاصد کے لیے پولیس کا استعمال کررہے ہیں اور کررہے تھے۔ تبدیلی کے اس نعرے کے بطن سے جو چیز برآمد ہوئی ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ تبدیلی کے لیے باکردار افراد کی ایک منظم جماعت مطلوب ہے جوکہ صالحیت کے ساتھ امورِ ریاست کو چلانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ تحریک انصاف ان دونوں پیمانوں پر ناکام ہوئی ہے، اور اب تبدیلی کا نعرہ ہر آنے والے دن کے ساتھ تازیانہ ثابت ہورہا ہے۔ اللہ کرے اس قوم کو شعور کی نعمت میسر آئے، ورنہ ہر نئے آنے والے کے نعرے کے فریب میں مبتلا اقوام سراب کو پانی سمجھ کر نہ صرف بھٹک جاتی ہیں بلکہ اپنی زندگی کی بازی بھی ہار دیتی ہیں۔

شرمناک رویہ

مسعود ابدالی

پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں ہونے والے ایک روزہ عالمی کرکٹ میچ میں میزبان ٹیم کے سیاہ فام کھلاڑی اینڈائل پھلا کوائیو (Andile Phehlukwayo) کے بارے میں جو تضحیک آمیز جملہ کہا ہے اس نے ساری قوم کا سر شرم سے جھکادیا ہے۔کھیل کے دوران مخالف کھلاڑی کو دباؤ میں لانے کے لیے جملے بازی عام ہے جسے کرکٹ کی اصطلاح میں Sledgingکہتے ہیں۔ سرفراز اُس وقت وکٹ کیپنگ کررہے تھے اور اردو میں کہا جانے والا یہ جملہ وکٹ سے نیچے نصب مائک سے نہ صرف میدان بلکہ ساری دنیا میں سنا گیا اور اب یہ دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ یہ جملہ اس قدر مکروہ ہے کہ اسے نقل کرنے کی ہم میں ہمت نہیں، بس یوں سمجھیے کہ سرفراز نے سیاہ رنگت کی بنا پر اس کھلاڑی کو انتہائی حقارت سے پکارا۔
نسلی امتیاز ایک قابلِ نفرت عمل ہے اور اس سے متعلق تمام اشارے اور استعارے مہذب معاشرے میں ناقابلِ قبول ہیں، اور پھر مسلمانوں کے یہاں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے گورے اور کالے کے فرق کو اپنے پیروں تلے روندڈالا تھا۔ سیاہ فاموں کی توہین کرتے سرفراز کو ذرا شرم نہ آئی کہ اس امت کے پہلے موذن حضرت بلال بھی ایک سیاہ فام حبشی تھے اور سرکار ان سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ جن کی عزت اور احترام کا یہ عالم کہ امیر المومنین ہوتے ہوئے بھی حضرت عمر نے انھیں کبھی بلال نہیں پکارا بلکہ وہ ہمیشہ سیدنا بلا ل یعنی اے ہمارے قائد بلال کہا کرتے تھے۔
خیال ہے کہ ICCسرفراز کے خلاف تادیبی کارروائی کرے گی، لیکن اس سے پہلے خود پاکستان کرکٹ بورڈ، حکومت اور سول سوسائٹی کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔ عالمی مقابلوں میں قومی ٹیم کے کھلاڑی پاکستان کے نمائندے اور سفیر کا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے طرزعمل سے ملک کے بارے میں تاثر قائم ہوتا ہے۔ دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ڈربن میں سرفراز نے جو کچھ کہا وہ پاکستان کے اخلاق اور اقدار سے متصادم ہے۔ پاکستانی انصاف، اخوت اور نسلی مساوات پر یقین رکھتے ہیں اور اس معاشرے میں نسلی بنیاد پر امتیاز اور تضحیک کی کوئی گنجائش نہیں۔