اسلام کی انقلابیت اور اسلامی تحریکیں

حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ حق و باطل کی کش مکش سے آراستہ ہے

ہمارا معاشرہ درجنوں بنیادوں پر تقسیم ہے… اس میں لسانی تقسیم ہے، نسلی تقسیم ہے، صوبائی تقسیم ہے، ذات پات کی تقسیم ہے، فرقوں کی تقسیم ہے، مسلکوں کی تقسیم ہے، سول اور فوجی کی تقسیم ہے، سیاسی تقسیم ہے، امیر غریب کی تقسیم ہے، دیہی شہری کی تقسیم ہے… مگر یہ تقسیم نہ کسی کو نظر آتی ہے اور نہ کوئی اس پر بات کرتا ہے۔ اس کے برعکس سیاسی اعتبار سے یہ تقسیم بہت سی سیاسی جماعتوں اور طبقات کے لیے ایک ’’اثاثہ‘‘ بنی ہوئی ہے۔ البتہ اسلامی تحریکیں معاشرے میں جو تقسیم پیدا کرتی ہیں وہ سب کو نظر آتی ہے۔
ہمارے ایک دوست اور قاری کچھ عرصہ قبل لاہور سے کراچی آئے تو ہم سے ملنے غریب خانے پر بھی تشریف لائے۔ گفتگو کے دوران وہ کہنے لگے کہ اسلامی تحریکوں کے اس پہلو کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ وہ معاشرے کو تقسیم کرتی ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ اسلامی تحریکیں مسلم معاشروں کے دودھ کا مکھن ہیں اور انہوں نے اپنے معاشرے کو کیا، پوری امت کو متحد کرنے کا کام کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ معاشرے کو تقسیم کرتی ہیں تو اس تقسیم کی بنیاد ہمیشہ عقاید اور نظریات ہوتے ہیں۔ اُس وقت تفصیل بیان کرنے کا موقع نہیں تھا اس لیے ہم یہ کہہ کر خاموش ہوگئے۔ مگر اس بات کا اسلام، انبیاء، مرسلین، مجددین اور اسلامی تحریکوں کی تاریخ سے گہرا تعلق ہے۔
انسانیت کی تاریخ میں ہابیل اور قابیل کے کرداروں کی اہمیت بنیادی ہے۔ دونوں بھائی تھے اور حضرت آدم ؑ کے فرزند، مگر ان کے درمیان فرق قائم ہوا، اور اس کی بنیاد یہ تھی کہ ان میں سے ایک اللہ کی بات ماننے والا، اور دوسرا اللہ کے حکم کو روندنے والا تھا۔ ایک ظالم تھا، ایک مظلوم۔
حضرت ابراہیمؑ کے والد آزر بت تراش تھے اور حضرت ابراہیمؑ اللہ کے نبی تھے، چنانچہ نسبی تعلق کے باوجود ان کے مابین کوئی تعلق نہیں تھا۔ حضرت نوحؑ کا بیٹا آپؑ پر ایمان نہ لایا۔ سیلاب آیا تو اس کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہوا، حضرت نوحؑ نے اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی، حضرت نوحؑ نے کہا کہ وہ میری آل ہے، اللہ تعالیٰ نے صاف کہا کہ وہ آپ کی آل نہیں ہے۔ حضرت نوحؑ کا بیٹا حیاتیاتی طور پر حضرت نوحؑ کا بیٹا تھا۔ مگر اسلام میں اصل تعلق ایمان ہے، اسلام میں اصل تعلق کلمہ ہے۔ جو لوگ کلمے اور ایمان کے دائرے میں ہیں وہ ایک ہیں، جو لوگ کلمے کے دائرے سے باہر ہیں وہ عزیز ہونے کے باوجود ’’غیر‘‘ ہیں۔
مکہ کے کافروں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو الزامات لگائے اُن میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ آپؐ گھروں، خاندانوں اور معاشرے کو تقسیم کرنے والے ہیں۔ آپؐ نے باپ کو بیٹے سے، بھائی کو بھائی سے، شوہر کو بیوی سے اور دوست کو دوست سے جدا کردیا۔ غزوۂ بدر میں عملاً یہ ہوا کہ باپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور بیٹا ابوجہل کے ساتھ۔ ایک بھائی آپؐ کے لشکر میں تھا اور دوسرا بھائی ابوجہل کے لشکر میں۔ ماموں آپؐ کا فداکار تھا اور بھانجا ابوجہل کا جاں نثار۔ غزوہ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے فرزند نے آپؓ سے کہا کہ جنگ کے دوران آپ کئی بار میری تلوار کی زد میں آئے مگر میں نے آپ کو نقصان نہ پہنچایا، اس لیے کہ آپ میرے والد ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اگر تُو میری تلوار کی زد میں آتا تو میں تجھے ہرگز معاف نہ کرتا۔ غزوۂ بدر کے قیدیوں کا مسئلہ اٹھا تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ انہیں قتل کردیا جائے اور ہم میں سے ہر کوئی اپنے عزیز کو قتل کرے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کی رائے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینے کی تھی، مگر بعد ازاں حضرت عمرؓ کی رائے کے حق میں وحی نازل ہوئی۔
قرآن مجید کا ایک نام فرقان بھی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن حق و باطل کے فرق کو عیاں کردینے والا ہے۔ قرآن معاشرے میں تقسیم پیدا کرتا ہے حق و باطل کی بنیاد پر، ایمان و کفر کی بنیاد پر، مومن اور منافق کی بنیاد پر۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ قرآن کہتا ہے کہ انسانوں کی ایک قسم جنت میں جانے والی ہوگی اور ایک قسم جہنم میں جانے والی ہوگی۔ قرآن میں کچھ لوگ دائیں بازو والے ہیں اور کچھ بائیں بازو والے۔ دائیں بازو والے کامران ہوں گے اور بائیں بازو والے نامراد ہوں گے۔ اسلامی تاریخ پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس شخصیت کا سب سے زیادہ اثر ہے وہ حضرت عمر ؓ ہیں، اور حضرت عمرؓ کا لقب فاروق ہے۔ یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا یا حق و باطل کے فرق کو سب سے زیادہ جاننے والا۔ قرآن فرقان ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار اور مشرکین ’تقسیم کرنے والا‘ کہتے تھے، اور حضرت عمرؓ کا لقب فاروق ہے۔ یہ اسلام اور اسلامی تہذیب کی روح ہے۔
عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کی جو تصویر گھڑی ہے اُس میں ہر طرف امن ہے، محبت ہے، بھائی چارہ ہے، پُرامن بقائے باہمی ہے، تلوار اور طاقت کے استعمال سے اِبا ہے۔ مگر یہ ایک من گھڑت تصویر ہے، اور خود انجیل اس کو جھٹلانے کے لیے کافی ہے۔ ذرا دیکھیے تو حضرت عیسیٰؑ انجیل میں اس حوالے سے کیا کہہ رہے ہیں:
’’یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں، بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں۔ میں اس لیے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے، اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کردوں۔ اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ جو کوئی باپ ماں کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں۔ اور جو کوئی اپنی صلیب نہ اٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں۔ جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا، اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا۔‘‘ (متی10: 34۔39)
لیجیے، حضرت عیسیٰؑ انجیل میں کہہ رہے ہیں کہ میں زمین پر صلح کرانے نہیں تلوار چلوانے آیا ہوں۔ میں بیٹے کو باپ سے، بیٹی کو ماں سے اور ساس کو بہو سے جدا کرنے والا ہوں۔ حضرت عیسیٰؑ کہہ رہے ہیں کہ جو صلیب لے کر میرے پیچھے نہ چلے وہ میرا نہیں، یعنی جو میرے پیغام کا پرچم نہ اٹھائے گا موت اس کے تعاقب میں ہوگی، اور جو موت سے ڈر کر اسلام کا کام چھوڑے گا وہ میرا نہیں ہوگا۔ آئیے اس سلسلے میں حضرت عیسیٰؑ کے مزید اقوال پر ایک نظر ڈالتے ہیں، آپؑ نے فرمایا:
