تحریک انصاف کی حکومت بھی پرانی روایتی حکومتوں جیسی ہی نکلی۔ انتخابات کے بعد معیشت میں منتر کے ذریعے بہتری لانے کے دعوے کیے جاتے رہے، لیکن اقتدار پا لینے کے بعد تحریک انصاف کے شہہ دماغ اپنی سب ترکیبیں بھول گئے ہیں۔ ملک میں یکساں تعلیمی نصاب، پچاس لاکھ گھروں کا منصوبہ اور ایک کروڑ نوکریاں کہیں نظر نہیں آرہی ہیں۔ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت کے پہلے سال کا نصف مکمل کرنے والی ہے لیکن معیشت سمیت تمام شعبوں میں حکومت کی ترجیحات کہیں نظر نہیں آرہی ہیں۔اب تو حکومت کی کوششوں سے زیادہ اس کی اہلیت اور صلاحیت کا سوال اٹھ کھڑا ہوا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس حکومت کے پاس مہلتِ عمل اب صرف دس ماہ کی رہ گئی ہے۔ 23 جنوری کو منی بجٹ آئے گا تو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے ہماری معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن اب تو تحریک انصاف کے اندر سے ایسی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں کہ حکومت کی اقتصادی ٹیم معیشت کی بہتری کا کوئی وژن ہی نہیں رکھتی اور نہ اس میں ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے جو معیشت کی بہتری میں کردار ادا کرسکیں۔
چونکہ وزیراعظم عمران خان دعوے کرتے رہے ہیں کہ اگر حکومت دیانت دار ہو تو لوگ خوش دلی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اب تو دیانت دار اور ایمان دار حکومت آگئی ہے، دوسرا مقصد کب حاصل ہوگا؟ حکومت کا کرپشن پر قابو پانے کا شور این آر او کے غلاف میں لپٹی ہوئی جے آئی ٹی کی رپورٹس میں کہیں گم ہوتا ہوا معلوم ہورہا ہے اور مہنگائی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، اور بجلی وگیس اور انسانی علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویہ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، میڈیا انڈسٹری کے بعد اب ملکی صنعتی اداروں میں ڈائون سائزنگ شروع ہوچکی ہے۔ حکومت مسلسل معیشت پر قابو پانے میں ناکام ہورہی ہے۔ وزیر خزانہ آج تک یہ نہیں طے کر پائے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا بھی ہے یا نہیں! آج کوئی بیان کل کوئی۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ اپنی ہی باتوں سے پھر جاتے رہے ہیں۔ باتیں غریبوں کو ریلیف دینے کی کرتے ہیں اور مشاورت مال دار طبقے سے کرتے ہیں۔ ہر بات میں تضاد۔ یقیناً ایسے تبدیلی نہیں آتی۔ وفاق میں حکومت اس وقت براہِ راست 42 ڈویژن چلا رہی ہے جن کا صوبوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود معیشت نہیں سنبھل رہی۔ اب اسد عمرکی حکمت و دانائی کے کندھے پر لدا ہوا تیسرا منی بجٹ23جنوری کو اسمبلی میں پیش ہونے جارہا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں جو بجٹ پیش کیا گیا، اُس میں 183ارب کے اضافی ٹیکس لگائے گئے تھے۔ اندازے کے مطابق جنوری میں پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں 200 ارب کے مزید ٹیکس لگائے جائیں گے۔ نت نئے ٹیکس آئی ایم ایف کی شرائط ہیں،یا پھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ناکامی کا سبب؟ اگر یہی ٹیکس وقتاً فوقتاً پوری منصوبہ بندی کے تحت لگائے جاتے تو مہنگائی پر بھی کنٹرول رہتا اور بے روزگاری سے بھی بچت ہوتی۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی منصوبہ بندیوں پر نظرثانی کرے، ٹیکسوں کا بوجھ بے روزگار عوام پر نہ ڈالے۔
