سالِ خود کشی کیوں…؟

ڈپریشن کے مریض بہت ہیں مگر وہ اس انتہا پر نہیں جاتے کہ زندگی پر موت کو ترجیح دیں۔ پھر یہ خودکشیاں کیوں ہیں؟ اگر غربت ہے تو کیا معاشرے میں پہلے غریب لوگ نہیں ہوتے تھے؟ آج ہم دیکھتے ہیں کہ غریب باپ کے بیٹے امیر ہیں، یا وہ جو کبھی غریب تھے اب دولت میں کھیل رہے ہیں، لیکن ہم سے پہلے کے زمانے میں غریبوں کو یہ امید نہیں ہوتی تھی کہ وہ کبھی امیر بن سکیں گے۔ غربت نسل در نسل چلتی تھی اور بیشتر آج بھی چلتی ہے، لیکن فرق یہ ہوگیا ہے کہ لاکھوں خاندان غربت کی نچلی سطح سے اٹھے اور انہوں نے اپنے گھرانوں کو خوشحال بنالیا، متوسط طبقے کے بھی ہزاروں خاندانوں کے لیے دولت مند طبقے میں داخل ہونے کا دروازہ کھل گیا۔ ان حالات اور مثالوں کے باوجود غریب کی غربت کیوں اس کے لیے جان لیوا نہیں تھی اور آج کیوں جان لیوا ہوگئی ہے؟ کل کے غریب اپنی غربت پر قانع و راضی تھے، فاقوں اور تنگ دستی کی زندگی کو قبول کرتے تھے۔ آج ایسا کیوں نہیں ہے؟ گھروں میں ساس بہو کے جھگڑے ہمیشہ رہے ہیں، اب بھی ہیں، مگر آج ساس کہیں ظالم ہے تو پہلے کی طرح ظلم کرنے پر قدرت نہیں رکھتی۔ بہو نے سر اٹھا کر بات کرنے کا حوصلہ پا لیا ہے۔ وہ مشترکہ خاندانی نظام نہیں ہے جس میں بہت پابندی تھی، گھٹا گھٹا رہنا پڑتا تھا، اور بیوی کا بزرگوں کے سامنے شوہر سے ہنس کر بات کرنا بھی بے ادبی سمجھا جاتا تھا۔ آج کی بہو بیٹیاں اپنے جذبات کے اظہار اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے بڑی حد تک تو نہیں، کچھ حد تک ضرور آزاد ہیں۔ پھر یہ بہوئیں کیوں جل مرتی ہیں؟ میاں بیوی کی ناچاقی شاید کچھ نہ کچھ آدم و حوا میں بھی تھی اور بائبل میں ہے کہ خدا نے حوا سے کہا تھا کہ تیری سزا یہ ہے کہ تُو دکھ سے بچہ جنے گی لیکن بچہ تیرا نہیں ہوگا اپنی بیوی کا ہوگا۔ اور لڑکیاں کون سی ماں کی ہوتی ہیں! انہیں بھیگی آنکھوں کے ساتھ غیروں کے گھر رخصت کرنا ہوتا ہے، اور پہلے زمانے میں ایسے موقع پر لڑکی کا بھی رو رو کر برا حال ہوتا تھا، لیکن آج وہ ہنستے کھیلتے سسرال روانہ ہوتی ہیں۔ مگر ہنستے کھیلتے گھرانے کم ہوتے جارہے ہیں اور گھریلو جھگڑوں میں ایسی شدت بھی آجاتی ہے کہ بات خودکشی تک جا پہنچتی ہے۔ آخر کیوں؟ … حسن، عشق، جوانی کی فتنہ انگیزی زمانۂ قدیم سے چلی آرہی ہے، مگر وہ اتنا دیوانہ نہیں کرتی تھی کہ رومان پسند جوڑے زہر کھالیں۔ ایسے واقعات کا بیان صرف شاعری میں ہوتا تھا۔ اب اخبارات آئے دن اس کی خبریں دیتے ہیں۔ اور طلبہ کو دیکھیے، ان کے لیے امتحانات کی آزمائش ہر دور میں تھی اور پہلے کے تعلیمی امتحانات کا پرچہ ہمیشہ مشکل اور ڈسپلن سخت ہوتا تھا، آج جیسی آسانی اور سہولت نہیں تھی۔ اس کے باوجود امتحان کے خوف سے یا امتحان میں ناکامی پر خودکشیاں ہورہی ہیں۔ گھروں میں اولاد کو ڈانٹ ڈپٹ عام تھی، مگر اب کیا ہے کہ اسے سن کر بچے جی سے گزر جاتے ہیں اور جان سے رُوٹھ جاتے ہیں۔ پہلے یہ ضرور ہوتا تھا کہ کوئی سیٹھ ساہوکار دیوالیہ ہوگیا، مقروض ہوگیا تو مارے شرم کے افیون کھا بیٹھا۔ مگر ایسے تاجروں کا وجود اس زمانے میں ہی ہے کہ اچھی خاصی تجارت چل رہی ہے اور اس نے کنپٹی پر پستول رکھ کر چلادیا۔ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ ہر روز خودکشی کے دوچار واقعات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اور دل کو تڑپا دیتے ہیں، کس لیے؟
