یقیناً آدمی نے کبھی ایک ہی زندگی میں دنیا سے ایسا رابطہ نہیں کیا۔ قلمی خطوط سے برقی خطوط تک، ایک ہی جنبش (کلک) پر اظہار کا طویل سفر یوں لمحوں میں طے نہیں کیا۔ ایسا بھی شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ اکثرآدمی غذائی قلت سے نہیں، بسیار خوری سے مرے ہوں۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ سامانِ زندگی سے اس قدر بوجھل ہوئے ہوں، آسائشیں یوں آزمائشیں بنی ہوں۔ اور غالباً ہی کبھی ایسا ہوا ہوکہ سائنسی سہولیات سے نفسیاتی مسائل، اعصابی تناؤ، اور روحانی و وجودی المیے یوں سامنے آئے ہوں۔ یقیناً ایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ سماجی تعلقات کی وجہ سے لاتعلقی کا عالمي بحران پیدا ہوا ہو۔ یہی ہے اکیسویں صدی کا نیا (عام) آدمی۔ بلاشبہ اس آدمی کا تاریخی پس منظر ہے۔ یہاں موضوع پیش منظر ہے۔ اس پیش منظرکا مرکز مغرب ہے۔ مشرق اور دیگر دنیا میں جھلکیاں موجود ہیں۔
نئے آدمی کا یہ پیش منظر کیا ہے؟ اسے ’تباہ کن سائنس پرستی‘ کا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ سائنس پرست سرخیل ’انسان دیوتا‘ بن چکے ہیں۔ یہ بے مثال قوتِ انسانی کے مالک بن چکے ہیں۔ انتہائی سفاک اورغیر ذمے دار ہوچکے ہیں۔ کرۂ ارض اور پیکرِ خاکی پر وہ تجربات کررہے ہیں، جن کے اثرات مہلک ہیں: ماحولیات اور موسم حالتِ مرگ میں ہیں، قدرتی وسائل تیز رفتاری سے ختم ہورہے ہیں، نفسیاتی وروحانی مسائل عام ہوچکے ہیں۔ انسان کا وجود آف لائن ہوچکا ہے۔ زمین اور انسان دونوں میںفساد بڑھتا جارہا ہے۔
اس فساد کا آغاز زرعی دور سے صنعتی دور میں منتقلی کے دوران ہوا۔ یہ انیسویں صدی تھی۔ برطانوی ادب کے عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز نے اس عہد کوHard Times کا عنوان دیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ صنعتی زندگی کی صورتِ حال پر نوحہ ہے۔ ناول نگار ہرے بھرے قصبات پر دھویں کے سیاہ بادلوں سے دل گرفتہ ہے، اور واضح طور پر بے لگام صنعتی تبدیلیوں سے نالاں ہے۔ ناول کا مرکزی ماحول انسان کی میکانیت سازی پر مبنی ہے۔ لندن کے نواح میں ایک قصبے کی منظرکشی ہے، جہاں فیکٹریوں کی آمد نے فطری زرعی زندگی میں مشینی ہلچل مچادی ہے۔ خواتین اور بچوں کی معصومیت کچل دی گئی ہے۔ ڈکنز نےGreat Expectations, Oliver twist اور David Copperfield میں بھی صنعتی مصائب کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ چارلس ڈکنزکی آپ بیتی گاؤں کی رومانوی زندگی سے لندن کی فیکٹریوں میں دھواں دھواں ہوتی نظر آتی ہے۔ اس عہد کا حساس ادب واضح طور پر محسوس کرتا ہے کہ میکانی زندگی کی تلخی انسانی جذبات اور تخیلات پر منفی اثرات مرتب کررہی تھی۔ بالخصوص Great Expectations میں پپ (بچہ) کی عظیم توقعات صنعتی سفاکی کی لپیٹ میں نظر آتی ہیں۔ غرض یوں لگتا ہے جیسے فطری زندگی کو فیکٹری کی چمنی میں جھونک دیا گیا ہو۔ یہ جبری میکانیت سازی انتہائی تکلیف دہ اور نقصان دہ تھی۔ پہلی بار تاریخ میں مزدور عورت کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی پڑی تھی، پہلی بار مزدور بچوں کے حقوق کی اصطلاح نے جنم لیا تھا۔ یہ حقوق زرعی زندگی میں کبھی سوال کی نہج پر نہیں پہنچے تھے۔ صنعتی دور اور سرمایہ دارانہ پیش قدمی سے انسانی زندگی مشینی زندگی بن کر رہ گئی تھی۔ برطانوی جہاں جہاں گئے، صنعتی بے حسی ڈھاتے گئے۔ مسلم نوآبادیوں میں بھی یہ میکانی مصیبت نازل ہوئی۔ جہاں جہاں سے یہ ہو گزری، تہذیب کی روح مجروح کر گئی۔ اردو ادب اور مغربی تہذیب کے معروف نقاد سلیم احمد مضمون ’’سرسید، ریل گاڑی اور کوکا کولا‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’برصغیر میں اہلِ انگلستان اور اُن کی دھواں گاڑی کی آمد ایک ایسی صورتِ حال تھی جس کو ہم ایک انقلابِ عظیم ہی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یہ انقلاب اتنا بڑا تھا کہ عقائد سے لے کر روزمرہ زندگی کی چھوٹی موٹی چیزیں تک اس کی زد سے باہر نہیں تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس انقلاب کے وقت زمین کے نیچے روایتی گائے نے اپنا سینگ بدل لیا تھا، اور اس سے پیدا ہونے والے زلزلے سے ہماری قدیم روایتی تہذیب کی ہرچیز اپنی جگہ سے ڈانواں ڈول ہوگئی تھی۔ اب میں یہ مضمون ایک ایسے لمحے میں لکھ رہا ہوں جب اس زلزلے کے دھماکوں سے ہمارے چاروں طرف قدیم تہذیب کے ملبے کے سوا اور کچھ باقی نہیں ہے۔‘‘
یہ عالمی تہذیب کشی عالمی جنگوں کی جانب بڑھی۔ سرمایہ دارانہ حرص و ہوس نے ایٹمی تباہی پر بس نہ کیا، بلکہ ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ معیشت مسلط کردی۔ انسانی اقدار، مالی مفادات میں تبدیل ہو گئیں۔ آج صورتِ حال ’ٹیکنالوجی کی افیون‘ تک پہنچ گئی ہے۔ صنعتی دور کا میکانی آدمی وہ ابتدائی نمونہ تھا، جس پر اکیسویں صدی کا ’ٹیکنالوجی افیون زدہ‘ آدمی استوار ہوا ہے۔ پہلے روح کچلی گئی تھی، اب جسم بھی ساتھ چھوڑ رہا ہے، اورحواس بھی جارہے ہیں۔
سائنس پرستوں نے ٹیکنالوجی کے چور رستے سے وہ عالمی نقب لگائی ہے کہ معاشرہ غیرضروری اشیاء کا صارف بن کر رہ گیا ہے، خاندان باہمی لاتعلقی کا شکار ہوچکا ہے، احباب کی بالمشافہ زندگی آف لائن ہوچکی ہے، بیویاں واٹس ایپ میں ڈوبی ہیں، شوہر یوٹیوب میں کھوئے ہیں، بچے گیمزکے نشے میں ہیں، دوست فیس بک میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ اب تک مشینیں ہمارے سامنے تھیں، اب ہمارے بیچ حائل ہوچکی ہیں۔ سماجی رابطے کا ایسا نشہ جو تہذیب، ضابطے، قانون، سرحد اور اخلاق سے بے پروا ہے۔ انسان ایک غیر انسانی صورتِ حال میں پھنس چکا ہے۔ ایک ایسا ماحول جہاں ہر سطح کا ہر آدمی ہر بات ہر کسی سے ہر وقت کرسکتا ہے۔ تبصروں، تجزیوں، فقروں، اور گالیوں سے تیار ایسی دیگ، جسے بڑی دکان کا زہریلا پکوان ہی کہا جاسکتا ہے۔ کثیر آبادی کے بیچوں بیچ ایسی نہر، جوکچرے اور گندگی سے بدبودار نالہ بن چکی ہو۔ یہ سب وہ ظاہری اثرات ہیں، جو آن لائن سماجی معاشرے میں عام ہورہے ہیں۔ مگر مغربی معاشرے میں جہاں ٹیکنالوجی کی افیون سب کچھ نگل رہی ہے، خدشات شدید تر ہیں۔ پہلے سائنس کی بے راہ روی نے انسان کی روح کا انکار کیا، اسے نفسیاتی مریض بنایا۔ اب بے مہار ٹیکنالوجی ہمیں ہمارے جسموں سے دور کررہی ہے۔ ہم گردوپیش کی حقیقتوں سے غافل اسمارٹ فون میں غرق ہیں۔ ہم حقیقت کی دنیا میں آف لائن ہوچکے ہیں، اور تصوراتی دنیا میں آن لائن ہورہے ہیں۔ یقیناً یہ روش ہمیں ایک دن حقیقی دنیا سے یکسر خارج کردے گی۔ یہ فتنہ عالمی المیہ ہے۔ معروف امریکی بلاگر مارک مینسن نے چند ایسی کتابوں کا تعارف پیش کیا ہے، جو واضح کررہی ہیں کہ کس طرح امریکہ اور یورپی دنیا ٹیکنالوجی افیون کی وبا میں جکڑے جاچکے ہیں۔
