میرے مہربان برادر بزرگ۔۔۔ چودھری رحمت الٰہی

چودھری محمداسلم سلیمی ایڈووکیٹ
سابق نائب امیرجماعت اسلامی پاکستان
محترم چودھری رحمت الٰہی 1923ء میں ضلع جہلم کے ایک دور افتادہ موضع ککرالہ میں چودھری اللہ دتہ مرحوم و مغفور کے دینی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے بھائیوں میں چودھری رحمت الٰہی کا نمبر تیسرا تھا۔ ان سے دوبڑے بھائی چودھری فضل الٰہی اور چودھری کرم الٰہی تھے۔ چودھری بوستان ان کے چوتھے بھائی تھے۔ چاروں بھائی نماز، روزے کے پابند تھے۔

فوجی ملازمت:

گریجویشن تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد چودھری رحمت الٰہی ضلع جہلم کی روایات کے مطابق فوج میں بھرتی ہوگئے تھے۔ ان کی پوسٹنگ 1946ء میں سیالکوٹ چھائونی میں تھی۔ ذہن اور فکر پر دینی تعلیمات کاگہرا اثر تھا۔ نماز، روزے کی پابندی کی وجہ سے دینی اجتماعات میں بڑے شوق کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ 30 دسمبر 1946ء کو مراد پور نزد سیالکوٹ میں جماعت اسلامی لاہور ڈویژن کے اجتماع میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا خطاب سننے کے لیے بھی چودھری رحمت الٰہی پہنچ گئے۔ یہ معرکہ آراء خطاب بعد میں ’’شہادتِ حق‘‘ کے عنوان سے کتاب کی صورت میں شائع کیاگیا تھا۔ اس خطاب کا چودھری صاحب کے دل پر اس قدر اثر ہوا کہ انہوں نے شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرنے کے لیے اقامتِ دین کی جدوجہد میں حصہ لینے کا عزم کرلیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے چہرے پر شیو کرنا بند کردیا تھا۔ برطانوی ہند کی فوج کے سینئر افسروں نے چودھری صاحب کے داڑھی رکھنے پر اعتراض کیا اور اسے منڈوانے کا حکم دیا۔ لیکن چودھری صاحب نے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے داڑھی منڈوانے کے حکم پر عمل نہ کیا۔ ایک اور موقع پر نماز کا وقت ہوجانے پر پریڈکو چھوڑ کر نماز کے لیے چلے گئے تھے۔ انہوں نے فوج کے حکم پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترجیح دی۔ اس کی پاداش میں انہیں فوج کی ملازمت سے فارغ کردیا گیا تھا۔

جماعت کی رکنیت:

۔1947ء میں چودھری رحمت الٰہی نے جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کرلی تھی۔ برصغیر کی آزادی کے موقع پر مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو بحفاظت پہنچانے کی ذمہ داری جماعت اسلامی کے ذمہ داروں نے اٹھالی تھی۔ اس کام میں چودھری رحمت الٰہی صاحب کو بھی شریک کرلیا گیا تھا۔ انہوں نے رضائے الٰہی کی خاطر مہاجرین کو پاکستان پہنچانے اور ان کی خدمت اور بحالی کے لیے جاں فروشی اور انتہائی خلوص ومحبت سے کام کیا۔

پیشہ زراعت :

چودھری رحمت الٰہی نے سندھ کے علاقہ ٹنڈو الہ یار میں کچھ رقبہ مستاجری پر حاصل کرکے کچھ عرصے تک زراعت کا کام بھی کیا۔ ملازمت کی پابندیوں سے آزاد ہوکر سندھ کے دیہی علاقے میں جماعت کی دعوت اور تبلیغ کے فرائض مستعدی سے انجام دیتے رہے تھے۔
اس سے پہلے وہ کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ وہاں حکیم اقبال حسین مرحوم کے ساتھ یونانی دواسازی کے کام میں شراکت کرلی تھی۔ اس کے ساتھ جماعت کے کام میں بھی تندہی سے مصروف رہے تھے۔ حلقہ کراچی کی قیادت کے ساتھ مل کر ناظمِ نشرواشاعت کے طور پر بہت فعال کردار ادا کرتے رہے تھے۔

مرکز میں جماعتی ذمہ داری :