وجہ صاف ہے، نئے زمانے نے مزاج میں تغیر پیدا کردیا ہے۔ انسان صرف کامیابی اور جلد از جلد کامیابی چاہتا ہے۔ ناکامی سے دوچار ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ جب اس پاکستان میں مشرقی پنجاب، یوپی، دکن سے مہاجرین کے لٹے پٹے قافلے داخل ہوئے تھے تو اُن کے جسم و روح پر گہرے گھائو تھے۔ وہ بے سرو سامان تھے، مگر حوصلہ تھا۔ آج بہت کچھ ہے مگر حوصلہ کم رہ گیا ہے، صبر کا مادّہ مفقود ہے۔ یہ حوصلہ اور صبر اُس وقت اس لیے تھا کہ لوگ اپنی ذات کے اسیر نہیں تھے۔ اپنے آپ کو ایسے معاشرے کا حصہ سمجھتے تھے جو ایک اعلیٰ نصب العین کے لیے جدوجہد کررہا ہے۔ اور جدوجہد تھی تو دکھوں کو جھیلنے میں خاص مسرت بھی تھی۔ اب معاشرہ نصب العین کی روح سے خالی ہوگیا ہے۔ لوگ اجتماعی جدوجہد کے بغیر صرف اپنی ذات کے لیے سرگرم ہیں۔ نہ وہ انجمن آرائی ہے، نہ بزم آرائی ہے جو ہر کسی کا غم غلط کرتی تھی اور دل کی دنیا کو زندہ رکھتی تھی۔ اس کی وجہ سے زمانے کے سرد و گرم کا مقابلہ کرنا آسان تھا۔ ذات کی تنہائیوں میں کھو جانے کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانوں میں کسی بھی مادّی یا نفسیاتی دھچکے کو برداشت کرنے کی سکت کم ہوتی جارہی ہے۔ ہر شخص اپنے لیے اپنی مرضی کی دنیا چاہتا ہے، اور یہ دنیا نہ ملے تو وہ خود کو نامراد خیال کرتا ہے۔ آج کا انسان ناکامیوں کے بغیر کامیابی چاہتا ہے۔ کامیابی کا تصور بھی خاص مادّی ہے۔ دنیا بنانے کے معاملے میں ہر ایک کے خواب اُونچے ہیں، ان خوابوں کو سازگار حالات مل گئے تو ٹھیک، ورنہ جلنا کڑھنا مقدر ہے۔
سب سے اذیت ناک مسئلہ بے روزگار انسان کا ہے۔ وہ ہر طرف سے نکو بن جاتا ہے، اس کے گھر والے بھی اس کو ہمدردی کے بجائے غصے اور کدورت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس شخص کو حوصلہ دلانے والے لوگ نہیں ہیں جس کو پوری کوشش کے باوجود روزگار نہیں ملتا۔ البتہ اس کے لیے طعنہ زن لوگ ہیں۔ اس بے روزگار آدمی کو اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ گھر والوں سے آنکھ کس طرح ملائے گا، ان کی کڑوی کسیلی باتوں کا کیا جواب دے گا؟ اور جب اس کے لیے گھر میں ہمدردی نہیں تو دنیا میں کہاں ہوگی؟ ایسا انسان خودکشی کرے تو تعجب کیا ہے! وہ دوستوں، عزیزوں، ہمسایوں کی نظر میں ذلیل ہے، اہلِ خانہ کی نظر میں ذلیل ہے اور اپنی نظروں سے بھی آپ گر گیا ہے، یہ صرف اس لیے ہے کہ وہ تنہا ہے۔ اپنی ذات پر اعتماد تھا وہ ٹوٹ گیا، خدا سے اور معاشرے سے اس کا تعلق رسمی ہے۔ اگر معاشرے میں ایسے انسان کے کچھ غم خوار ہوں، مددگار ہوں، اس سے عزت و محبت کے ساتھ پیش آئیں تو وہ حوصلہ نہیں ہارے گا۔ مگر ذات پرست اور مادّہ پرست معاشرے میں غم گساری کہاں! ہر شخص صرف اپنے کو دیکھتا ہے۔ دوسرے کا حالِ دل سننے، سمجھنے کی کسی کو ضرورت نہیں۔ اس معاشرے میں غریب آدمی کو بھیک کے طور پر پیسے مل سکتے ہیں مگر جینے کا حوصلہ نہیں مل سکتا۔ یہی حال معاشی محرومیوں کے علاوہ دوسری محرومیوں کا ہے کہ اس معاشرے سے ہمدردی نہیں ملتی بلکہ بے رحمی اور سنگ دلی نظر آتی ہے۔ انسان رقیق القلب کے بجائے شقی القلب ہے، کیونکہ وہ صرف بندۂ نفس ہے۔ اس نفسانفسی کے معاشرے میں کوئی کسی کا نہیں۔ اس کے برعکس جس معاشرے میں انسان نصب العین کے تحت جی رہے ہوں، وہاں انسان کی حیثیت فرد کی نہیں جماعت کی ہوجاتی ہے، ہم اپنی یہ اجتماعیت کھو چکے ہیں۔ اس لیے انفرادی حیثیت میں بھی کمزور ہیں اور حالات کی ناسازگاری برداشت نہیں ہوتی۔ زمانہ سخت ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ہمت چاہیے وہ کم ہے۔
اگر ہم نے معاشرے میں انسانی شخصیت کو اتنا مضبوط نہیں کیا کہ وہ نامساعد حالات میں بھی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو، تو خودکشیاں بڑھتی جائیں گی، لیکن اس سے زیادہ یہ ہوگا کہ خود مرنے کے بجائے معاشرے کو جلا کر خاکستر کرنے کا جذبہ عام ہوگا۔
(16اپریل1999ء)