مارک مینسن لکھتا ہے کہ دنیا دوزخ بن چکی ہے، اس پر مصیبت یہ کہ نہ صرف ہم نہیں جانتے کہ کیوں؟ بلکہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کرنا کیا ہے! بالکل ایسی ہی بات پر اسرائیلی ماہرِ تاریخ نوول ہراری نے اپنی مشہور تاریخ Sapiens کا اختتام کیا ہے۔ یہ اب مغربی ذہن کی عام حالت ہے، یہ حیرت سوال عام ہے۔ مینسن کہتا ہے: ہم ایک اجنبی اور تضادات زدہ عہد میں جی رہے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ آخر جدید دنیا کا مسئلہ کیا ہے، کتابوں کی ورق گردانی کی۔ کچھ کتابیں سامنے آئیں جو درپیش مسائل کی وضاحت میں مدگار ثابت ہوئیں۔ ان میں JONATHAN HAIDT AND GREGORY LUKIANOFF کی THE CODDLING OF THE AMERICAN MIND یہ واضح کرتی ہے کہ آج کل کے بچے بالکل ٹھیک نہیں ہیں، اسمارٹ فون کے ساتھ نشوونما پانے والے بچے جذباتی طور پر عدم توازن کا شکار ہورہے ہیں، عملی زندگی میں اعتماد کی شدید کمی کا سامناکررہے ہیں، دماغی بیماریوں کی شرح خوفناک ہے۔ اس ساری صورتِ حال کی ذمہ دار آن لائن سماجی زندگی ہے۔ یہ کتاب ٹیکنالوجی زدہ ثقافت کی صورتِ حال کو مرکزی خیال بناتی ہے۔ مصنفین کی دلیل ہے کہ (سوشلستان کے) نوجوان جذباتی اور نفسیاتی شعور کی کم ترین سطح پر ہیں، باوجود اس کے کہ وہ ہر وقت معلومات کی دنیا میں رہتے ہیں (یہاں العلم اور معلومات کا فرق واضح ہوتا ہے)۔ تعلیمی نظام بچوں کو طالب علم کے بجائے تعلیمی گاہک کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ آج کل کے بچے جسمانی کھیلوں کی سرگرمیوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ تنہائی کا شکار ہورہے ہیں۔ دوسری کتاب WHO OWNS THE FUTURE? ہے، مصنف JARON LANIERہیں۔ یہ انٹرنیٹ انجینئر ہیں۔ اس کتاب کا مدعا یہ ہے کہ آن لائن دنیا میں ’مفت کی معلومات‘ نے بہت بڑے بڑے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ فیس بک جیسے چھوٹے چھوٹے ڈیٹا سرور کولیکٹرز نے خطرناک قوت حاصل کرلی ہے۔ دو چار سوشل ویب سائٹس معلومات کا منبع قرار دے دی گئی ہیں، یہ رجحان اکادمی دنیا کی علمی قدر و قیمت تباہ کررہا ہے۔ مفت کی بے سروپا معلومات نے تحقیق و دانش کو بے قدرو قیمت کردیا ہے۔ لوگوں کا جو دل چاہتا ہے اس پر یقین کرتے ہیں۔ آن لائن خدمات کے نشے میں سب کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ غیر ضروری اشیاء گھر میں گھس کر قیمتیں وصول کررہی ہیں۔ تیسری کتاب THE DEATH OF EXPERTISE ہے، TOM NICHOLSمحقق ہیں۔ یہ بھی ماہرین اور دانش وروں کی بے قدری کا نوحہ ہے، جنہیں آن لائن مفت معلومات نے بے قیمت کردیا ہے۔ آن لائن دنیا کی وجہ سے قابلیتیں آف لائن ہوکر رہ گئی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سب سے بڑا المیہ لوگوں کا لاعلمی پرفخرجتانا ہے۔ امریکی بالخصوص خودفریبی میں مبتلا ہیں۔ ’عدم اتفاق پر اتفاق‘ کا نظریہ عام ہے۔ چوتھی کتاب ہے BOWLING ALONE، یہ لکھی ہے ROBERT PUTNAM نے۔ یہ تنہائی کی نئی کہانی سنا رہی ہے۔ آن لائن ٹیکنالوجی کی وجہ سے لوگ زیادہ سے زیادہ وقت تنہا گزار رہے ہیں۔ کھیلوں جیسی سرگرمیاں گھٹتی چلی جارہی ہیں۔ معاشرتی ادارے برباد ہورہے ہیں۔ سماجی ضروریات پوری نہیں ہورہیں۔ کمیونٹیز غائب ہورہی ہیں۔ صحت مند تہذیبی زندگی بیمار پڑچکی ہے۔ اگر ایسا ہی رہا، تو سب ایک دن تنہا گھر پر مرجائیں گے، اورکسی کو خبر تک نہ ہوگی۔ خدارا اجتماعی تہذیبی زندگی کی جانب لوٹیے۔ ایک دوسرے سے بالمشافہ ملاقات کیجیے۔
پروفیسر نوح ہراری ’اکیسویں صدی کے اکیس سوال‘ میںOnline versus Offline کے باب میں لکھتے ہیں: ’’(آف لائن) گروہوں کی جو اہمیت وافادیت ہے وہ آن لائن تصوراتی گروہ بندی میں نہیں، کم از کم مستقبل قریب میں بالکل بھی نہیں۔ اگر میں اسرائیل میں اپنے گھر پر بیمار پڑجاؤں، تو میرے کیلی فورنیا والے آن لائن دوست مجھ سے صرف بات ہی کرسکیں گے، وہ میرے لیے ایک پیالہ سوپ یا ایک کپ کافی نہیں بناسکیں گے۔ انسان اجسام رکھتے ہیں، اور ایک صدی سے ٹیکنالوجی ہمیں ہمارے جسموں سے دور کررہی ہے۔ ہم توجہ دینے، سونگھنے، اور چکھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ہم اسمارٹ فون اور کمپیوٹر میں کھوتے جارہے ہیں۔ ہمیں اس بات میں زیادہ دلچسپی ہے کہ سائبرکی دنیا میں کیا ہورہا ہے، بہ نسبت اس کے کہ گھرکے باہر گلی میں کیا ہورہا ہے۔ میرے لیے سوئٹزرلینڈ میں کزن سے بات کرنا زیادہ آسان ہے بہ نسبت ناشتے پرگھر والوںسے گفتگوکے، اس لیے بھی کہ وہ سب اپنے اپنے اسمارٹ فون میں کھوئے ہوئے ہیں۔ ماضی میں لوگ ایسی لاپروائی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ کیا جدید ٹیکنالوجی یکسر مسترد کردی جائے؟ سوشل ویب سائٹس کا استعمال ختم کردیا جائے؟ سیل فون اٹھاکر پھینک دیا جائے؟ نہیں، اس مضمون کا ہرگز یہ مدعا نہیں۔ مدعا یہ ہے کہ منکرینِ خدا نے علم سے عدل نہیں برتا… اختیار اور آگہی کا ناجائز فائدہ اٹھایا، افراط وتفریط سے کام لیا… جس کا نتیجہ مسلسل تباہ کن نکلا۔ دوسری جانب خدا پرست صدیوں سے نیم خوابی کی حالت میں ہیں، علمی سرگرمیوں پر جمود طاری رہا ہے، سو ان سے بطور فیصلہ کن قوت علم وعدل کی توقع یا سوال فی الحال بے محل ہے۔ علم سے عدل یہ ہے کہ جس شے کا جو مقام ہے، اسے وہیں رکھا جائے، اور وہ مقام عقل وفہم میں نہ آئے تو خالقِ ارض وسماوات سے رجوع کرلیا جائے۔ یوں تو یہ عام فہم ہے کہ سگریٹ بری چیز ہے، مگر عادی افراد پیتے ہیں، اور اس بات کا شعور بھی رکھتے ہیں کہ یہ مضر صحت ہے، اور اس بات کا خیال بھی رکھتے ہیں کہ کم سے کم پر ہی گزارا بہتر ہے۔ صرف یہ طرز احتیاط بھی اپنالی جائے تو سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت بیشتر اشیاء کے برے پہلوؤں سے بڑی حد تک بچا جاسکتا ہے۔ یہ تو مضر صحت عادت کی مثال تھی۔ اگر انسان کھانا بھی زیادہ کھالے، زیادہ نیند لے لے، اور نیند کی زیادہ گولیاں لے لے، تو اندازہ لگایئے کہاں پہنچے گا!