حکومت نے ایک اور کام خاموشی سے کیا ہے کہ کم قیمت ایل این جی کی درآمد کم کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں جس سے مہنگے فرنس آئل کی درآمد بڑھ گئی ہے۔ فرنس آئل کی درآمد کے پیچھے کون ہے؟ وزیراعظم عمران خان معلوم تو کریں۔ یقین ہے کہ اس کیس میں بھی کوئی جے آئی ٹی بن جائے گی۔ اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی کے فیصلوں کے پیچھے کون ہے؟ روپے کی قیمت کم کرکے مقامی اور بیرونی قرضے بڑھائے گئے ہیں اور تجارتی خسارہ بھی بڑھ گیا ہے۔ قرضوں کے حوالے سے تمام پرانے ریکارڈ توڑ دیے گئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر 15ارب روپے کا قرض لیا جارہا ہے۔پانچ مہینوں میں حکومت 2240 ارب روپے کا قرض لے چکی ہے۔ بیرونی قرضوں میں پانچ ماہ کے دوران 1334ارب، جب کہ اندرونی قرضوں میں 861 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ بیرونی قرضوں میں اضافے کی وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے، اسی طرح اندرونی قرضوں میں اضافے کی وجہ شرح سود میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے 3 فیصد اضافہ ہے۔ ملکی معیشت عدم استحکام سے دوچار ہے، مالی رجحانات تشویش کا باعث ہیں۔اب حال ہی میں پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی زر تلافی ختم کردی ہے، اس سے بھی حکومت کو محاصل ملیں گے، پھر نئے ٹیکس کا جواز سمجھ سے بالاتر ہے۔ ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافہ اصل میں بجٹ خسارے میں کمی کا باعث بننا چاہیے جو نہیں بن رہا، بلکہ بجٹ خسارے میں اضافہ ہورہا ہے اور حکومتی اخراجات میں کمی کے دعوے غلط ثابت ہورہے ہیں۔ ترقیاتی اخراجات کم کرنے کے بعد بھی معیشت سنبھل نہیں رہی۔ ملک میں ترقیاتی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کو ملک میں پیٹرولیم کے استعمال میں کمی کے اشارے ملے ہیں۔ تمام پیٹرولیم اشیاءکی مانگ 32 فیصد کم ہوگئی ہے۔ فرنس آئل کی مانگ میں 67 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ بجلی کی پیداوار میں فرنس آئل کے بجائے ایل این جی کا استعمال ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم اشیاءکی قیمتیں پھر کم ہوگئی ہیں لیکن حکومت اس کے باوجود حج اخراجات میں بھی کمی کرنے کو تیار نہیں ہے۔
ملک میں ایک بڑا معاشی بحران سر اٹھا چکا ہے کہ لاہور اور ڈیرہ غازی خان میں ٹریکٹر بنانے کے دو کارخانے بند ہونے جارہے ہیں۔ اس بندش کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان کو مانگ میں زبردست کمی کا سامنا ہے۔ دونوں اداروں سے ملازمین فارغ ہوئے تو بے روزگاری مزید بڑھ جائے گی۔ اس کے علاوہ متعدد دیگر صنعتی ادارے بھی بند ہونے کے قریب ہیں اور ٹیکسٹائل، فوڈ، کیمیکلز، فارماسوٹیکل، پیٹرولیم مصنوعات اور آٹوموبائلز میں مندی چل رہی ہے۔ وزیر خزانہ کا وژن صرف اتنا ہے کہ ٹیکس لگاؤ، جب کہ حکومت کو سب سے پہلے ایک معاشی تصور پیش کرنا چاہیے تھا۔ اب یہاں دو اہم نکات ہیں جنہیں کبھی بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، پہلا یہ کہ حکومت پر تنقید کرنے والے معاشی ماہر گزشتہ حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور وہ آئی ایم ایف کی دہلیز تک حکومت کو لے جانے کے لیے ہر ممکن حد تک لابنگ کررہے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو حکومت سے مشاورت کے نام پر نوکری مانگ رہا ہے۔ کوئی بھی معاشی ماہر، معیشت کی درست تصویر پیش نہیں کررہا، سب اپنی اپنی لابنگ کررہے ہیں۔ حکومت کا غلط رویہ یہ ہے کہ وہ کسی مخالف سمت سے آنے والا درست تجزیہ اور مشورہ بھی نہیں مان رہی۔ اپوزیشن بار بار کہہ رہی ہے کہ وزیراعظم، وزیر خزانہ، وزیر اطلاعات یا کوئی اور وزیر معیشت پر بات کرنے نہیں آتے، یہ بھی جواب نہیں دیا گیا کہ ایل این جی پر چلنے والے پلانٹ کیوں بند کردیے گئے جس سے اندازے کے مطابق یومیہ ایک ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ پہلے چھے ماہ میں خسارہ 2.8 فیصد ہوا، ایک ہزار ارب روپے ملکی قرضہ بڑھا۔ ڈالر ایک سو چالیس روپے کا ہونے کی وجہ سے یہ سب ہوا، اور اب حکومت نوٹ چھاپنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ حکومت نے دوست ممالک سے مالی تعاون حاصل کیا ہے لیکن ہر ماہرِ معیشت اس بات سے واقف ہے کہ قرض کی شکل جو بھی ہو، وہ دوست ملکوں سے ملے یا آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں سے، اس پر سود بہرحال ادا کرنا پڑتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب اور یو اے ای سے جو قرض ملا ہے اُس پر بھی پاکستان کو سود ادا کرنا ہے۔ آئی ایم ایف سے اگر پروگرام لے لیا گیا تو یہ تین سال کے لیے ہوگا اور اس پر بھی سود دینا ہوگا، لیکن امکان ہے کہ یہ شرح سود 2 فیصد کے لگ بھگ ہوگی۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا ہے یا نہیں اس بارے میں ابہام جلد دور ہونا چاہیے، کیونکہ گومگو کی وجہ سے اسٹاک ایکس چینج میں سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے اور 50 ارب ڈالر کا سرمایہ پہلے ہی مارکیٹ سےنکل چکا ہے۔ اگر حالات پر غیر یقینی کے سائے منڈلاتے رہے تومزید سرمایہ نکل جائے گا۔
عالمی بینک نے پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں مزید 1.3 فیصد کمی کا امکان ظاہر کیا ہے۔ جون میں جب پاکستان میں ابھی نگران دورِ حکومت تھا عالمی بینک نے جو شرح نمو ظاہر کی تھی وہ 5 فیصد تھی۔ تازہ رپورٹ کے مطابق اب یہ شرح 3.7 فیصد رہنے کا امکان ہے جو سری لنکا اور نیپال کی شرح نمو سے بھی کم ہے۔جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ شرح نمو بھارت کی ہے جو 7.3 فیصد اور دوسرے نمبر پر بنگلہ دیش کی سات فیصد ہے۔ یاد رہے کہ سال 2017-18ءکے بجٹ میں پاکستان کی شرح نمو 5.8 فیصد رہی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے رواں مالی سال کا جو بجٹ پیش کیا تھا اس میں ٹارگٹ 6 فیصد رکھا گیا تھا۔ اس بجٹ پرحکومت نے ایک نظرثانی پہلے کی تھی جبکہ دوسری اب کی جارہی ہے۔
وزیر خزانہ اسد عمر کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ آنکھیں بند کرکے معاہدہ نہیں کیا جائے گا اور ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ یہ معاہدہ آخری ہوگا۔ اگرچہ ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تو نہیں ہوا لیکن عملاً وہ سارے مطالبات مانے جا چکے ہیں جو آئی ایم ایف کی طرف سے کیے جارہے ہیں، روپے کی قیمت میں کمی آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا جسے پورا کیا گیا،گیس کی قیمت میں بھی حکومت نے 143 فیصد تک اضافہ آتے ہی کردیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اشیائے ضرورت عام لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہوچکی ہیں ۔ بجلی کی قیمت کا بھی یہی حال ہے۔ وزیر خزانہ خود کہہ رہے ہیں کہ مقامی بچتیں اور سرمایہ کاری کم ترین سطح پر آگئی ہیں، بینکوں میں جمع رقوم بھی گیارہ سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔ ایسے میں معیشت کی بہتری، بے روز گاری میں کمی ا ور ملازمتوں کے مواقع میں اضافے کا تصور بھی محال ہے، کیونکہ ماہرین کا خیال ہے کہ روز گار کے نئے مواقع اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب جی ڈی پی کی شرح 7 فیصد سے زیادہ ہو۔ یہ شرح تو اگلے پانچ سال میں بھی حاصل ہونے کا کوئی امکان نہیں، ایسے میں حکومت پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں کیسے دے گی؟ اسد عمر بہتر جانتے ہیں کہ ملازمتیں کب پیدا ہوتی ہیں اور کب سکڑتی ہیں۔
حکومت نے سی پیک پربھی نااہلی کا ثبوت دیا۔ اسے سی پیک کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔حکومت نے سی پیک پر غیر ضروری بیانات دیئے، جس سے کنفیوژن پیدا ہوئی۔ چینی سفیر کا پاکستان کی معاشی پالیسی پر بیان غیر معمولی ہے۔ آرمی چیف چین کے ساتھ سی پیک پر معاملات سنبھالنے کے لیے بیجنگ گئے اور سی پیک پر چین کے غصے کو ٹھنڈا کیا۔ چین نے بھی پاک فوج کی سی پیک پر گارنٹی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ چین نے دو سال تک پاکستانی ایکسپورٹ پر ڈیوٹی نہ لگانے کا کہا، اس کے ساتھ ساتھ چین نے دو ارب ڈالر ایکسپورٹ پرڈیوٹی اور ٹیرف نہ لینے کا کہا تھا۔ اُس نے پاکستان سے برآمدی اشیاءکی مکمل لسٹ مانگی تھی، حکومت نے چین کو گندم اور چاول ایکسپورٹ کرنے کی پیشکش کی تھی جس کے جواب میں چین نے کہا کہ گندم اور چاول ہمارے پاس وافر مقدار میں ہیں، چین نے پیشکش کی کہ پراجیکٹ کی نشاندہی کریں ہم 15 بلین یوآن دیں گے۔
