روف کلاسرا
وزیرخزانہ اسد عمر جب اسلام آباد کے ٹی وی اینکرز اور صحافیوں کو آئی ایم ایف پروگرام کے بارے میں بتا رہے تھے تو میں خاموش بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ اس میں نیا کیا ہے؟ کیا نئی بات ہے جو بیس سال میں اسد عمر سے پہلے کے وزرائے خزانہ سے ہم نے نہیں سنی ہوگی؟ اسد عمر پوری کوشش کررہے تھے کہ صحافیوں کو پتا نہ چلے کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیں گے یا نہیں۔ ایک سانس میں وہ کہتے: ہمارا مشکل وقت گزر گیا ہے اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں، لیکن ساتھ یہ بھی بتا دیتے کہ پانچ ماہ سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ لگتا ہے آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوتے ہیں، ان کی شرائط کو ای سی سی کے اگلے اجلاس میں پورا کردیا جاتا ہے، پھر نئے مذاکرات شروع ہوجاتے ہیں۔ وہ پھر نئی شرط رکھ دیتے ہیں اور اسد عمر وہی کام اگلے ماہ کردیتے ہیں۔ اس کھیل کا ایک فائدہ اسد عمر صاحب کو ہورہا ہے کہ ہم میں سے کوئی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ سب آئی ایم ایف کے کہنے پر ہورہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ صحافیوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ نے آئی ایم ایف سے قرضہ بھی نہیں لیا لیکن ان کی شرائط مان چکے ہیں تو پھر شرمانے کی کیا ضرورت ہے! ڈالرز بھی لے لیں تاکہ مارکیٹ میں ڈالر اور روپے میں جاری چوہے بلی کا کھیل رک سکے۔ نئے نئے ٹیکس لگ رہے ہیں، پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں تقریباً بارہ پندرہ روپے تک گر چکا ہے، گیس اور بجلی کی قیمتیں کب کی بڑھ چکی ہیں اور مزید بڑھنے والی ہیں، کیونکہ ابھی پچاس ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانے کا پروگرام بن رہا ہے۔ تو پھر قرضہ لے ہی لیں تاکہ مارکیٹ سے افواہیں ختم ہوں۔ اسد عمر نے یہ کہہ کر ہم سب کو ڈرانے کی کوشش کی کہ وہ اگر ہمیں آئی ایم ایف کی ساری شرائط گنوا دیں تو شاید ہم چھت سے جا لگیں۔ کہنے لگے کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے وفد سے کہا کہ وہ پاکستان سے ایک ماہر معیشت لے آئیں جو کہہ دے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام پاکستان کے لیے اچھا ہے تو وہ مان لیں گے، آئی ایم ایف کا وفد چپ رہا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کیوں شرائط رکھتا ہے؟ اسے تو پاکستان جیسے ملکوں اور ان کے سیاسی لیڈروں اور سرکاری بابوؤں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ یہ لوگ دراصل ان کے عالمی کاروبار کو پرافٹ ایبل بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اگر ہمارے سیاسی لیڈر اور افسر اہل ہوجاتے تو آئی ایم ایف سے کون قرضہ لیتا، اور مزید قرضے لے کر سود سمیت واپس کرتا؟ پاکستان آئی ایم ایف سے اب تک تقریباً چودہ کے قریب پروگرام یا قرضے لے چکا ہے اور سود سمیت واپس کرچکا، بلکہ پچھلی دفعہ اسحاق ڈار نے جو قرضہ لیا تھا وہ تو پاکستان ٹرانسفر تک نہیں ہوا تھا بلکہ آئی ایم ایف نے اپنے پرانے قرضوں میں ایڈجسٹ کرلیا تھا۔ اب تو ہر نیا قرضہ پرانے قرضے کو واپس کرنے کے لیے لیا جاتا ہے۔ سوال وہیں موجود ہے کہ اگر چودہ دفعہ قرضہ لے کر بھی پاکستان خود کو پیروں پر کھڑا نہیں کرسکا تو پندرہویں دفعہ کیا فرق پڑ ے گا! خصوصاً جب یہ قرضہ پرانے قرضے واپس کرنے کے لیے لیا جانا ہے؟ ویسے تو ہم آئی ایم ایف پروگرام میں اس لیے جاتے ہیں کہ اپنی کمزوریاں دور کرکے مشکل سے نکل آئیں، اور اتنے پیسے اور ڈالر خود کمانا شروع کردیں کہ آئندہ کسی سے قرض نہ مانگیں۔ تو پھر اب تک چودہ پروگرام لے کر بھی ہم کیوں اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے؟ لیڈروں اور بیوروکریٹس نے لندن، دبئی، نیویارک تک بینک بھر لیے اور جائدادیں خرید لیں، جبکہ ملک دن بدن کنگلا ہوتا چلا گیا۔ (13جنوری2019ء)