’’جو کوئی میرے پیچھے آنا چاہے، وہ اپنی خودی سے انکار کرے، اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔‘‘ (متی:16۔24)
’’بھائی کو بھائی قتل کے لیے حوالے کرے گا، اور بیٹے کو باپ۔ اور بیٹے اپنے ماں باپ کے خلاف کھڑے ہوکر انہیں مروا ڈالیں گے۔ اور میرے نام کے باعث سب لوگ تم سے عداوت کریں گے، مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہی نجات پائے گا۔‘‘ (متی10: 21۔22)
’’دیکھو میں تمہیں بھیجتا ہوں گویا بھیڑیوں کے بیچ میں… آدمیوں سے خبردار ہو، کیونکہ وہ تمہیں عدالتوں کے حوالے کردیں گے، اور اپنے عبادت خانوں میں تمہارے کوڑے ماریں گے، اور تم میرے سبب حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کیے جائو گے۔‘‘ (10: 16۔18)
’’اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بیوی اور بچوں اور بہنوں بلکہ اپنی جان سے بھی دشمنی نہ کرے تو میرا شاگرد نہیں ہوسکتا۔ جو کوئی اپنی صلیب نہ اٹھائے اور میرے پیچھے نہ آئے، وہ میرا شاگرد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ تم میں ایسا کون ہے کہ جب وہ ایک برج بنانا چاہے تو پہلے بیٹھ کر لاگت کا حساب نہ کرلے کہ آیا میرے پاس اس کے تیار کرنے کا سامان ہے، یا نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ جب نیو ڈال کر تیار نہ کرسکے، تو سب دیکھنے والے یہ کہہ کر اس پر ہنسنا شروع کردیں کہ اس شخص نے عمارت شروع تو کی مگر تیار نہ کرسکا… تم میں سے جو کوئی اپنا سب کچھ ترک نہ کردے وہ میرا شاگرد نہیں ہوسکتا۔‘‘ (لوقا 14: 26۔33)
(بحوالہ: تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان (حصہ دوم)۔ از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ صفحہ 178-177-176)
اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ کی رائے پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، مولانا نے لکھا:
’’یہ تمام آیات صاف دلالت کرتی ہیں کہ مسیح علیہ السلام محض ایک دھرم کا پرچار کرنے نہیں اٹھے تھے، بلکہ پورے نظامِ تمدن و سیاست کو بدل دینا ان کے پیش نظر تھا، جس میں رومی سلطنت، یہودی ریاست، فقیہوں اور فریسیوں کے اقتدار، اور فی الجملہ تمام بندگانِ نفس و ہوائے نفس سے جنگ کا خطرہ تھا۔ اسی لیے وہ لوگوں کو کھلے الفاظ میں بتادیتے تھے کہ جو کام میں کرنے جارہا ہوں وہ نہایت خطرناک ہے، اور میرے ساتھ اسی کو آنا چاہیے، جو ان تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو۔‘‘
اس کے بعد مولانا نے انجیل کی کچھ اور آیات پیش کی ہیں، ملاحظہ کیجیے:
’’شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے، دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی تجھ پر نالش کرکے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے، اور جو کوئی تجھ کو ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔‘‘ (متی15: 39۔41)
’’جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور روح کو قتل نہیں کرسکتے اُن سے نہ ڈرو، بلکہ اُس سے ڈرو جو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کرسکتا ہے۔‘‘ (متی10: 28)
’’اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے، اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں، بلکہ اپنے لیے آسمان پر مال جمع کرو۔‘‘ (متی6: 19۔20)
