کشمیر میں آپریشن یا مذاکرات

کابل کے حالات کا خوف کشمیر میں کیوں محسوس ہورہا ہے؟

بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے ایک بار پھر کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کا فارمولا کشمیر میں اپنایا نہیں جا سکتا۔ مسئلہ کشمیر کے حل یا مذاکرات میں کسی تیسرے فریق کا رول نہیں بنتا۔ جنرل راوت کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان جنگجوئوں سے مذاکرات ایک الگ معاملہ ہے اور جموں وکشمیر میں کسی جماعت یا لوگوں کے ساتھ بات چیت الگ معاملہ ہے۔ افغانستان میں امن کے لیے طالبان سے مذاکرات ہورہے ہیں تو بھارت بھی اس کی حمایت کرتا ہے، مگر کشمیر میں یہ اصول لاگو نہیں ہوسکتا۔ جنرل بپن راوت کا کہنا تھا کہ کشمیر میں بھارتی فوج بحالیِ امن کی سہولت کار قوت کا کردار ادا کررہی ہے۔
جنرل بپن راوت کو کشمیر اور افغانستان کے معاملے میں دہرا معیار اپنانے کے سوال کا سامنا اور اس عذر لنگ کا سہارا لینے پر اس لیے مجبور ہونا پڑا کہ خود بھارتی دھارے میں سیاست کرنے والے دو راہنمائوں عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے یہ سوال اُٹھایا کہ اگر بھارت افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرنے لگا ہے تو پھر کشمیر میں ’’آپریشن آل آئوٹ ‘‘کا راستہ کیوں چنا گیا ہے؟ اب اس سوال کی وضاحت کے طور پر بھارتی فوج جن دلائل کا سہارا لے رہی ہے وہ اس کے تضادات کو مزید نمایاں اور برہنہ کررہے ہیں۔ سترہ برس تک بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کا ڈھول پیٹتا رہا۔ امریکہ میں کبھی کبھار زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کی سوچ پیدا ہوتی بھی رہی، مگر بھارت اس حوالے سے سخت گیر رویہ اپنائے رہا۔ بھارت طالبان کو پاکستان کی نفسیاتی فتح اور برتری کے تناظر میں دیکھتا رہا۔ بھارتی منصوبہ سازوں کے تحت الشعور میں یہ خوف بھی موجود رہا کہ افغانستان میں طالبان کی فتح کے تاثر کا مثبت اور نفسیاتی اثر وادی کشمیر میں تین عشروں سے جاری مزاحمت پر بھی پڑے گا۔ بھارتیوں کو بخوبی اندازہ تھا کہ جب کابل میں سوویت فوجیں افغان مجاہدین پر قابو پانے میں ناکام ہوکر واپسی کی راہیں تلاش کررہی تھیں تو نہایت غیر محسوس طریقے سے اس کا نفسیاتی اثر پُرامن وادیٔ کشمیر پر مرتب ہورہا تھا۔ وادیٔ کشمیر جسے بھارت دنیا میں امن اور سیکولر روایات کی علامت کے طور پر پیش کرتا تھا، افغانستان کے حالات سے متاثر ہورہی تھی۔ وادی کے سنیما ہالوں میں لیبیا کی جنگِ آزادی کے ہیرو عمر مختار کی زندگی پر بننے والی فلم مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہی تھی، اور اس فلم کے مناظر کے دوران ہی سنیما ہال آزادی کے نعروں سے گونجنے لگے تھے۔ ایران کے انقلاب کے بعد افغانستان کے حالات نے وادی کے نوجوانوں کو متاثر کرنا شروع کیا تھا، اور یہیں سے وادی میں نوجوانوں نے پُرامن جدوجہد سے مایوس ہوکر بندوق تھامنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 1982ء میں وادی میں افغانستان کی ایک معروف تنظیم حزبِ اسلامی کے نام پر ایک زیر زمین تنظیم قائم ہونے کا پتا اس دور کے اخبارات سے ملتا ہے۔ یوں تو یہ تنظیم کاغذی ہی ثابت ہوئی مگر اس سے وادی میں نوجوانوں کے بدلتے رجحانات کا اندازہ ہوتا ہے۔ وادی کے نوجوانوں کی ابتدائی عسکری تربیت بھی افغان مجاہدین کے تربیتی کیمپوں میں ہوتی رہی۔ بعد میں طالبان کے دور میں سری نگر سے بھارتی جہاز کا اغوا اور قندھار میں اترنا، اور بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کا بوجھل قدموں سے تین قیدیوں کو ساتھ لے کر طالبان سے مذاکرات کے لیے قندھار پہنچنا بھارت کے لیے بھیانک یاد تھی۔
