ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
دوست ممالک کی اقتصادی امداد سے پاکستان کا مالیاتی بحران فی الحال ٹل گیا ہے مگر معیشت کو درپیش متعدد چیلنج اور خطرات بدستور برقرار ہیں۔ دراصل جن وجوہات کی وجہ سے یہ خرابیاں پیدا ہوتی رہی تھیں اُن کو دور کرنے کے لیے کچھ بنیادی معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے، وہ کی ہی نہیں جارہیں کیونکہ ان سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ تحریک انصاف نے انتخابات سے پہلے معیشت کی بحالی کے لیے جو 10نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا اُس میں کہا گیا تھا: ”پہلے 100روز کے دوران معیشت کی بحالی اور قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے کاروبار دوست اور عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی وضع کی جائے گی“۔ صاف ظاہر ہے کہ تحریک انصاف کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ ٹیکسوں کے نظام میں عدل پر مبنی بنیادی اصلاحات کیے بغیر نہ تو پاکستان کی بیمار معیشت میں پائیدار بہتری آسکتی ہے اور نہ ہی قرضوں پر انحصارکم ہوسکتا ہے۔ گزشتہ 25 سے زائد برسوں سے مختلف حکومتیں ٹیکسوں کی چوری روکنے اور ہر قسم کی آمدنی پر مو ٔثر طور پرٹیکس وصول کرنے کے سیاسی نعرے تو تواتر سے لگاتی رہی ہیں مگر اس ضمن میں وفاق اور صوبوں کی جانب سے جن فیصلوں کی ضرورت ہے وہ نہ پہلے کبھی کیے گئے اور نہ اب کیے جا رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کا یہ مو ٔقف رہا تھا کہ اگر دوست ملکوں سے امداد مل گئی تو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ صرف اُس وقت ممکن ہوتا جب دوست ملکوں سے قرضوں کے پیکیجز کے اعلانات کے ساتھ ہی معیشت کی پائیدار بحالی کے لیے خودانحصاری کے زریں اصولوں پر مبنی اصلاحات نافذ کرنا شروع کردی جاتیں جس میں سرفہرست ٹیکسوں کے منصفانہ نظام کا نفاذ ہوتا۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں تو کجا، وفاقی کابینہ بھی عدل پر مبنی ٹیکسوں کا نظام نافذ کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ معیشت کی پائیدار بہتری کے لیے قومی بچتوں کا بڑھانا بھی ازحد ضروری ہوتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بینکوں کو پابند کرنا ہوگا کہ وہ معاہدے کے مطابق اپنے کھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک کریں۔ اسٹیٹ بینک کے احکامات کے تحت نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر دی جانے والی شرح منافع کو بینکوں کے منافع سے منسلک کرنے کے بجائے عملاً اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ (شرح سود) سے منسلک کردیا گیا ہے۔ یہ احکامات کھاتے داروں کے ساتھ کیے گئے معاہدے اور بینکنگ کمپنی آرڈیننس 2001کی شق 4-26 الف اور 40 الف کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جو گزشتہ 16برسوں سے کی جاتی رہی ہے۔ اس کی وجہ سے داخلی بچتوں کی شرح جو 2001-02ءمیں 16.1فیصد تھی 2017-18ء میں کم ہوکر صرف 6.1 فیصد رہ گئی۔ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچتوں اور مجموعی سرمایہ کاری کی مد میں پاکستان اپنے جیسے ترقی پذیر ملکوں کے مقابلے میں تقریباً 11000ارب روپے سالانہ کم حاصل کررہا ہے۔
اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کے بجائے موجودہ حکومت 2018-19ءمیں ایک اور ضمنی بجٹ پیش کرنےجارہی۔ اس کے علاوہ نہ صرف آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک جدہ، بلکہ بڑے پیمانے پر داخلی قرضے بھی لے رہی ہے۔ حکومت پاکستان کی اہم دستاویز ”وژن 2025“ جو 2014ءمیں جاری کی گئی، میں کہا گیا ہے کہ (i) 2018ءسے معیشت کی شرح نمو 8 فیصد سے زائد رہے گی۔ (ii)داخلی بچتوں کو 2025ءتک 21 فیصد کی شرح تک پہنچایا جائے گا (موجودہ شرح صرف 6.1فیصد ہے)۔(iii) (2025تک 100فیصد بچّے پرائمری اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہوں گے (وطنِ عزیز میں 23 ملین بچّے اسکول جا ہی نہیں رہے)۔ (iv) 2025ءتک فی کس آمدنی کے لحاظ سے پاکستان متوسط آمدنی والے ملکوں کی بالائی سطح پر آجائے گا۔ (v) 2025ءتک پاکستانی برآمدات 150ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔
مندرجہ بالا اہداف کے حاصل ہونے کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے۔ موجودہ مالی سال اور اگلے مالی سال میں معیشت کی اوسط شرح نمو اُس شرح نمو سے بھی کم رہے گی جو 2017-18ءمیں گزشتہ حکومت کے دور میں حاصل ہوچکی تھی۔ بیرونی قرضوں اور سی پیک کے تحت بیرونی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے پاکستانی برآمدات میں تیزی سے اضافہ کرنا انتہائی ضروری ہے، وگرنہ آنے والے برسوں میں ایک اور مالی بحران پاکستان کا منتظر ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان بیرونی وسائل بڑھانے کے لیے (i) بیرونی ملکوں سے آنے والی ترسیلات کے حجم کو 20 ارب ڈالر سے بڑھا کر 35 ارب ڈالر تک لے جانے، (ii) لوٹی ہوئی دولت کے ایک بڑے حجم کو بیرونی ممالک سے پاکستان واپس لانے، اور (iii) سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری حاصل کرنے پر انحصار کررہے ہیں۔ ان شعبوں میں آئندہ برسوں میں کوئی بڑی کامیابی حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔
یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ 2011ءکے مقابلے میں 2018ءمیں ترسیلات کے حجم میں 8.4 ارب ڈالر کا اضافہ اور برآمدات میں 1.6ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ گزشتہ 5 برسوں میں پاکستان کو 135ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا، جبکہ 93 ارب ڈالر کی ترسیلات کو تجارتی خسارے کی مال کاری کے لیے استعمال کیا گیا (حالانکہ ترسیلات کا بڑا حصّہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا)، یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے، خصوصاً اس لیے بھی کہ ترسیلات کا تقریباً 46 فیصد صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آیا تھا۔ انہی دونوں ملکوں سے موجودہ حکومت نے بھی اقتصادی پیکیجز حاصل کیے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ بیرونی اور ملکی وسائل میں ہم آہنگی قائم کی جائے اور تحریک انصاف کے 2013ءاور 2018ء کے انتخابی منشور اور وعدوں کی روشنی میں تیزی سے اصلاحات کی جائیں، تاکہ آئی ایم ایف سے تین سالہ پیکیج لینے کے باوجود ایک سال بعد ہی قرضے کی بقایا اقساط لینے کے بجائے آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر آیا جاسکے۔(9جنوری2019ء)