۔1953ء میں تحریک ختم نبوت میں جماعت اسلامی کے مرکزی قائدین تحریک کی مرکزی مجلس عمل میں نمایاں کردار ادا کررہے تھے۔ اس بناء پر امیر جماعت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، قیم جماعت میاں طفیل محمد اور دیگر اہم رہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ قیادت کے اس خلا کو پُر کرنے کے لیے چودھری رحمت الٰہی صاحب کو مرکز جماعت میں بلا لیاگیا اور قائم مقام قیم جماعت کی ذمہ داری ڈال دی گئی جو انہوں نے بخوبی ادا کی۔ بقول سید منورحسن صاحب چودھری رحمت الٰہی صاحب سب سے کم عمر قیم مقرر کیے گئے تھے۔ اُس وقت ان کی عمر تیس سال تھی۔

اپوزیشن کے ساتھ کام:

جنرل ایوب خاں کی آمریت کے خلاف اپوزیشن کی مختلف سیاسی جماعتوں نے کمبائنڈ اپوزیشن کے نام سے جو اتحاد قائم کیا تھا، اس میں چودھری رحمت الٰہی جماعت کی نمائندگی کرتے رہے تھے۔ ملک کے صدارتی انتخاب کے موقع پر جس میٹنگ میں محترمہ فاطمہ جناح کو اپوزیشن کی صدارتی اُمیدوار نامزد کیاگیا تھا اس میں چودھری رحمت الٰہی نے جماعت اسلامی کی نمائندگی کی تھی۔

مستقل قیم جماعت مقرر:

دسمبر 1965ء میں مرکزی مجلس شوریٰ نے مشرقی پاکستان کی صوبائی تنظیم کی طرح مغربی پاکستان میں بھی صوبائی نظم قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد میاں طفیل محمد کو مغربی پاکستان کا امیر مقرر کردیاگیا تھا۔ اس بناء پر قیم جماعت کا منصب خالی ہوجانے پر چودھری رحمت الٰہی کو قیم جماعت مقرر کردیا گیا تھا۔ 1972ء میں مولانا مودودیؒ نے امارت کے منصب سے ریٹائرہونے کا اعلان کردیا تھا۔ اس وقت تک چودھری رحمت الٰہی تقریباً سات سال مولانا مرحوم کے ساتھ قیم جماعت کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ میاں طفیل محمد جب امیرجماعت منتخب ہوگئے، تو انہوں نے چودھری رحمت الٰہی کو قیم جماعت مقرر کردیا۔ اس طرح 1978ء تک چودھری رحمت الٰہی قیم جماعت کے منصب پر خیروخوبی کے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔

طرزِ زندگی :

چودھری صاحب سادہ اور تصنع سے پاک زندگی گزارتے رہے۔ وہ دوکمروں کے ایک کوارٹر میں رہتے تھے اور بائیسکل پر مرکز جماعت اچھرہ آتے تھے۔

پاکستان قومی اتحاد میں شرکت :

۔1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تنظیم میں چودھری رحمت الٰہی جماعت اسلامی کے نمائندے کی حیثیت سے شامل رہے اور اس اتحاد کے پارلیمانی بورڈ کے ممبر بھی رہے ۔ نظام مصطفی کی تحریک میں پروفیسر غفور احمد صاحب کی گرفتاری کے بعد چودھری رحمت الٰہی صاحب قائم مقام سیکریٹری جنرل پی این اے کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس تحریک کے دوران راولپنڈی میں احتجاجی لانگ مارچ کی قیادت کی اور گرفتار کرلیے گئے۔

وفاقی وزارت میں شمولیت :

۔1978ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے پی این اے کو وفاقی وزارت میں شامل ہونے کی دعوت دی تو جماعت کی طرف سے پروفیسر غفور احمد صاحب اور محموداعظم فاروقی صاحب کے ساتھ چودھری رحمت الٰہی صاحب کو وفاقی وزیر کی حیثیت سے نامزد کیا گیا۔ چودھری صاحب کو وزارتِ پانی و بجلی اور قدرتی وسائل کا شعبہ دیاگیا۔ وزیر بننے کے بعد وہ تین چار ماہ واپڈا کے ریسٹ ہائوس میں قیام پذیر رہے۔ پروفیسر غفور احمد صاحب اور محموداعظم فاروقی صاحب بھی اُن کے ساتھ رہتے تھے۔ وفاقی وزیر کے طور پر انہوں نے ملک بھر کے دورے کیے۔ ہر جگہ جماعت اسلامی کے ذمہ داروں کو بھی اطلاع دے کر اُن سے ملاقاتیں کرتے رہے اور جماعت کے ذمہ داروں کے ذریعے عوامی اجتماعات سے خطاب کرکے اپنی وزارت کی کارکردگی بیان کرکے عوام کے سوالات اور شکایات سن کر مدلل جواب دیتے تھے۔ ملتان کے دورے کے موقع پر جماعت کے ذمہ داروں نے ٹائون ہال میں کھلی کچہری منعقد کرانے کا فیصلہ کیا اور ڈپٹی کمشنر نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کھلی کچہری میں ہر کسی کو سوال کرنے اور شکایات بیان کرنے کا موقع دینے سے بدمزگی پیدا ہونے کا امکان ہے، اس لیے یہ پروگرام نہ رکھا جائے۔ لیکن جماعت کے ساتھیوں کے اصرار پر وہ مان گئے۔ اس کھلی کچہری میں چودھری رحمت الٰہی نے حاضرین کے سوالات اور شکایات کے اس قدر مدلل اور اطمینان بخش جوابات دیئے کہ ڈپٹی کمشنر نے تبصرہ کیاکہ کاش تمام وفاقی وزراء اس طرح لوگوں کو مطمئن کریں۔

