بھارت میں اِس سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات بھارت سمیت اس خطے کی سیاست میں خاصی اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ اس سے بھارت کی داخلی اور خارجی سیاست میں کچھ تبدیلی آسکتی ہے۔ اس لیے خطے کی سیاست مےں دلچسپی رکھنے والے مبصرین بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کی نظریں بھارت کے عام انتخابات پر ہیں، اور جس انداز سے ایک ماہ قبل ریاستی انتخابات کے نتائج سے انتخابات کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب بھارت میں کانگریس نے بزرگ سیاسی راہنماؤں اور بڑے سیاسی برجوں کے مقابلے میں راہول گاندھی کو کانگریس کا صدر نامزد کیا تو ان کی تقرری پر بہت اعتراضات سامنے آئے تھے۔ کسی نے کہا کہ وہ سیاسی نابالغ اور ناتجربہ کار ہیں، اور کسی کے بقول انہیں بھارت کی داخلی سیاست کے مسائل کا نہ تو اندازہ ہے اور نہ ہی ادراک۔ لیکن کانگریس نے بطور جماعت یہی فیصلہ کیا کہ ہمیں ایک نئی اور نوجوان قیادت کو سامنے لاکر پارٹی کو متبادل قیادت پیش کرنا ہے۔ راہول گاندھی سے قبل کانگریس اپنے ہی داخلی بحران کا شکار تھی، ایک طرف بی جے پی کا سیاسی جادو، اور دوسری طرف ملنے والی متواتر شکستوں نے کانگریس کو کمزور کردیا تھا۔ یہ تجزیہ بھی کیا گیا کہ نہرو خاندان کا اب سیاست میں کوئی مستقبل نہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کانگریس کے پاس بھی فی الحال نہرو خاندان سے باہر کوئی ایسی قیادت موجود نہیں تھی جو بڑا موثر کردار ادا کرسکے۔
رہول گاندھی نے ثابت کیا کہ وہ مودی کے متبادل ہوسکتے ہیں۔ لیکن پچھلے ماہ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں بی جے پی کی شکست اور کانگریس کی فتح نے ثابت کیا کہ راہول گاندھی بھارت میں کانگریس اور ملک کے لیے ایک نئی سیاسی امید ہوسکتے ہیں۔ راہول کی قیادت میں ان پانچ ریاستوں میں جہاں بی جے پی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، وہیں ان میں وہ حلقے بھی تھے جن کو بی جے پی کا سیاسی گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ بہت سے بھارتی سیاسی تجزیہ نگاروں یا سیاسی پنڈتوں کے بقول راہول نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اس وقت بھارت کا نیا چہرہ ہوسکتے ہیں۔ راہول گاندھی کی سیاسی برتری کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ کیونکہ مئی 2019ءمیں بھارت میں عام انتخابات ہونے ہیں۔اس لحاظ سے یہ کہنا بجا ہوگا کہ بہت ہی شاندار وقت میں راہول گاندھی اور کانگریس نے بی جے پی اور بالخصوص مودی کو سیاسی طور پر جھنجھوڑا ہے کہ ان کی سیاسی انتخابی طاقت کمزور ہورہی ہے۔ اب راہول گاندھی اور کانگریس کے سامنے ایک بڑا چیلنج 2019ءکے عام انتخابات ہیں۔ یقینی طور پر ان کی کوشش ہوگی کہ وہ ان پانچ ریاستوں میں حالیہ انتخابی برتری کے تسلسل کو جاری رکھ کر مودی سرکار کے مقابلے میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کریں۔
لیکن ان پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج میں راہول کی برتری کے باوجود مودی سرکار کو آنے والے انتخابات میں بڑی شکست دینا آسان کام نہیں ہوگا۔ کیونکہ مودی کو اب بھی کمزور سمجھنا مکمل طور پر ٹھیک نہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ بی جے پی حالیہ ریاستی انتخابات میں شکست کے بعد کیسے دوبارہ خود کو کھڑا کرتی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مودی کے حوالے سے بھارت میں ترقی کی جو توقعات اور خواہشات تھیں وہ مُردہ ہوتی جارہی ہیں اور ووٹرز میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اب ہمیں نئی قیادت درکار ہے۔ ویسے بھی جنوبی ایشیا میں حکمرانی کانٹوں کی سیج ہوتی ہے اور عوام کا حکمرانی کے ساتھ دل جیتنا مشکل کام ہوتا ہے۔ راہول گاندھی نے عملی طور پر بی جے پی کی حکومت اور بالخصوص مودی کی شدت پسند پالیسی اور ان میں موجود خامیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔راہول نے اپنی اور مودی کی سیاست کے درمیان جو لکیر کھینچی وہ سیکولر اور ہندوتو سیاست کا فرق ہے۔ کیونکہ مودی نے بھارت میں جس شدت پسندی کی سیاست کو فروغ دیا اس نے بھارت کے سیکولر چہرے پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس کا اظہار ہم بڑی شدت سے بھارت میں موجود سیاسی اور غیر سیاسی افراد میں دیکھ رہے ہیں، جو برملا بھارت میں مودی کو شدت پسندی پھیلانے کا مرکزی کردار کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے مئی 2019ءکے انتخابات بنیادی طور پر جہاں راہول گاندھی اور نریندر مودی کے درمیان ہوں گے، وہیں ان انتخابات میں ایک نظریاتی کشمکش بھی ہوگی جو ہندوتوا اور سیکولر سیاست کے درمیان دیکھی جائے گی کہ بھارتی ووٹر کس طرز کی سیاست کو دیکھنا چاہتا ہے۔
راہول گاندھی نے جہاں اپنی سیاست میں مودی کی جنگ سنگھی ہندوتوا پر مبنی سیاست کو چیلنج کیا ہے، وہیں انہوں نے کرپشن میں ڈوبی مودی حکومت اور اس کے طرزِ حکمرانی کو بھی چیلنج کیا ہے۔ راہول نے بھارت کے بڑے سرمایہ کاروں میں بھی یہ سوچ پیدا کی ہے کہ اگر وہ بھارت میں معاشی ترقی کا جال پھیلانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ان کو ہندوتوا کی سیاست نہیں بلکہ سیکولر سیاست کی ضرورت ہے جو بھارت کو مجموعی طور پر جوڑ سکے۔ اب المیہ یہ ہے کہ اگر مودی سرکار اور بالخصوص مودی خود ہندوتوا کی بنیاد پر اپنی انتخابی مہم چلاتے ہیں اور اس میں شدت کی لہر پیدا کرتے ہیں تو یقینی طور پر راہول گاندھی کے اس نعرے کو تقویت ملے گی کہ مودی ہندوتوا کی طرز کا بھارت چاہتے ہیں جوبھارت میں انتشار پیدا کرے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ مئی کے انتخابات میں وہ بڑے بڑے غیر سیاسی چہرے جورائے عامہ پر اثرانداز ہوتے ہیں، مودی کی مخالفت اورکانگریس کی حمایت میں سامنے آجائیں۔
راہول کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت بی جے پی اور خود نریندر مودی انہیں انتخابات میں اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، اور اسی بنیاد پر اس وقت تنقید کا بڑا ہدف راہول ہیں۔ اسی طرح راہول نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی جماعت میں موجود بزرگوں اور نئی نسل کے درمیان جو باہمی رابطوں کا فقدان تھا، اس کو کم کیا ہے، اور نئی نسل کو بزرگوں کے ساتھ کھڑا کرکے انتخابی مہم میں نیا جوش پیدا کردیا ہے، اور وہ اس سوچ کو طاقت دے رہے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں کانگریس بی جے پی، مودی اور آج کی حکومت کو ہرانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور اس کے لیے سیاسی میدان بھی ان کے حق میں ہے۔ سیاست اور انتخابی معرکہ میں نفسیات اور نفسیاتی برتری کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے، اور اِس وقت بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مودی کے مقابلے میں راہول گاندھی آگے ہیں۔ اس کا اظہار خود انتخابی سروے کے نتائج ظاہر کررہے ہیں جو بھارت اور عالمی سطح پر ہورہے ہیں۔
مئی کے انتخابات میں ایک بڑا کردار مسلم ووٹرز کا بھی ہے۔ بھارتمیں جہاں علاقائی سیاست کا اہمیت رکھتیہے، وہیں مسلم ووٹرزکا بھی اہم کردار ہے۔ کیونکہ بھارت میں مودی سرکار نے مسلم دشمنی کا جو ایجنڈا اختیار کیا ہوا ہے اس سے خود مسلم ووٹرز بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں، اور ان کو لگتا ہے کہ مودی سرکار نے ان میں عدم تحفظ کا احساس مضبوط کیا ہے۔ یقینی طور پر راہول گاندھی مسلم ووٹرز کی طرف بھی بڑھیں گے اور ان کو یہ سوچ دیں گے کہ مسئلہ ہندو یا مسلم کا نہیں بلکہ ہماری مجموعی معاشی اور سیاسی ترقی کا ہے۔ اس لیے اب دیکھنا ہوگا کہ 2019ءکے انتخابات میں راہول گاندھی کا سیاسی جادو چل سکے گا؟ اور کیا مودی کو شکست ہوگی؟ اس وقت بی جے پی کی حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ مسلم دشمنی کی سیاست کا زہر بھرے، اور یہ تاثر دے کہ ہندوتوا کی سیاست کو طاقت دینے کے لیے بی جے پی ہی واحد جماعت ہے۔ اس کے لیے وہ ہمیشہ کی طرح مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی کا کارڈ کھیل کر انتخابی میدان سجانے کی کوشش کرے گی۔ اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتی ہے، یہ ایک بڑا سوال ہے۔