قبائلی اضلاع : اختیارات کی تقسیم کاتنازع

گورنر خیبر پختون خو ا کو قبائلی اضلا ع میں ذمہ داریاں دینے سے آئینی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خدشہ، سیاسی جماعتوں کا احتجاج

وفاقی حکومت کی طرف سے گورنر خیبر پختون خوا کو قبائلی اضلاع میں امن وامان اور بلدیاتی نظام کی ذمہ داریاں دینے سے جہاں آئینی پیچیدگیاں پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں، وہیں اس ناقابلِ فہم فیصلے سے صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے بعض انتظامی اختیارات کی گورنر کو منتقلی سے 25 ویں آئینی ترمیم پر بھی سوالات اٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔ واضح رہے کہ کسی آئینی ترمیم کے بغیر وزیراعلیٰ کے بعض انتظامی اختیارات گورنر خیبر پختون خوا کو دینے کا عجلت میں کیا جانے والا فیصلہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا تھا، جس میں گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان اور وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان سمیت دیگر اعلیٰ افسران نے بھی شرکت کی تھی۔ مذکورہ اجلاس میں قبائلی اضلاع کے سرکاری امور کے بارے میں بعض اہم فیصلے کیے گئے تھے، جن میں گورنر خیبر پختون خوا کو قبائلی اضلاع میں امن وامان اور بلدیاتی نظام کی نگرانی کا اختیار دیا گیا تھا، حالانکہ 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا انضمام کے بعد قبائلی اضلاع کے تمام سرکاری امورکے اختیارات بطور چیف ایگزیکٹو صوبے کے وزیراعلیٰ کو منتقل ہوچکے ہیں، لہٰذا سیاسی قائدین کے ساتھ ساتھ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین میں ترمیم کے بغیر صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے اختیارات گورنر خیبر پختون خوا کو دینا نہ صرف آئین سے انحراف ہے بلکہ اس مبہم فیصلے سے آئینی پیچیدگیاں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے عمل کو بھی دھچکہ پہنچنے کے شدید خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صوبے کے معروف قانون دان بیرسٹر سیف محب اللہ خان کا اس صورتِ حال کے متعلق کہنا ہے کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت قبائلی اضلاع کے تمام امور صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے حوالے ہونے کے بعد آئین میں ترمیم کیے بغیر چیف ایگزیکٹو کے اختیارات گورنر کو دینا غیر آئینی اقدام تصور کیاجائے گا، اس لیے اگر وفاقی حکومت گورنر کو کچھ اضافی انتظامی اختیارات دینا چاہتی ہے تو اس کے لیے موجودہ آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔ دوسری جانب اس صورت حال کے بارے میں صوبائی حکومت کا کوئی خاص مؤقف سامنے نہ آنے کے باعث جہاں آئینی حلقوں میں تشویش بڑھ رہی ہے وہیں اس حوالے سے خود قبائل کے اندر بھی انضمام کی حامی اور مخالف قوتوں کے درمیان مستقبل کی تصویرکشی کے سلسلے میں طرح طرح کی عملی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ جماعت اسلامی ملک کی شاید وہ پہلی جماعت ہے جس کی صوبائی اور مرکزی قیادت نے فاٹا انضمام کے حوالے سے روا رکھے جانے والے اس امتیازی سلوک کے خلاف نہ صرف ہر سطح پر مؤثر آواز اٹھائی ہے بلکہ اس نے انضمام اور مابعد کے عمل میں پائی جانے والی آئینی، قانونی اور انتظامی پیچیدگیوں اور مشکلات کا نوٹس لیتے ہوئے ان امور کی نشاندہی اور اس ضمن میں مناسب متبادل تجویز مرتب کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے صوبائی نائب امیر اور سابق سینئر صوبائی وزیر عنایت اللہ خان کی سربراہی میں ایک ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیا ہے جس نے فاٹا انضمام کے کئی نمایاں اسٹیک ہولڈرز…. جن میں موجودہ اور سابق بعض اعلیٰ سینئرسول حکام کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور میڈیا کے صاحب الرائے نمائندے شامل ہیں…. سے مشاورت کے بعد اپنی سفارشات صوبائی جماعت کو پیش کردی ہیں۔ ان سفارشات میں جہاں بعض حکومتی اقدامات کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے وہیں بعض قابلِ عمل تجاویز بھی ان سفارشات کا حصہ ہیں۔ جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نے وزیراعظم کی جانب سے قبائلی اضلاع کے اختیارات گورنر اور وزیراعلیٰ میں تقسیم کیے جانے کے فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس فیصلے کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے اسے فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کا مقصد قبائلی اضلاع میں ہونے والے صوبائی اور بلدیاتی انتخابات پر اثرانداز ہونا ہے، جماعت اسلامی ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی اور اس قبل از انتخابات دھاندلی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے قبائلی اضلاع کے بعض اختیارات گورنر کو دینے کے متعلق کہا ہے کہ اداروں میں گورنر فیکٹر بڑھانا ملک کی کمزوری کا باعث بنے گا اور 18ویں ترمیم کے بعد صوبے کے ایگزیکٹو اختیارات گورنر کو دینا خطرناک اقدام ہے جس سے صوبوں کی وحدانیت پر حرف آسکتا ہے۔ اسفند یار ولی خان نے کہا کہ خیبر پختون خوا کو اس کے جائز حق سے محروم رکھا گیا ہے اور اب سندھ کے فنڈ روک کر وفاق کی کمر مضبوط کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ صوبوں کو کمزور کرنے سے نہ صرف وفاق کمزور ہوگا بلکہ اس سے قومی یک جہتی اور اتحاد کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ 18ویں ترمیم کے خاتمے کی آڑ میں 1973ءکا آئین ختم کرنا چاہتے ہیں جس کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔ اسفندیار ولی خان نے کہا کہ سلیکٹڈ وزیراعظم کو اس چیز کا اندازہ نہیں کہ وفاق کی بنیادیں کتنی کمزور ہوچکی ہیں اور ایک چنگاری سب کچھ راکھ کے ڈھیر میں بدل سکتی ہے، ملک کے ٹھیکیداروں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ چھوٹی قومیتوں کو دیوار سے لگانے سے جمہوریت ڈی ریل ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا انضمام خوش آئند ہے، تاہم اس حوالے سے مزید کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آرہی اور مزید اقدامات صرف اعلانات تک محدود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں عدالتوں کے قیام کے لیے ایک سال کا وقت طلب کرنے سے انضمام کے بارے میں حکومتی غیر سنجیدگی سامنے آگئی ہے، اے این پی کا مطالبہ ہے کہ اس اہم قومی مفاد کے مسئلے کو جلد از جلد حل کرکے قبائلی عوام کی بے چینی کا خاتمہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی قبائلی اضلاع کے انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی، تاہم پشاور تا ڈی آئی خان 6 اضلاع پر مشتمل ایف آرز کو ایک صوبائی حلقہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پر کام کا بوجھ کم کرنے کے لیے گورنر کو اختیارات کی تفویض مضحکہ خیز ہے اور اے این پی آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اجازت کبھی نہیں دے گی۔
خیبر پختون خوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی نگہت اورکزئی نے صوبے میں شامل کیے جانے والے سات قبائلی اضلاع کے اختیارات گورنر کو دینے کے خلاف اسمبلی سیکریٹریٹ میں توجہ دلاؤ نوٹس جمع کرا دیا ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع کے اختیارات گورنر کے حوالے کرنا آئین اور صوبائی خودمختاری کے خلاف ہے۔ 25ویں آئینی ترمیم کے بعد قبائلی علاقے صوبے کا حصہ بن چکے ہیں، صوبے کی ایگزیکٹو اتھارٹی وزیراعلیٰ ہیں، اور وزیراعلیٰ مالی اور انتظامی اختیارات کا آئینی سربراہ ہوتا ہے، گورنر ایک علامتی عہدہ ہے جو صوبے میں صدر کی نمائندگی کرتا ہے، گورنر کو انتظامی یا مالی اختیارات دینا آئین کے منافی اقدام ہے۔