انہی تلخ یادوں اور تجربات نے بھارت کو افغانستان میں طالبان کی واپسی کے خیال سے خوف زدہ کررکھا تھا۔
وادی کشمیر کے سیاسی رجحانات کا مطالعہ بتا رہا ہے کہ وادی میں اس حوالے سے زیادہ جوش وخروش نہیں جیسا کہ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء کے وقت تھا، البتہ اس سے زیادہ بھارت میں ایک خوف ضرور موجود ہے کہ یہ حالات کشمیر میں بھارتی فوج کو مزید مشکلات کا شکار بنادیں گے۔ زیادہ خوش فہمی نہ ہونے کی وجہ شاید اُس وقت اور آج کے حالات کا فرق ہے۔ اُس وقت صرف سوویت یونین افغانستان سے باہر نہیں نکل رہا تھا بلکہ مشرقی یورپ اور وسط ایشیا بھی انقلابی لہروں سے آشنا ہورہے تھے، جن میں دیوارِ برلن کا گرنا حوصلے اور جوش کا ایک اضافی جواز بھی تھا۔ بدلے ہوئے حالات نے امریکہ کو طالبان سے مذاکرات پر مجبو ر کیا تو چارو ناچار بھارت کو بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا۔ اس کے باوجود بھارت کے تحت الشعور میں یہ خوف پل رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی فتح کا تاثر کشمیر پر ایک بار پھر اپنے نفسیاتی اثرات مرتب کرے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیری تین عشروں کے دوران اب افغانستان میں طاقت اور مزاحمت کی آنکھ مچولی میں دوسری بار مزاحمت کو ظفریاب ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جنرل بپن راوت اب اس ماحول میں بغلیں جھانک رہے ہیں۔ ان کی فلاسفی کو فوج کے اندر بھی تنقید کا سامنا ہے۔ کشمیر میں بھارتی فوج کی شمالی کمان کے سابق سربراہ جنرل ڈی ایس ہوڈا نے جنرل بپن راوت کی ’’اُدھر مذاکرات اِدھر انکار‘‘ کی اس متضاد پالیسی کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ بھارت کو کشمیر کے معاملے پر ہر فریق سے مذاکرات کرنا پڑیں گے تاکہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے۔ کابل اور کشمیر کے لیے دو الگ معیارات کے معاملے پر بھارت حریت پسندوں کے بجائے خود اپنے حامیوں کے ہاتھوں باربار زچ ہورہا ہے جو ٹوئٹر پر اور عوامی تقریبات میں بار بار یہ پوچھ رہے ہیں کہ آخر اس تضاد کی وجہ کیا ہے؟ کل تک افغانستان کا ناخوب بتدریج کیوں خوب ہوا؟ اور اب یہی ناخوب کشمیر میں خوب کیوں نہیں ہورہا؟ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی طرف سے بار بار پوچھے گئے ان سوالوں کے جواب میں اب بھارتی فوج کو عذر ہائے لنگ اور بہانے تراشنا اور گھڑنا پڑ رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر بھی 71 سال سے بھارت کے ہاتھوں سے مچھلی کی طرح پھسل رہا ہے، اور یہ مسئلہ صرف پاک بھارت تعلقات پر ہی اثر انداز نہیں ہورہا، بلکہ پورے جنوبی ایشیا کی سیاست اور تعلقات کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