امریکی صدر کی معاون برائے وسطی و جنوبی ایشیا لیزا کرٹس حکومتِ پاکستان سے مذاکرات کے لیے اسلام آباد آچکی ہیں، اُن کے ہمراہ افغانستان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی زلمے خلیل زاد کو بھی آنا تھا، لیکن وہ پاکستان نہیں پہنچ سکے، افغانستان میں ہی ٹھیر گئے ہیں اور ان کی پاکستان آمد کی تاریخ آگے بڑھ گئی ہے۔ لیزا کرٹس سے قبل نائب امریکی وزیر خارجہ ایلس ویلز بھی پاکستان میں حکومت اور وزارتِ خارجہ کے حکام سے ملاقات کرکے جا چکی ہیں۔ لیزا کرٹس امریکی قومی سلامتی کونسل میں وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے امور کی ماہر سمجھی جاتی ہیں، خبروں کے مطابق انہی کے مشورے کی وجہ سے امریکی صدر نے پاکستان کے بارے میں اپنا لہجہ تبدیل کیا ہے تاکہ پاکستان کے تعاون سے امریکی فوجوں کو افغانستان کی دلدل سے نکالا جائے۔ امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد مسلسل پاکستان کے حکام سے رابطے میں ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سالِ گزشتہ کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو دھمکی دے کر اور الزامات عاید کرکے کیا تھا، لیکن اب وہ حکومتِ پاکستان سے درخواست کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے ٹرمپ نے پنٹاگان کی رائے کے برعکس یک طرفہ طور پر افغانستان سے فوجی انخلا کا اعلان کردیا تھا، جس کی وجہ سے امریکی فوج کے سابق سربراہ اور وزیر دفاع جیمز میٹس یہ کہہ کر مستعفی ہوگئے کہ آپ اپنی مرضی کا وزیر دفاع تلاش کرلیں تاکہ اپنی پالیسیوں پر عمل کرسکیں۔ افغانستان کے بارے میں امریکی حکمت عملی پر وائٹ ہائوس، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور پنٹاگان میں اختلاف کوئی نئی خبر نہیں ہے۔ اس سے قبل بارک اوباما کی سربراہی میں ڈیموکریٹ دو مدت تک امریکی حکومت چلاتے رہے۔ بارک اوباما اور پنٹاگان کے درمیان بھی افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعیناتی پر اختلاف ہوا تھا۔ امریکی فوجی قیادت نے صدرِ امریکہ بارک اوباما سے افغان مزاحمت کچلنے کے لیے اضافی فوجوں کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مطالبے کو اوباما نے اس شرط کے ساتھ منظورکیا تھا کہ ایک خاص مدت کے اندر اندر امریکی فوجی انخلا شروع ہوجائے گا۔ اوباما کے دور میں ہی افغانستان میں تعینات امریکی فوجی تعداد میں کمی کا آغاز ہوگیا۔ امریکی فوجی قیادت اور سیاسی قیادت کے درمیان افغانستان کی حکمت عملی پر اختلاف اتنی سنگین صورت اختیار کرگیا کہ اوباما نے افغانستان میں تعینات امریکی فوجی کمانڈر کو برطرف کردیا تھا۔ برطرفی کا سبب امریکی فوجی کمانڈر کی جانب سے اوباما کے فیصلوں پر غیر محتاط تبصرہ تھا۔ اس کمانڈر کو بڑے دعوے کے ساتھ افغانستان لایا گیا تھا، کیونکہ اس کے سر پر عراق میں فوجی کامیابی کا سہرا تھا، لیکن وہ بھی افغانستان میں ناکام ہوگیا۔ امریکی حکومت کے داخلی ایوانوں میں اس اختلاف کا سبب افغانستان کی جنگ کی ناکامی ہے۔ یہ جنگ 17 برسوں پر محیط ہوچکی ہے، اس وجہ سے اسے امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کہا جاتا ہے، جبکہ کئی ٹریلین ڈالر اس جنگ کی آگ میں جھونکے جا چکے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ امریکی تاریخ کی مہنگی ترین جنگ بھی ہے۔ یہ ہزیمت اور شکست کسی برابر کی جنگی طاقت کے مقابلے پر نہیں ہوئی ہے، بلکہ ایک مختصر سے چھوٹے سے گروہ سے ہوئی ہے جس نے حق اور اصول کی بنیاد پر مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ طویل مدت اس بحث میں گزر گئی کہ افغان طالبان کو جو اپنے آپ کو امارتِ اسلامیہ افغانستان کہتے ہیں، مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ افغان طالبان کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اُن کا مؤقف یہ ہے کہ وہ امریکہ اور اُس کی اتحادی فوج سے جنگ لڑرہے ہیں، اس لیے مذاکرات بھی امریکہ سے ہی ہوں گے۔ یہ منظرنامہ بھی تاریخ نے دیکھ لیا کہ دنیا کی واحد سپر پاور دنیا کے سب سے کمزور گروہ سے امن کی بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ تاریخ کے اس موڑ نے پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے، پاکستان کی مدد سے ہی امریکہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہوا ہے۔ مذاکرات کے اس مرحلے میں طالبان نے مذاکراتی عمل کو معطل کردیا ہے۔ واشنگٹن سے نشر ہونے والی خبروں کے مطابق امریکہ نے طالبان سے مذاکرات میں مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنے فوجی اڈے رکھے گا، ساتھ ہی وہ اس بات کی ضمانت بھی چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین مغرب پر حملوں کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ خبریں بھی ہیں کہ براہِ راست مذاکرات کے باوجود امریکی مطالبہ یہ ہے کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ شراکت داری کرلیں۔ اس مقصد کے لیے امریکی حکومت کے ایما پر افغانستان کے صدارتی انتخابات کی تاریخ آگے بڑھا دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے امریکی حکام عالمی سیاست کے تزویراتی خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے پاکستان کی اہمیت کے قائل ہوگئے ہیں۔ گزشتہ عشرے میں پاکستان پر دبائو اور الزام تراشی کا سبب بھی یہی تھا۔ ظاہر ہے کہ امریکہ کا تجربہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکمراں اشرافیہ بدعنوان ہے۔ اسے بدعنوان بھی امریکہ اور یورپ نے کیا ہے۔ غلامانہ ذہنیت ان پر غالب ہے، اس لیے اِس طبقے کے اکثر افراد چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے ملّت فروشی پر تیار ہوجاتے ہیں۔ غلامانہ ذہنیت کا سبب خوف اور بزدلی بھی ہے جس کا مشاہدہ ہم نے جنرل پرویزمشرف کی شکل میں کیا، جو اپنی قوم کو فتح کرنے کے لیے تو بڑا جری اور بہادر تھا، جو اپنے ناراض شہریوں کو دھمکی دیتا تھا کہ وہاں سے میزائل آئے گا جہاں سے تم کو پتا بھی نہیں چلے گا، لیکن وہی ’’جری صدر‘‘ ایک ٹیلی فونی دھمکی پر ڈھیر ہوگیا کہ خود امریکی عہدیدار کو حیرت ہوئی۔ لیکن آج عالمی منظرنامہ بدلا ہے اور خطے کی سیاست و معیشت میں پاکستان کو مرکزی اور کلیدی اہمیت حاصل ہوئی ہے تو وہ اس مزاحمت کی وجہ سے جو فقیر افغانیوں نے دکھائی ہے۔ اب ایک بار پھر پاکستان کی حکمراں اشرافیہ کا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ وہ امریکی دبائو اور لالچ میں آکر میدان میں جیتی ہوئی جنگ کو مذاکرات کی میز پر نہ ہار دیں۔ اپنی قربانیوں کے ساتھ افغان طالبان مزاحمت اور تدبر سے آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن امریکہ کو پاکستان کے حکمرانوں ہی پر بھروسا ہے۔ خطرہ ہے کہ وہ ایک بار پھر افغانوں کا سودا نہ کرلیں۔