فاران کلب میں کاروانِ نبوت (جلدہفتم) کی تقریبِ اجراء

تحریکِ اسلامی سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر تسنیم احمد اقامتِ دین کے لیے عرصۂ دراز سے مصروفِ عمل ہیں۔ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کو قرآن مجید کے نزول کے ساتھ مرتب کرنے کا جو تحقیقی سلسلہ شروع کیا ہے وہ اب مکی دور کے اختتام تک سات جلدوں میں محفوظ ہوکر منظرعام پر آچکا ہے۔ آپ کا طرزِِ نگارش انتہائی سلیس، دلنشین اور دلچسپ ہے۔ رواں دواں تحریر دل میں اُتر جاتی ہے۔
جلد ہفتم کی تقریبِ اجراء گزشتہ دنوں فاران کلب میں منعقد کی گئی جس کی صدارت سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے فرمائی، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر اسحق منصوری اور پروفیسر نظام الدین میمن نے اظہارِ خیال فرمایا۔ تقریب کی نظامت ندیم اقبال ایڈووکیٹ نے کی۔ صاحبِ کتاب پروفیسر ڈاکٹر تسنیم احمد نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سید مودودیؒ کی تفہیم القرآن پڑھتے پڑھتے میرا تعلق قرآن مجید سے پیدا ہوا۔ چونکہ قرآن مجید کے ساتھ سیرتؐ کا بڑا گہرا تعلق ہے، اس تعلق نے مجھے اس جانب راغب کیا اور میں نے کوشش کی کہ اس حوالے سے قاری کے اندر کا جوش وجذبہ بیدار ہو اور اس کا تعلق قرآن اور سیرت سے جڑ جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اسلامی انقلاب آنا ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم جدوجہد کرتے رہیں۔ اقامتِ دین کے داعیوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کامیابی نہیں مل سکتی۔ اقلیت، اکثریت کا اس سے تعلق نہیں ہے۔ ہمارے تمام مراکز مساجد میں ہونے چاہئیں اور ہمیں ہر شعبے میں وہ افراد تیار کرنے چاہئیں جو اقامتِ دین کے کام کو صحیح معنوں میں آگے بڑھا سکیں۔ ہماری کوتاہی ہے کہ ہم نے ہر شعبے میں اقامتِ دین کے لیے لوگ تیار نہیں کیے۔ آپ نے بتایا کہ ’’کاروانِ نبوت‘‘ کی چھ جلدوں کا سندھی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ (انگریزی میں بھی ترجمے پر کام ہورہا ہے) سندھی ترجمہ میں کاروانِ نبوت آئندہ ماہ طباعت کے مراحل میں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ اہلِ علم دوستوں نے مجھے کتاب کا نام تبدیل کرنے کا مشورہ دیا ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ نام ہی مناسب ہے، ہاں ان سات جلدوں میں موجود تحریروں کو دو یا تین جلدوں میں یکجا کرنے کی کوشش کریں گے۔
پروفیسر اسحق منصوری نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے سائے میں بیان کرنا بڑا کام ہے جو ڈاکٹر تسنیم احمد نے کیا ہے۔ پہلے جز میں ترتیبِ نزول پر بات ہونی چاہیے تھی جو کہ نہیں ہے، اس کو تفصیل سے بیان ہونا چاہیے تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس اہم کام کو آگے بڑھانے کی توفیق دے۔
پروفیسر نظام الدین میمن نے کہا کہ جو بھی انبیائے کرام علیہم السلام آئے ان کی سیرت کو ان کے ماننے والوں نے تبدیل کردیا، مگر ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد کے علمائے حق نے تبدیل نہ ہونے دیا۔ قرآن کے سائے میں سیرتِ پاک کو آپ نے نہایت دلنشین انداز میں بیان کیا ہے، اور پڑھنے والا اسے اپنے دل میں اُترتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
صدرِ مجلس سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے کہا کہ اسلامی تحریکوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کی رہنمائی کریں۔ گو ہم اسلامی انقلاب کی جدوجہد کررہے ہیں مگر اسلامی انقلاب نہیں آیا کیونکہ اس کا راستہ انتخابات ہیں، جو اگر اسی طرح ہوتے رہے تو انقلاب نہیں آئے گا۔ ہمیں نظام بدلنے کی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کتاب کو آٹھ جلدوں کے بجائے دو یا تین جلدوں میں ہونا چاہیے، آج کل اختصار کا زمانہ ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس کا خلاصہ بھی تیار کرایا جائے۔ تسنیم صاحب نے ایک ایسا حلقہ بنالیا ہے جو آپ کے کاموں کو آگے بڑھانے میں پوری طرح آپ کی معاونت کررہا ہے جو خوش آئند ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کون سے اعمال ایسے ہیں جنہیں ہم نہیں اپنا رہے اور جنہیں ہم کو اپنانا چاہیے۔
اس موقع پر صاحبِ کتاب نے اپنی کتاب صدرِ مجلس کے ساتھ شرکا کو بھی تحفتاً پیش کی۔ تقریب میں بڑی تعداد میں اربابِ دانش نے شرکت کی۔ فاران کلب کے ندیم اقبال ایڈووکیٹ نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ تقریب میں مہمانوں کے لیے پُرتکلف عشائیے کا اہتمام تھا۔