نام کتاب : تحریک ِختمِ نبوت
آغاز سے کامیابی تک
ترتیب وتدوین : سید سعود ساحر
صفحات : 360 قیمت 450روپے
ناشر : راحیل پبلی کیشنز ،اردو بازار، کراچی
اسٹاکسٹ : توکل اکیڈمی، شاپ نمبر 31
نوشین سینٹر، نیو اردو بازار ۔کراچی
فون : 0321-2524561
0321-8762213
021-32217471
ای میل : tawakkalacadamy@yahoo.com
سلسلۂ نبوت نبی کریم پیغمبر آخر واعظم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے: ’’رسالت ونبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔‘‘ (ترمذی شریف)
نیز فرمایا: ’’میں محمدؐ ہوں، میں احمدؐ ہوں۔ میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے کفر مٹایا جائے گا، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے، اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔‘‘(بخاری ومسلم)
بدقسمتی سے مسلمانوںکا ایک گروہ صراط مستقیم سے بھٹک کر ایک کاذب نبی کا پیروکار بن گیا اور امت میں ایک فتنہ برپا کردیا، جس کے ایمان کا فیصلہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے کردیا۔ اس سارے قصے کی روداد جناب سید سعود ساحر نے مرتب کردی ہے جو اس کتاب میں محفوظ ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر حافظ محمد ثانی حفظہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
’’پیش نظر کتاب’’تحریک ختم نبوت۔ آغاز سے انجام تک‘‘ تحریک تحفظِ ختمِ نبوت پر علمی، دینی، ادبی اور تصنیفی حوالے سے ایک وقیع اور گراں قدر دستاویز ہے ۔ اس کتاب کے مؤلف جناب سعود ساحر ملک کے صحافتی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں، سینئر صحافی کی حیثیت سے وہ کوچۂ صحافت میں دین وملّت اور اعلیٰ اسلامی واخلاقی اقدار کے تحفظ میں مصروفِ عمل ہیں۔ دین اور دینی اقدار کا درد رکھنے والے سعود ساحر ختمِ نبوت کے مجاہد اور متوالے ہیں۔ فاضل مؤلف نے یہ کتاب سیدِ عرب وعجم ، ختمی مرتبت، محسنِ انسانیت، امام الانبیاء، سیدالمرسلین، خاتم النبیین، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت ومحبت، عشق و وارفتگی کے بھرپور جذبے کے تحت قلم بند کی ہے۔ یہ درحقیقت شمع رسالت کے پروانوں، تحریک تحفظِ ختمِ نبوت کے مجاہدوں اور دینِ مبین کے ان متوالوں کی دینی جدوجہد سے عبارت ہے جنہوں نے عزم وہمت کا خود پہن کر، جرأت و شجاعت، حق وصداقت کی سپر اٹھاکر، جرأتِ ایمانی اور اعلیٰ قدروں کی شمشیر سے شجرِ مرزائیت پر ضربِ کاری لگائی اور اس کی بیخ کنی میں حیاتِ مستعار کے روز وشب صرف کرکے دنیا اور عاقبت میں سرخروئی کا تاج پہنا۔
مذکورہ کتاب پاک وہند میں تحفظِ ختمِ نبوت کے حوالے سے علمی وتصنیفی خدمات میں ایک عمدہ اضافہ اور تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ درحقیقت فاضل مؤلف جناب سعود ساحر کی ختمِ نبوت کے حوالے سے یادداشتوں پر مشتمل وہ کتاب ہے، جسے قلم بند کرنے کی تحریک اور مہمیز دینے میں نائب امیر مجلسِ احرارِ اسلام پاکستان علامہ سید کفیل بخاری اور محترم عبداللطیف خالد چیمہ (سیکریٹری جنرل مجلس احرار اسلام پاکستان) کا بنیادی کردار ہے۔ سعود ساحر مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تحاریک تحفظِ ختم نبوت 1953ء،1974ء۔1984ء کی دینی، سیاسی وملّی تاریخ کے عینی شاہدین میں سے ہیں۔ ’’تحریک ختمِ نبوت آغاز سے کامیابی تک‘‘ روزنامہ امت کراچی میں قسط وار شائع ہوکر علمی، دینی و مذہبی طبقے میں بے حد مقبول ہوئی۔ یہ ضرورت پوری شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ تحفظِ ختمِ نبوت کے حوالے سے اس تاریخی دستاویز کو یکجا کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب تحفظِ ختمِ نبوت کے حوالے سے تاریخ ساز تحریک 1974ء کی علمی اور تاریخی دستاویز ہے۔ گوکہ متعلقہ موضوع پر متعدد کتب شائع ہوکر منظرعام پر آچکی ہیں، تاہم پیشِ نظر کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد، جامع اور تاریخی دستاویز کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں فاضل مؤلف نے 1974ء کی قومی اسمبلی میں ہونے والی پوری بحث کو تاریخی طور پر قلم بند کرکے ہر فریق کے مکمل دلائل اور بحث کو بھی کتاب کا حصہ بنادیا ہے جس کی افادیت پورے طور پر مسلّم ہے۔ 7 ستمبر 1974ء ہماری ملکی و ملّی تاریخ کا وہ سنگِ میل ہے، جب قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اور برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی طویل اور ایک صدی پر محیط جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔‘‘
جناب سید سعود ساحر تحریر فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے کرم اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کے طفیل یہ سعادت میرے حصے میں آئی کہ مسلمانانِ برصغیر کی ایک جدوجہد بالآخر 74ء میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں کا ناپاک وجود جسدِ ملّی سے غلیظ حصے کے طور پر کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ اس کی مکمل روداد کو کتابی صورت میں پیش کرنے اور اس نیک اور مقدس فرض کی ادائیگی میں جو وقت صرف ہوا، وہ آخرت کے اجر کا سبب بنے گا ان شاء اللہ۔ یہ خواہش تو بہت مدت سے تھی کہ مکمل روداد مل جائے تو نوجوان نسل کے استفادے کی خاطر اسے کتابی شکل دی جائے، تاہم ایک دشواری یہ تھی کہ یہ ساری کارروائی طویل مدت تک قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں محفوظ تو تھی، تاہم عام پاکستانی کی دسترس میں نہ تھی۔ جب بیرونِ ملک قادیانیوں کی مذہبی حیثیت عدالت میں چیلنج ہوئی اور حکومتِ پاکستان نے اس مقدمے میں فریق بننے کا فیصلہ کیا اور پاکستانی وکلا جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس مقدمے کی پیروی کے لیے گئے۔ پارلیمنٹ کے اس فیصلے اور اس حوالے سے ہونے والی بحث اور مرزا غلام احمد کے ربوہ اور لاہوری گروپ سے سوال وجواب کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے ثبوت میں یہ کارروائی عدالت میں پیش کی گئی۔ تاہم یہ کارروائی مکمل نہیں تھی اور اس صورت میں لندن سے شائع بھی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ قومی اسمبلی کی سابق اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو اپنے کرم سے نوازے کہ انہوں نے اپنے دور میں یہ حکم جاری کیا کہ اس کارروائی کو خفیہ رکھنے کا کوئی جواز نہیں، یہ عام ہونی چاہیے اور مسلمانوں کے علم میں آنا چاہیے کہ جس مقصد کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دیں، طویل جدوجہد کی، وہ بالآخر کامیاب ہوئی۔ اس معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ جبر و اکراہ کے بغیر قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے قادیانیوں کے دونوں گروہوں کے سربراہوں ربوہ کے مرزا ناصر، لاہوری گروپ کے صدرالدین اور مرزا غلام احمد کے پہلے ’’خلیفہ ‘‘نورالدین کے بیٹے کو کھلے ماحول میں پوری آزادی کے ساتھ اپنے عقائد کے اظہار کا موقع دیا۔ ہر چند کہ قومی اسمبلی کی کمیٹی میں مختلف مسالک کے جید علماء موجود تھے، جن میں مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا مصطفی الازہری، صاحبزادہ صفی اللہ شامل ہیں، ان کے علاوہ آئین اور قانون کے ممتاز ماہرین میں خود اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، حفیظ پیرزادہ ، مولانا ظفر احمد انصاری، جسٹس (ر) عزیز بھٹی بھی شامل ہیں، تاہم ان میں سے کسی نے قادیانی کا مقدمہ پیش کرنے والوں سے سوال نہیں کیا۔ یہ ذمہ داری اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے سپرد کی گئی کہ وہ سوال کریں اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے ارکان خاموشی اور تحمل سے مرزا غلام احمد کے ترجمانوں کے جواب سنیں اور یہ حضرات اپنے دین و مذہب، مرزا غلام احمد کے دعویٰ نبوت، ختمِ نبوت کے بارے میں اپنے عقیدے اور مرزا قادیانی کو جھوٹا اور دروغ گو سمجھنے والی مسلمانوں کی اکثریت کے بارے میں جو سوچ رکھتے ہیں، اس کا پورے اطمینان کے ساتھ اظہار کریں، تاکہ یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ مرزا ناصر، صدرالدین اور حکیم نورالدین کے بیٹے کو آزادی سے بغیر کسی دبائو کے بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ سوال وجواب کا عمل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل نے خصوصی کمیٹی سے اپنے خطاب میں مرزا کے ترجمانوں کے جواب کے ضروری نکات پیش کیے اور یہ واضح کیا کہ انہوں نے اس ساری کارروائی میں ایک وکیل کا کردار ادا کیا اور ساری کارروائی کمیٹی کے سامنے ہے اور دوسرے فریق کے جواب بھی پوری وضاحت کے ساتھ سامنے ہیں۔ ان کی روشنی میں قومی اسمبلی کی کمیٹی کو فیصلہ کرنا ہے۔ یحییٰ بختیار نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ ان کی اس معاملے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) سے بات ہوئی اور وہ بھی قادیانیوں کے بارے میں ایک عام مسلمان کا سا عقیدہ رکھتے ہیں۔ دستور پاکستان میں ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی منظوری کے بعد خصوصی کمیٹی سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا خطاب (جو کتاب کا حصہ ہے) مرحوم کے دلی جذبات کا اظہار ہے۔
قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں قادیانیوں کے تین بڑوں پر ہونے والی جرح، ان کے جوابات اور دوسری تفصیلات کو پوری ذمہ داری، توجہ اور احتیاط کے ساتھ کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ ساری کارروائی قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں تحریر اور آواز کی صورت میں محفوظ ہے۔ میں اپنی اس کاوش کو اپنے لیے وجہ افتخار سمجھتا ہوں۔ میرا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ میں احراری باپ کا بیٹا ہوں، میرے والد گرامی سید محمد دائود بخاری (مرحوم) امیرِ شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے بہت قریبی نیازمندوں میں شمارہوتے تھے۔میرے بڑے بھائی حکیم سید محمود احمد بخاری (مرحوم، سروسہارنپوری)53ء کی تحریک ختم نبوت میں نوعمری میں گرفتاری دینے والوں میں شامل تھے۔ ہم بھائیوں کو حضرت امیر شریعت کی قدم بوسی کی سعادت بھی ملی۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں سے نفرت ہمارے خون میں شامل ہے۔ عمر کے اس حصے میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی روداد کو کتابی صورت دینے کی توفیق بھی رب کریم نے دی ۔ قارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ اس کا مطالعہ فرمائیں تو میرے والد اور بھائی صاحب کی مغفرت کی دعا فرمائیں اور میرے لیے خصوصی طور پر دعا کریں کہ رب کریم اپنا محتاج رکھے اور چلتے ہاتھ پائوں اپنے پلاس بلالے، اور میری سعادت مند اولاد کو دین و دنیا میں سرفراز فرمائے۔ (آمین)‘‘
ایک فاضل شخص نے نہایت ذمہ داری سے یہ تکلیف دہ روداد مرتب کردی ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کا مطالعہ کرے اور دشمنانِ رسالت کے خیالات سے محفوظ رہے۔
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوئی ہے، رنگین سرورق سے آراستہ ہے، مجلّد ہے۔