بلوچستان:آب رسانی اور نکاسی آب کے ”معطل“منصوبے

ماضیِ قریب میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں نکاسیِ آب کے بڑے منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔ شاہراہیں غالباً چھے سے آٹھ فٹ کھودی گئیں، پائپ بچھائے گئے،کثیر سرمایہ لگا۔ لیکن جس طرح ان پائپوں پر مٹی ڈالی گئی بعینہٖ یہ منصوبہ بھی دفن ہوا۔ معلوم نہیں کہ وہ منصوبہ کہاںگیا اور کتنا سرمایہ ڈوبا؟ اب تو وہ منصوبہ سرکار اور عوام کے حافظے میں بھی محفوظ نہیں رہا۔ بعدازاں ڈھائی ارب روپے سے زائد کا سرمایہ لگا کر ایک مرتبہ پھر شاہراہیں کھودی گئیں۔مگر یہ منصوبے پھر کبھی تکمیل تک نہ پہنچا،گویا سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کردیا گیا۔ سڑکیں الگ برباد ہوئیں۔ نقصانات و حادثات معمول بن چکے ہیں۔ پچھلے دنوں خبر آئی کہ خاران کے اندر گروک ڈیم مختلف وجوہ کی بناء پر پچھلے 9سال سے تعطل کا شکار ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ عوامی مفاد کے منصوبوں کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ یعنی 2009ء کے منصوبے پر اب جاکر پھر سے دس ارب روپے کی لاگت سے کام کا آغاز کیا جارہا ہے۔ اس میں وفاقی حکومت 90فیصد اور باقی 10 فیصد بلوچستان حکومت فراہم کرے گی۔
گروک ڈیم بلوچستان کے ضلع خاران کے جنوب مشرق کی جانب تقریباً50کلومیٹر دور دریائے گروک پر تعمیر کیا جائے گا۔ بلوچستان کے اندر سالانہ بارہ ملین ایکڑ فٹ پانی بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے۔ یعنی اسے ذخیرہ کرنے اور بچانے کے لیے راست اقدامات اٹھائے نہیں جا سکے ہیں۔ صوبے کا غالب حصہ خشک سالی سے شدید متاثر ہے۔ کئی برسوں سے زراعت اور گھریلو استعمال کے لیے پانی کی کمیابی کا بھی سامنا ہے۔ اس بنیادی ضرورت کے باوجود حکومتیں اور محکمے غافل رہے ہیں۔ اجلاس منعقد ہوتے ہیں، منصوبے بنائے جاتے ہیں، سرمایہ لگایا جاتا ہے، اور آخر میں نتیجہ گویا صفر نکلتا ہے۔جام کمال کو ان جملہ مسائل اور خامیوں پر ہمہ پہلو توجہ دینی چاہیے۔ خصوصاً صوبے میں پانی کے وسائل کی ترقی کی خاطر لیے جانے والے قرضے پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا مصرف ٹھیک ٹھیک ہو۔ ایشیائی ترقیاتی بینک سے آسان اقساط پر سو ملین ڈالر یعنی تقریباً 14ارب روپے قرض کا یہ معاہدہ 5 جنوری کو ہوا۔ صوبائی حکومت کہتی ہے کہ جاپان کی حکومت پانچ ملین ڈالر امداد دے گی۔ شراکت داری کے تحت بلوچستان حکومت نے پانی کے منصوبوں کے لیے یہ 14ارب روپے مختص کیے ہیں۔ پانچ سال کی مدت میں مکمل ہونے والے اس منصوبے کے تحت سیلابی پانی کو استعمال میں لایا جائے گا۔ ژوب ڈویژن کے اضلاع قلعہ سیف اللہ، ژوب، شیرانی… اسی طرح ضلع خضدار، قلات اور سکندرآباد میں بھی پانی کے منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔ ژوب ڈویژن میں210 فٹ کی اونچائی پر سرہ توئی ڈیم تعمیر ہوگا، دوسرے آبی منصوبوں کی تعمیر اور بحالی ہوگی۔ قلات ڈویژن کے مختلف اضلاع میں بھی مختلف آبی منصوبوں کی تعمیر ہوگی، نیز پہلے سے تعمیر منصوبوں کی بحالی پر کام ہوگا۔ محکمہ زراعت کی معاونت سے تقریباً 50 ہزار ایکڑ اراضی کو زیر کاشت لایا جائے گا۔ علاوہ ازیں محکمہ جنگلات کے توسط سے تقریباً گیارہ ہزار ایکڑ رقبے پر شجرکاری ہوگی اور موجودہ جنگلات کا تحفظ بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔ صوبائی حکومت سے معلوم ہوا ہے کہ حکومتِ جاپان کی مالی معاونت سے دریائے ژوب اور دریائے مولہ پر ٹیلی میٹرز کی تنصیب کی جائے گی۔ اس ذیل میں محکمہ آب پاشی، زراعت، جنگلات، حیوانات اور ماحولیات کے اہلکاروں کی استعدادِ کار میں بھی اضافہ کیا جا ئے گا۔ دریائے ژوب پر مسلم باغ سیلابہ اسٹرکچر کی تعمیر، احمدزئی ایری گیشن منصوبے کی بحالی و مرمت، سردار اختر ایری گیشن کی تعمیر، دریائے مولہ خضدار پر بھی چھری ایری گیشن اسکیم کی تعمیر، پشتہ خان، گرام بواد ایری گیشن منصوبے کی تعمیر و بحالی، کرخ ویلی ترقیاتی منصوبے کی توسیع اور اس کی مزید بہتری کی جائے گی۔ خرزان اٹھاچکی ایری گیشن کی تعمیر و بحالی، منیالو، ریکو، رند علی ایری گیشن اسکیم کی تعمیر و بحالی ہوگی۔ ضلع خضدار اور ضلع ژوب میں فروٹ پروسیسنگ کے دو پلانٹ سمیت زیتون پراسیسنگ کے دو پلانٹس کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ اللہ کرے کہ ان سمیت صوبے کی ضروریات اور بہتری کے دوسرے منصوبوں پر بھی دیانت داری سے عملی پیش رفت ہو۔
پشتون خوا میپ نے توجہ دلائی ہے کہ ان کی یعنی 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو صوبے میں مجوزہ ڈیم کی تعمیر کے لیے دو کھرب روپے کے فنڈز کا بندوبست کرنا تھا۔ خصوصاً ترجیحی بنیادوں پر کوئٹہ کے لیے پینے کے صاف پانی کے لیے حلق ڈیم، ببر کچھ ڈیم اور برج عزیز خان ڈیم کے سروے اور تعمیر کا کام کرنا تھا، مگر وفاقی اور صوبائی حکومت نے ان تینوں ڈیمز کی فزیبلٹی اسٹڈی کے لیے مالی سال2018-19ء میں مختص رقم کو منسوخ کرکے منصوبوں کو واپس کردیا۔ ہماری حکومت نے پورے صوبے میں وسیع پیمانے پر سروے اور پی سی ٹو بناکر وفاق سے رجوع کیا تھا۔ اسی طرح صوبے کی سطح پر مزید اٹھارہ سے بیس بڑے ڈیموں کی تعمیر کے لیے سروے اور فیزیبلٹی رپورٹ اکتوبر 2019ء تک مکمل ہونی تھی، اور اس کام کے لیے صوبائی حکومت نے32کروڑ روپے کی رقم جاری کی تھی۔ مانگی ڈیم پر کام جاری رکھ کر ضلع کوئٹہ کے اطراف میں چھوٹے بڑے دو سو چیک ڈیمز کی تعمیر کی بھی وفاقی پی ایس ڈی پی میں منظوری کرائی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے دو سو ڈیمز کی تکمیل آخری مراحل میں ہے، جبکہ وفاقی اور صوبائی پی ایس ڈی پی میں تین تین ارب روپے کی لاگت سے ڈیموں پر کام شروع کرایا۔ بلوچستان میں ایک کروڑ بیس لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی ضائع ہونے سے بچانے اور ذخیرہ کرنے کے لیے کم از کم فوری طور پر پانچ کھرب روپے کی ضرورت ہے۔
یقینا اس نوع کے منصوبوں پر تندہی سے پیش رفت و عمل درآمد سے صوبے کے اندر پانی کے بحران اور خشک سالی جیسی آفات سے نمٹا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ تجویز بے محل نہ ہوگی کہ شہر کوئٹہ کی بہتری کے لیے جامع اور مضبوط ارادے سے کام کی ضرورت ہے۔10جنوری کے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں محکمہ تعلیم میں 9 سے15گریڈ کے تدریسی عملے کی بھرتی کی پالیسی میں ترمیم اور کنٹریکٹ کی بنیاد پر اساتذہ کی بھرتی کی پالیسی کی منظوری دی گئی۔ اس کے لیے انٹرویو اور ٹیسٹ ٹیسٹنگ سروس کے ذریعے لیے جائیں گے۔ بھرتیاں ضلع کی سطح پر ہوں گی جس کے لیے ضلعی بھرتی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ ڈپٹی کمشنرز سربراہ ہوں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے میڈیا سیل کے انچارج عظیم کاکڑ کے مطابق ’’حکومت سات سو سے زائد منصوبوں کے لیے فنڈز جاری کرچکی ہے۔ جام کمال نے تمام اضلاع کے لیے150ملین اضافی ترقیاتی فنڈز کا اجرا بھی کیا اور تین ماہ کی قلیل مدت میں بلوچستان میں ریونیو کی مد میں ریکارڈ4 ارب روپے آمدن ہوئی ہے۔‘‘ جام کمال کو 20 ہزار خالی اسامیوں پر بھرتیوں کا عمل جلد شروع کرنا چاہیے۔ اس میں شفافیت کو بہرحال ملحوظ رکھنا ہوگا تاکہ مستحق افراد محروم نہ رہیں۔ بھرتیوں کے لیے عمر کی حد 43سال مقرر کرنا مستحسن اقدام ہے۔