نائب امیر مقرر:

آٹھ ماہ کی وزارت سے سبک دوشی کے بعد چودھری رحمت الٰہی کو مرکز جماعت میں نائب امیرمقرر کردیا گیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی امارت کے دوران میں بھی چودھری صاحب نائب امیررہے۔ 2009ء میں سید منورحسن امیر منتخب ہوئے تو چودھری صاحب نے نائب امارت کے منصب سے معذرت کرلی۔ جنوری 1994ء میں قاضی حسین احمد ؒ نے منصبِ امارت سے استعفیٰ دے دیا تو چودھری رحمت الٰہی صاحب کو عارضی امیر جماعت منتخب کرلیا گیا۔ اپریل 1994ء میں قاضی صاحب کے دوبارہ امیر جماعت منتخب ہوجانے تک چودھری رحمت الٰہی صاحب عارضی امیرجماعت کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔

قانونی محاذ:

۔1964ء میں آمرانہ حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کردی اور امیر جماعت اور مرکزی مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کو گرفتار کرلیا گیا۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب نے جو اُس وقت مرکزِ جماعت میں نائب قیم کے طور پر کام کررہے تھے ، حکومت کے اس غیر آئینی اقدام کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کا فریضہ سنبھالا۔ لاہور ہائی کورٹ سے دادرسی نہ ہونے پر سپریم کورٹ میں چارہ جوئی کے لیے ملک کے نامور وکلا سے رابطے کیے۔ چودھری صاحب کی بڑی محنت کے ساتھ کیس کی پیروی اور نامور وکلا کی قانونی مہارت کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے حکومت کے پابندی لگانے کے غیر قانونی اور غیرآئینی حکم کو کالعدم قرار دیا اور جماعت بحال ہوگئی، اور امیر جماعت اور مرکزی مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کو ملک کی مختلف جیلوں سے رہا کردیا گیا۔ قانونی محاذ پر کامیابی چودھری صاحب کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔

مرکز جماعت منصورہ کی تعمیر:

۔1967ء میں جماعت نے فیصلہ کیاکہ ذیلدار پارک اچھرہ میں جماعت کے دفاتر کے لیے جگہ کم پڑ جانے کی بناء پر شہر سے باہر ایک بڑا قطعہ زمین خرید کر مرکز جماعت تعمیر کیا جائے جس میں دفاتر، مہمان خانہ، جامع مسجد اور مرکز میں کام کرنے والے حضرات کی رہائش کا خاطر خواہ انتظام ہو۔ اس مقصد کے لیے ایک سوسائٹی مجلس احیائے اسلام کے نام سے رجسٹرڈ کرائی گئی، جس کے پہلے صدر رانا اللہ داد خان اور سیکریٹری جنرل چودھری رحمت الٰہی مقرر کیے گئے اور ایک ایگزیکٹو باڈی تشکیل دی گئی۔ اس سوسائٹی میں چودھری رحمت الٰہی نے نمایاں کردار ادا کیا۔ زمین کی خریداری، بیع ناموں کی رجسٹریاں کرانے، محکمہ مال سے انتقال کرانے اور اشتمال اراضی کے مراحل بڑی محنت سے طے کرائے۔ اس کے بعد مطلوبہ عمارات کے نقشے تیار کروانے اور ان کی پلاننگ اور تعمیرات کے تمام امور چودھری صاحب کی نگرانی میں مسلسل محنت سے انجام پائے۔ رانا اللہ داد خان کی وفات کے بعد 2005ء میں چودھری رحمت الٰہی صاحب کو صدرِ مجلس مقرر کردیا گیا، انہوں نے کئی سال تک صدرِ مجلس کے فرائض ادا کیے۔ منصورہ میں قائم تمام تعلیمی اور رفاہی ادارے چودھری رحمت الٰہی صاحب کے لیے صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
منصورہ میں ایک بڑا پروجیکٹ منصورہ اسپتال کی تعمیر اور ترقی ہے۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب کئی سال تک منصورہ اسپتال کی انتظامی کمیٹی کے سربراہ رہے۔ ان کی صدارت کے زمانے میں لاہور یونیورسٹی کے میڈیکل کالج سے ملحق یہ ٹیچنگ اسپتال کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ منصورہ اسپتال میں افغان مہاجرین اور مقامی غریب مریضوں کا علاج مفت کیا جاتا رہا ہے۔