دریں اثناءخیبر پختون خوا حکومت کی طرف سے فاٹا سیکریٹریٹ کو ختم کرنے سے قبائلی اضلاع کے مختلف پراجیکٹس میں کام کرنے والے چھے ہزار ملازمین کا مستقبل سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ صوبائی حکومت نے تاحال مذکورہ ملازمین کے حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت قبائلی اضلاع میںصحت، تعلیم اور دیگرشعبوں میں سینکڑوں کی تعداد میں پراجیکٹس جاری ہیں جن میں چھے ہزار ملازمین مختلف گریڈ میںکام کررہے ہیں۔ ان ملازمین کو قبائلی اضلاع کے اے ڈی پی سے تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں۔
یاد رہے کہ صوبائی حکومت نے تاحال ان ہزاروں ملازمین کے مستقبل کے بارے میں حتمی پالیسی تیار نہیں کی ہے جس کی وجہ سے ان کے نوکریاں داؤ پر لگ گئی ہیں۔ دوسری جانب محکمہ پلاننگ و ڈویلپمنٹ خیبر پختون خوا کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے تمام پراجیکٹس اور فاٹا سیکریٹریٹ کے پراجیکٹ سیکشن کو محکمہ پی اینڈ ڈی خیبر پختون خوا کے ماتحت کیا جائے گا اور ایک مہینے کے اندر مذکورہ پراجیکٹ ملازمین کے مستقبل کے بارے میں پالیسی تیار کی جائے گی۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ قبائلی اضلاع میں تباہ حال انفرااسٹرکچر کی بحالی اور سماجی ترقی کا عمل شروع کرنے کے لیے ابتدائی مرحلے میں 27 ارب 7 کروڑ 80 لاکھ روپے کی منظوری دی گئی ہے، تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ یہ ترقیاتی فنڈ خیر پختون خوا یا پھر وفاقی حکومت خرچ کرے گی۔ ترقیاتی منصوبوں کے تحت قبائلی اضلاع میں 370کلومیٹر شاہراہوں کی بحالی اور تعمیر پر 18ارب 20 کروڑ روپے، جبکہ سماجی ترقی کے منصوبوں پر 7 ارب 88کروڑ 30 لاکھ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ ضلع جنوبی وزیرستان میں مکین، وانا اور رزمک میں 38 کلومیٹر شاہراہوں کی تعمیر پر ایک ارب 70 کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے جائیں گے۔ ضلع شمالی وزیرستان میں میرانشاہ شہر، دتہ خیل اور میر علی میں119کلومیٹر شاہراہوں کی تعمیر پر 5 ارب 47 کروڑ 60 لاکھ روپے سے زائد خرچ کیے جائیں گے۔ ضلع باجوڑ میں 36 کلومیٹر خاربرنگ شاہراہ کی تعمیر پر ایک ارب 64 کروڑ 10لاکھ روپے لاگت آئے گی۔ ضلع مہمند میں جھنڈا ڈب میں 18کلومیٹر کی شاہراہ پر 75 کروڑ 80لاکھ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ ضلع خیبر میں دریائے برار فیروز خیل میں 10 کلومیٹر شاہراہ کی تعمیر پر 33کروڑ 40 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔ ضلع کرم میں پاڑہ چنار سید گرکی، سرپاک، پاڑا چنار بائی پاس،کوٹ میران اور ڈوگر سمہ بازار میں 108کلومیٹر شاہراہوں کی تعمیر پر 5 ارب 56 کروڑ 60 لاکھ روپے، اور ضلع اورکزئی میں 38کلومیٹر شاہراہوں کی تعمیر پر ایک ارب77 کروڑ 70 لاکھ روپے کی لاگت آئے گی۔ اسی طرح سماجی ترقی کے منصوبوں میں 2 ارب 41 کروڑکی لاگت سے جنوبی وزیرستان وانا میں زرعی پارک اور مکین مارکیٹ قائم کی جائے گی، 2 ارب 16 کروڑ 30 لاکھ روپے کی لاگت سے شمالی وزیرستان میں کمرشل کمپلیکس میران شاہ، سیدگئی مرکزی گیٹ اور میرانشاہ بس اسٹینڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ 32 کروڑ 50 لاکھ روپے کی لاگت سے ضلع باجوڑ میں گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول میں اضافی کمرے اور ہاسٹل تعمیر کیا جائے گا اور نیو ایجوکیشن کمپلیکس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ضلع مہمند میں ایک ارب 2 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے نیو کیڈٹ کالج مہمند گیٹ، ریحاب تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال، اسپورٹس اسٹیڈیم اور ماڈل اسکول تعمیر کیے جائیں گے۔ ضلع خیبر میں 20کروڑ روپے کی لاگت سے ایجوکیشن کمپلیکس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ایک ارب11کروڑ 10لاکھ روپے کی لاگت سے ضلع کرم پاڑا چنار میں ایجوکیشن کمپلیکس، نیو میڈیکل سینٹر، ڈوگر میں ایجوکیشن کمپلیکس، لڑکیوں کے لیے ایجوکیشن کمپلیکس اور لڑکوں کے لیے ہاسٹل تعمیر کیا جائے گا۔ سماجی ترقیاتی منصوبوں میں ضلع اورکزئی میں 43کروڑ80 لاکھ روپے کی لاگت سے لڑکیوں کے لیے ایجوکیشن کمپلیکس، لڑکوں کے لیے ڈگری کالج، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال اور سمہ بازار میں نیا اسکول تعمیر کیا جائے گا۔ جنوبی وزیرستان میں خان کوٹ مڈل اسکول کی تعمیر کے لیے10 کروڑ 20 لاکھ روپے کی منظوری دی گئی ہے، میرانشاہ میں بس ٹرمینل کے قیام کے لیے 3کروڑ، میر علی میں بس ٹرمینل قائم کرنے کے لیے 2 کروڑ 90 لاکھ، ضلع کرم ڈوگر میں مارکیٹ کے قیام کے لیے 2 کروڑ80لاکھ، ڈوگر شہر میں شاہراہ کی تعمیر کے لیے ایک کروڑ80لاکھ، ضلع باجوڑ خار میں لڑکوں کے ہاسٹل کی تعمیر پر 9کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ دریائے باڑہ پر پل کی تعمیر پر 5 کروڑ 40 لاکھ روپے اور گورنمنٹ ڈگری کالج میرانشاہ کی بحالی اور تعمیرنو پر 15کروڑ70لاکھ روپے خرچ کیے جائیں گے۔
اسی طرح سینئر صوبائی وزیر محمد عاطف نے گزشتہ دنوں قبائلی اضلاع کے یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختون خوا حکومت نے قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد پولیس محکمہ میں ان علاقوں سے 24 ہزار جوان بھرتی کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے، جبکہ صوبائی حکومت نے ضلع خیبر میں سفاری ٹرین سروس شروع کرنے کے لیے وزارتِ ریلوے کو خط ارسال کردیا ہے اور ہنگامی بنیادوں پر ضلع خیبر میں سفاری ٹرین سروس شروع کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ حکومت نے قبائلی اضلاع کے نوجوانوںکو ایک ارب روپے تک بلاسود قرضہ دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے ضم شدہ علاقوںکے کئی مقامات کو پانچ سالہ منصوبے میں شامل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے نوجوانوں کی تمام محرومیوں کا ازالہ کرنے اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں قبائلی اضلاع کے حصے کی راہ میں تمام رکاوٹوں کو جلد ازجلد دور کیا جائے گا تاکہ وہاں ترقی کا سفر تیزی سے شروع کرسکیں۔ قبائلی علاقے قدرتی حسن سے مالا مال ہیں جن کو ترقی دے کر ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنایا جائے گا، اس سلسلے میں پہلے ہی سے قبائلی اضلاع کی کئی جگہوں کو پانچ سالہ پلان میں شامل کیا جا چکا ہے۔
یہاں یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ فاٹا انضمام کے بعد موجودہ حکومت قبائلی اضلاع کی تعمیروترقی اور یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے حوالے سے بلند بانگ دعوے تو مسلسل کررہی ہے، لیکن اس ضمن میں گزشتہ پانچ ماہ کے دوران وزیراعظم، گورنر اور وزیراعلیٰ سمیت بعض صوبائی وزراءکے قبائلی اضلاع کے نمائشی دوروں اور وہاں رٹے رٹائے چند دعووں اور نعروں کے سوا کوئی ایک بھی عملی قدم اٹھتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے، جس سے نہ صرف انضمام کی حامی قوتوں کی بے چینی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے بلکہ حکومت کی اس بے حسی اور نالائقی سے عام قبائل کی مایوسی اور بددلی بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہے، جس کا مداوا یہاں فی الفور صوبائی اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور پولیس کو توسیع دینے کے علاوہ بڑے پیمانے پر اعلان شدہ ترقیاتی منصوبوں کو عملی شکل دینے کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