ایف اے ٹی ایف کا اجلاس
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں تمام رکن ممالک نے پاکستانی اقدامات کو تسلی بخش قرار دے دیا۔ سڈنی میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)کا اجلاس ہوا جس میں وفاقی سیکریٹری خزانہ نے شرکت کی۔ تین روزہ اجلاس میں بھارت کے سوا تمام رکن ممالک نے پاکستانی اقدامات کوتسلی بخش قرار دیا۔ ازلی دشمن بھارت نے حسبِ توقع سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ پاکستانی وفد نے کالعدم تنظیموں کے خلاف اقدامات سمیت تمام امور اجلاس میں رکھے اور زبانی سوالات کے بجائے تحریری سوالات مانگے۔ بھارتی مندوب نے ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کو 28 سوالات فراہم کیے ہیں۔پاکستان بھارتی سوالوں کے جوابات17 فروری کو پیرس کے اجلاس میں دے گا۔ایف اے ٹی ایف انسپکٹرز کی سفارشات پر جون 2019 ءمیں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا نہ نکلانے کا فیصلہ ہوگا۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد38ہے جن میں امریکہ، برطانیہ، چین، بھارت اور ترکی سمیت25 ممالک، خلیج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں۔ تنظیم کی بنیادی ذمہ داریاں عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا۔ اس سے قبل 2012ء سے 2015 ءتک بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں شامل تھا۔
مقامی سرمایہ کار خوف زدہ
عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ برآمدات میں اضافے، براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری یا ترسیلاتِ زر کے اضافے سے معاشی بحران تحلیل ہوسکتا ہے۔ بچکانہ بات! ترسیلاتِ زر میں اضافہ مددگار ہوگا، مگر زیادہ سے زیادہ کتنا؟ سب جانتے ہیںکہ تجارتی خسارہ دو ارب ڈالر ماہانہ ہے۔ ہر سال 24 ارب ڈالر۔ مقامی سرمایہ دار خوف زدہ ہے تو بیرونی سرمایہ کیسے اور کیونکر آئے گا! امریکہ اور یورپ ہی نہیں، سعودی عرب سمیت مشرقِ وسطیٰ میں بھی ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ پھر ان کی ترجیح بھارت، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور فلپائن ہیں۔ ہماری نکمی نوکر شاہی اور نالائق وزیر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ کوئی منصوبہ نہ کاوش۔
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ دنیا ہے نہ دیں
ٹیکس وصولی کم سے کم تر ہوگئی۔ پہلے 6 ماہ میں ہدف سے 172 ارب کم وصول ہوئے۔ روپے کی قدر ایک تہائی گرانے کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہ ہوسکا۔ دنیا بھر میں دس لاکھ اشیاءدرآمد اور برآمد کی جاتی ہیں۔ ان میں پاکستانی مصنوعات اور اشیا صرف 18 ہیں۔
نئے ٹیکس دہندگان تلاش کرنے کے بجائے، ایف بی آر پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کے درپے ہے۔ کس قدر لہو ان کا نچوڑا جا سکتا ہے۔ بار بار متوجہ کرنے پر تاجروں سے بالآخر بات چیت شروع ہوئی، لیکن سرسری اور سطحی۔ جب انہیں چور، ڈاکو اور ٹھگ کہا جائے گا تو سرمایہ کاری بڑھے گی یا سمٹے گی؟ ان سے بات کرو بھائی، ان کی حوصلہ افزائی کرو۔ افسر شاہی سے کام لینے کا طریقہ بھی یہی ہے، منت سماجت یا دھمکی نہیں۔
پاکستانی زراعت 7 فیصد سالانہ سے آغاز کرکے، پانچ برس میں سولہ فیصد شرح نمو تک پہنچ سکتی ہے۔ کھاد کی بروقت فراہمی، اچھا بیج، ملاوٹ سے پاک کرم کش ادویہ اور آب پاشی کے نظام کی اصلاح۔
(ہارون رشید، 16جنوری2019 ء)