جماعت کا قیمتی اثاثہ:

چودھری رحمت الٰہی صاحب قیم جماعت اور نائب امیر جماعت کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اپنی اعلیٰ فکری اور انتظامی صلاحیتوں سے جماعت اسلامی کے لیے نہایت قیمتی اثاثہ ثابت ہوئے۔ ان کی اصابتِ فکر اور مستحکم آراء کے معترف مختلف امرائے جماعت، ارکان مرکزی مجلس شوریٰ، مرکزی ذمہ داران جماعت اور وہ تمام اصحاب رہے جو ان کے ساتھ کام کرتے رہے۔ مرکزی مجلس شوریٰ کی قراردادوں کو مرتب کرنے کا کام وہ پروفیسر غفور احمد اور پروفیسر خورشید احمد کے ساتھ مل کر انجام دیتے رہے۔ وہ مرکزی مجلس شوریٰ کی منصوبہ کمیٹی اور مالیاتی کمیٹی کے صدر اور سیاسی امور کمیٹی اور خارجہ امور کمیٹی کے اہم رکن کی حیثیت سے فرائض کئی سال تک اداکرتے رہے۔

راقم کے ساتھ تعلقات:

راقم اور میرے پورے خاندان کے ساتھ چودھری صاحب اور ان کے تمام افرادِ خانہ کے نہایت مشفقانہ، دوستانہ بلکہ برادرانہ اور خواہرانہ تعلقات قائم رہے۔ 1990ء میں میری ہمشیرہ اور میری ایک بیٹی کی ٹریفک حادثے میں وفات کے موقع پر چودھری صاحب پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے۔ ان کی یہ غمگساری میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ تمام احباب کے ساتھ بھی تھی۔

وفات :

اُن کی وفات حسرت آیات سے چند دن پہلے ان کی طبیعت میں خرابی پیدا ہوئی۔ انہیں سانس لینے میں دشواری تھی۔ انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ مجھے اسپتال نہ لے جائیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنا آخری وقت آجانے کا احساس ہوگیا تھا۔ ان کو گھر پر ہی ڈرپ اور آکسیجن لگادی گئی۔ چند دن موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد وہ 5جنوری2019ء کو دوپہر سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ابدی رحمت میں داخل ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی زائد از ستّر برس کی اقامتِ دین کی جدوجہد میں شرکت کو شرفِ قبولیت بخشے اور اس کا بہترین اجر عطا فرمائے،آمین۔
وفات کے وقت اُن کی عمر95 برس سے زائد تھی۔ اس موقع پر اُن کے تمام افرادِ خانہ نے کمال صبر سے کام لیا اور ایک مثالی اسلامی گھرانے کا رویہ اختیار کیا۔ ان کی نیک اولاد ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔ اسی دن نماز عشاء کے بعد ان کی نماز جنازہ سے قبل محترم حافظ محمدادریس صاحب نائب امیرجماعت، سید منور حسن صاحب سابق امیرجماعت، اور محترم سراج الحق صاحب امیرجماعت نے بہت اچھے الفاظ کے ساتھ خراج عقیدت پیش کیا۔ حُسنِ اتفاق سے چترال سے لے کر کراچی تک نیک، صالح اور مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان نے بھی جنازے میں شرکت کی۔ انہیں اسی رات مصطفی ٹائون کے قبرستان میں دفن کردیاگیا

رفتید ولے نہ از دل ما

اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں انبیاء علیہم السلام، شہدائے اسلام اور صالحین کی رفاقت نصیب کرے اور ہم سب پس ماندگان کو اُن کی تابندہ زندگی کے نقشِ قدم پر چلائے، آمین۔