اس موضوع پر اسلامی اسکالر سید محمد حسین نصر نصف صدی سے کام کررہے ہیں۔ ان کے مکالمات ’’اسلام، مسلمان، اور جدید ٹیکنالوجی‘‘ سے چند باتیں مضمون کے مقدمہ میں مددگار ہوں گی، کہتے ہیں:
’’یہ امر دلچسپ ہے کہ بہت سی پیچیدہ مشینیں جو مسلمان سائنس دانوں اور انجینئرزکی جانب سے بنائی گئیں، وہ کھیل و تفریح اور دلچسپی کے لیے تو تھیں، لیکن پیداوار بڑھانے کے ذرائع یا معاشی مفادات کے لیے نہیں تھیں، اور یہ چیز سمجھنا نہایت اہم ہے۔ یہ کیفیاتی، بلکہ کمیتی تبدیلی اُس وقت رونما ہوئی، جب مغربی دنیا میں صنعتی انقلاب برپا ہوا۔ بہت سے معتبر مغربی لکھاریوں اور اہلِ فکر حضرات نے… جن میں انیسویں صدی کے ولیم مورس، جان رسکن، اور بیسویں صدی کے ایون الیچ، تھیوڈور زیک، اور جیکولس ایلل کے نام شامل ہیں… بھرپور اور مؤثر انداز سے جدید ٹیکنالوجی کے مضر اور منفی اثرات کو ہمارے سامنے پیش کیا، جس سے مسلمانوں کو بھی لازماً آگاہ رہنا چاہیے… دراصل ہمیں روایتی ٹیکنالوجی اور جدید ٹیکنالوجی کے مابین فرق کو سمجھنا ہوگا۔ صاف نظر آرہا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے انسانی علم اور آرٹ (جمالیات) کو مشین تک منتقل کردیا ہے۔ اب ہم کمپیوٹر کی شکل میں، اس سرگرمی کے دوسرے مرحلے میں ہیں، جہاں ذہنی علم کو بھی مشین تک منتقل کردیا گیا ہے۔ میں ایسے بہت سے طلبہ کو جانتا ہوں (حسین نصر ہارورڈ یونیورسٹی میں سائنس کی تاریخ پڑھاتے رہے ہیں)، جو درستی کے ساتھ ہجے تک نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ اس کے لیے بھی کمپیوٹر کے محتاج ہیں۔ کمپیوٹر بتدریج ان کے ذہن کو اس طرح خالی کردیتا ہے، جس طرح مشین نے دستکاریوں، اور آنکھوں اور جسم کے دیگر اعضاکے ذریعے فروغ پانے والی ہنرمندیوں سے ہمیں محروم کردیا ہے۔‘‘
لہٰذا آسان ترین الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ٹیکنالوجی آدمی کے لیے ہے، نہ کہ آدمی ٹیکنالوجی کے لیے۔ آدمی نیا ہو یا پرانا… جسمانی صحت مندی، ہوش مندی، عقل مندی، دردمندی، اور روحانی آسودگی ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے، جسے کسی بھی نفسانی، معاشی، مالی اورشیطانی مفاد کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔ امتِ وسط پر یہ ذمے داری سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے کہ ہرقسم کی لغویات سے روزوشب پاک کرے، اعمال صالح کرے، صبغۃ اللہ اختیار کرے، اور عالمگیر انسانی تہذیب کی رہنمائی کرے۔