’’کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا… تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اپنی جان کی فکر نہ کرو کہ ہم کیا کھائیں گے، یا کیا پئیں گے، اور نہ بدن کی کہ کیا پہنیں گے۔ ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں، نہ کاٹتے ہیں، نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں، پھر بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟ تم میں ایسا کون ہے، جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے ہیں، نہ کاتتے ہیں۔ پھر بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان علیہ السلام بھی باوجود اپنی شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند پوشاک پہنے ہوئے نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو، جو آج ہے، اور کل تنور میں جھونکی جائے گی، ایسی پوشاک پہناتا ہے، تو اے کم اعتقادو! تم کوکیوں نہ پہنائے گا؟ … تم پہلے اس کی بادشاہت اور اس کی راست بازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تمہیں مل جائیں گی۔‘‘ (متی 6: 24۔33)
’’مانگو تو تمہیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو تم پائو گے۔ دروازہ کھٹکھٹائو تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔‘‘ (متی7:7)
ان آیات پر مولانا کا تبصرہ چشم کشا ہے۔ مولانا نے فرمایا:
’’عام غلط فہمی ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے رہبانیت اور ترک و تجرید کی تعلیم دی تھی، حالانکہ اس انقلابی تحریک کے آغاز میں لوگوں کو صبر، تحملِ شدائد اور توکل علی اللہ کی تعلیم و تربیت دیئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ جہاں ایک نظامِ تمدنِ سیاست پوری طاقت کے ساتھ زمین پر چھایا ہوا ہو اور تمام وسائل و ذرائع زندگی اس کے قبضہ و اختیار میں ہوں، ایسی جگہ کوئی جماعت انقلاب کے لیے اٹھ نہیں سکتی، جب تک وہ جان و مال کی محبت دل سے نکال نہ دے، سختیاں اٹھانے کو تیار نہ ہوجائے، اپنے بہت سے فوائد کو قربان کرنے اور بہت سے نقصانات گوارا کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو۔ حاضرالوقت نظام سے لڑنا دراصل تمام آفات و مصائب کو اپنے اوپر دعوت دینا ہے۔ یہ کام جنہیں کرنا ہو انہیں ایک تھپڑ کھا کر دوسرے تھپڑ کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ کُرتا ہاتھ سے جاتا ہو، تو چوغہ بھی چھوڑنے کے لیے آمادہ ہونا چاہیے، اور روٹی کپڑے کی فکر سے آزاد ہوجانا چاہیے۔ خزائنِ رزق فی الوقت جن کے ہاتھ میں ہیں، ظاہر ہے کہ ان سے لڑ کر رزق پانے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا جو اسباب سے قطع نظر کرکے صرف خدا کے بھروسے پر اس راہ میں چھلانک لگا سکتا ہو، وہی ان سے لڑسکتا ہے۔‘‘
(بحوالہ: تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان (حصہ دوم)۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ صفحہ 179)
عیسائیت کو کشمکش اور آویزش سے بے نیاز مذہب کہا جاتا ہے، مگر انجیل کی مذکورہ آیات اور ان سے متعلق مولانا کے تبصرے سے صاف ظاہر ہے کہ دوسرے انبیاء و مرسلین کی طرح باطل سے پنجہ آزمائی حضرت عیسیٰؑ کی بھی سنت تھی، اور وہ اپنے اصحاب اور اپنی امت کو بھی اس پنجہ آزمائی اور اس سے متعلق آزمائشوں سے آگاہ کررہے تھے۔ جہاں تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا تعلق ہے تو وہ تو پوری کی پوری حق و باطل کی کشمکش سے آراستہ ہے۔ مکی زندگی میں جہاد و قتال کا حکم نہیں تھا، مگر مدنی زندگی پوری کی پوری جہاد و قتال سے مزین ہے۔ چنانچہ مدینہ کی 10سالہ زندگی میں 30 سے زیادہ غزوات اور سرایا وقوع پذیر ہوئے۔ اسلام کے سفر میں حضرت عمرؓ کے زمانے تک آتے آتے وقت کی دو سپر پاورز کو چیلنج کیا گیا اور انہیں منہدم کردیا گیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام ایک انقلابی اور نظریاتی قوت کے طور پر ہمارے سامنا آتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے اسلام کے نظریاتی ہونے کا شعور زائل ہوچکا ہے، چنانچہ اب لوگوں کی عظیم اکثریت مذہبی جماعت اور مذہبی نظریاتی جماعت کے فرق سے بھی آگاہ نہیں، حالانکہ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسلام کے نظریاتی تشخص کے چار بنیادی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات تسلیم کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ باطل نظریات اور باطل نظاموں کو فکری اور عملی طور پر چیلنج کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے فرد کی زندگی سے لے کر بین الاقوامی زندگی تک غالب کیا جائے۔ چوتھا یہ کہ مسلم معاشرے اور پوری امت کو ہر نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ، مسلکی اور طبقاتی تقسیم سے بلند کرکے اسے صرف قرآن و سنت اور ایک امت کے تصور پر مجتمع کیا جائے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا کی کئی اسلامی تحریکیں انبیاء و مرسلین کی روایت کی پاسداری کررہی ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے نہ صرف یہ کہ دین کو ایک مکمل ضابطۂ حیات قرار دیا، بلکہ انہوں نے دین کے کامل غلبے کا تصور پیش کرتے ہوئے باطل فلسفوں اور ان کے باطل نظاموں مثلاً سوشلزم، اور سرمایہ داری کو بھی فکری اور عملی طور پر چیلنج کیا۔ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ معاشرے میں نظریاتی کشمکش برپا کریں اور دین کے غلبے کے لیے جدوجہد کریں۔ اس کے ساتھ ہی مولانا نے پورے معاشرے اور پوری مسلم برادری کو فرقوں، مسلکوں، صوبوں، زبانوں اور طبقوں کی نفسیات سے بلند ہوکر ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک امت کے تصور کی طرف بلایا۔ مولانا نے نظریاتی کشمکش کے میدان میں دادِ شجاعت کا حق اَدا کردیا۔ مولانا قیام پاکستان کے ابتدائی عرصے میں اس تواتر کے ساتھ جیل گئے جیسے جیل جانا بھی ان کے فرائضِ منصبی کا حصہ ہو۔ یہاں تک کہ انہیں ایک مقدمے میں موت کی سزا ہوگئی۔ انسان کے لیے اس سے بڑی سزا کا تصور محال ہے۔ موت سامنے کھڑی ہوتی ہے تو بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں، مگر مولانا کو جس رات کے اختتام پر پھانسی دی جانی تھی اُس رات مولانا کو کال کوٹھڑی میں خراٹے لے کر سوتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ نفسیاتی طور پر موت کو پھلانگ کر کھڑے ہونے اور اس پر غالب آجانے کا منظر تھا۔ عام انسان اور مومن کا ایک فرق یہ ہے کہ موت عام انسان کا تعاقب کرتی ہے، اور مومن موت کا تعاقب کرتا ہے اور بالآخر اسے شکست دیتا ہے۔ ایک طرف مولانا تھے جنہوں نے موت کو پھلانگ کر دکھادیا، اور ایک ہم ہیں کہ ہم سے زندگی نہیں پھلانگی جارہی۔ ایک مولانا تھے جنہوں نے موت کو شکست دے دی، اور ایک ہم ہیں کہ ہم سے زندگی کے مسئلوں کو شکست نہیں دی جارہی۔ ایک جانب مولانا تھے جن کے لیے دیا بھی سورج کی طرح تھا، ایک طرف ہم ہیں جو سورج کو بھی دیا سمجھتے ہیں۔ ایک جانب مولانا تھے جنہیں غلامی میں بھی اسلام کی مکمل فتح کا یقین تھا، ایک ہم ہیں کہ آزاد ہوکر بھی غلاموں کا سا طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ لیکن صرف مولانا نے ہی حق و باطل کی کشمکش کا حق اَدا نہیں کیا۔ مصر میں حسن البناء، سید قطب شہید اور اخوان المسلمون نے بھی حق و باطل کی کشمکش کا پرچم بلند کرکے دکھا دیا۔ عرب دنیا میں عرب قوم پرستی ہر طرف چھائی ہوئی تھی اور عرب اسلامی تشخص کو تقریباً بھول ہی گئے تھے، مگر اخوان نے عربوں کو عرب نیشنل ازم کے کنویں سے نکالا اور انہیں امت کے سمندر میں لاکھڑا کیا۔ ترکی میں نجم الدین اربکان اور مقبوضہ فلسطین میں حماس نے اپنے انداز میں یہی کام کیا۔ لیکن 20ویں صدی کے اواخر میں ایک بڑا واقعہ ہوگیا۔
مارکسزم کا کعبہ سوویت یونین بیسویں صدی کے اواخر تک اپنی ساری توانائی خرچ کرچکا تھا، اور مارکسزم کا تصورِ انسان اپنے سارے امکانات بروئے کار لاچکا تھا، چنانچہ 1992ء تک آتے آتے سوویت یونین ٹوٹ گیا اور مارکسزم تحلیل ہوگیا۔ اتفاق سے اسلامی تحریکوں، بالخصوص پاکستان میں تحریک اسلامی کی پوری فکر اور جدوجہد سوشلزم مرکز تھی، چنانچہ سوشلزم تحلیل ہوا تو ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ اب ہمارے سامنے کوئی نظریاتی چیلنج نہیں ہے، حالانکہ سوشلزم کے تحلیل ہوتے ہی سرمایہ دار امریکہ کا چیلنج ہمارے سامنے آکھڑا ہوا تھا، سیموئل ہن ٹنگٹن کے حوالے سے تہذیبوں کے تصادم کا غلغلہ بھی بلند ہوگیا تھا، مگر ہم نہ اس چیلنج کو سمجھ سکے، نہ اس کے خلاف صف آرا ہوسکے۔ چنانچہ معاشرے سے نظریاتی کشمکش کیا، اس کا خیال بھی غائب ہونے لگا۔ اور اب ہمارا معاشرہ مکمل طور پر ایک غیر نظریاتی معاشرہ ہے۔ یہ معاشرہ مذہبی تو ہے مگر نظریاتی نہیں ہے۔ اس معاشرے میں نہ اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کا ’’شعور‘‘ موجود ہے، نہ اس معاشرے میں حق و باطل کی کشمکش برپا ہے، نہ ہی یہ معاشرہ اپنے چھوٹے بڑے تعصبات سے بلند ہونے کے لیے تیار ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ مولانا کی فکر نے پورے معاشرے کو نظریاتی بنادیا تھا۔ لیکن مولانا کی فکر اور جدوجہد نے مولانا کو یہ مرکزیت عطا کردی تھی کہ بھارت کے ممتاز صحافی ایم جے اکبر نے ایک بار روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے کالم میں کہا تھا کہ پاکستان میں ’’بابائے قوم‘‘ تو قائداعظم ہیں مگر ’’دادائے قوم‘‘ مولانا مودودیؒ ہیں۔ ان کے اصل الفاظ یہ تھے کہ پاکستان میں Father of the Nation تو جناح ہیں، مگر God Father of The Nation مولانا مودودی ہیں۔ فادر آف دی نیشن ایم جے اکبر کے بقول سیکولر پاکستان چاہتے تھے، مگر گاڈ فادر آف دی نیشن یعنی مولانا مودودی نے پاکستان اور اسلام کو لازم و ملزوم بنادیا۔ یہ ایک سفید جھوٹ تھا، کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور قائداعظم اسے ایک اسلامی ریاست ہی بنانا چاہتے تھے، مگر مولانا کی فکر اور جدوجہد ایسی تھی کہ سیکولر اور لبرل دانش وروں کو لگتا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا فسانہ مولانا مودودی کی تخلیق ہے۔ بلاشبہ جماعت اسلامی آج بھی ایک نظریاتی جماعت ہے، مگر اس کی گزشتہ 26 سالہ جدوجہد کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جماعت بھی مذہبی زیادہ ہے اور نظریاتی کم ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ باطل کے خلاف جماعت اسلامی کا بیانیہ ہمہ جہت اور قوی نہیں رہا۔ یہ صرف جماعت اسلامی کا نہیں، پورے معاشرے کا ایک بڑا نقصان ہے، اور اس نقصان کا ازالہ جماعت اسلامی کے سوا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی انقلابیت اور اس کے نظریاتی کردار کا تصور صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ یہ تصور کمزور پڑا ہے مگر اتنا نہیں کہ اس کا احیا ممکن نہ ہو۔ جماعت اسلامی مولانا کی فکر، شخصیت اور جدوجہد کے ماڈل اور خود اپنے شاندار ماضی سے رجوع کرے تو نظریاتی شعور سے آراستہ ہوکر پورے معاشرے میں نظریاتی فہم، نظریاتی جوش اور ولولہ پیدا کرسکتی ہے۔
سیاسی بلکہ انتخابی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان میں پنجابی پنجابی کو، مہاجر مہاجر کو، سندھی سندھی کو، پختون پختون کو، اور بلوچی بلوچی کو ووٹ دے رہا ہے۔ دوسری طرف سرمائے اور Electables کی سیاست ہورہی ہے۔ تیسری طرف فرقوں اور مسالک کو ووٹ پڑ رہے ہیں۔ چوتھی جانب اسٹیبلشمنٹ کی پسند و ناپسند انتخابی نتائج کو متعین کررہی ہے۔ پانچویں جانب ٹیلی ویژن اسکرین پر سیاسی رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کی موجودگی رائے دہندگی کے سلسلے میں ایک اہم عنصر بن چکی ہے۔ چھٹی جانب معاشرہ نظریاتی شعور کے فقدان میں مبتلا ہے۔ جماعت اسلامی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ لسانی اور صوبائی تعصبات کی سیاست کرتی ہے، نہ کرسکتی ہے۔ جماعت اسلامی Eletables کی بے اصولی کو گلے لگا سکتی ہے نہ اسے ایسا کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی پی ٹی آئی اور نواز لیگ کی طرح نہ سرمائے کی بنیاد پر سیاست کررہی ہے، نہ اسے اس سیاست سے استفادے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ جماعت اسلامی نہ فرقہ پرست ہے، نہ وہ کسی مسلک کی ترجمان ہے۔ جماعت اسلامی نہ امریکہ کو مطلوب ہے نہ اسٹیبلشمنٹ کو، نہ ہی جماعت اسلامی کو امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ سے کچھ مانگنا چاہیے، اس لیے کہ مسلمان کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ صرف خدا سے مانگے۔ اس صورتِ حال میں جماعت اسلامی کے پاس ایک ہی امکان ہے، اور وہ یہ کہ جماعت اسلامی معاشرے میں نظریاتی شعور پیدا کرے اور معاشرے کو نظریات کی بنیاد پر تقسیم کرلے، جیسا کہ انبیاء کی سنت ہے، اور جیسا کہ خود مولانا مودودیؒ نے انبیاء کی سنت کا اتباع کرتے ہوئے کیا ہے۔ ہم یہ بات پہلے بھی لکھ چکے ہیں، اسے پھر دہراتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی نے ماضی میں بھی اقتدار میں آئے بغیر معاشرے کا بیانیہ یا Narrative بدلا ہے، اور وہ حال اور مستقبل میں بھی ایسا کرسکتی ہے۔ بیانیہ تخلیق کرنے اور معاشرے کو بیانیہ مہیا کرنے کی صلاحیت انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے سے زیادہ بڑی بات ہے۔ جماعت اسلامی بیانیے کی جنگ جیت لے گی تو اس کی سیاسی اور انتخابی فتح کے امکانات بھی روشن ہوجائیں گے۔ لیکن ایسا نہ بھی ہو تو ہم اسلام کی انقلابیت کو اختیار کرکے انبیاء کی سنت سے وابستگی کا حق تو اَدا کرہی دیں گے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہوگی؟