پیشکش:ابو سعدی
۔19فروری 1948ء کو آسٹریلیا کے عوام سے ان کے قومی دن کے موقع پر قائداعظم نے مفصل خطاب فرمایا۔ اس میں انہوں نے آسٹریلوی عوام سے پاکستان اور پاکستانی قوم کا مفصل تعارف کروایا۔ انہوں نے کہا:
’’نہ صرف یہ کہ ہم میں سے بیشتر لوگ مسلمان ہیں، بلکہ ہماری اپنی تاریخ ہے، رسوم و روایات ہیں اور آئیڈیالوجی ہے۔ وہ نظریہ اور سوچ ہے جس سے قومیت کا شعور ابھرتا ہے۔‘‘
آسٹریلوی قوم چونکہ بنیادی طور پر یورپی کلچر کی نمائندہ ہے اس لیے قائداعظم نے ان سے خطاب کرتے ہوئے نئی اسلامی ریاست کے سیاسی فلسفے کی وضاحت بھی مناسب سمجھی۔
آپ نے فرمایا:
’’ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ ہم اسلامی ملت و برادری کے رُکن ہیں جس میں حق، وقار اور خودداری کے تعلق سے سب برابر ہیں۔ نتیجتاً ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے۔ لیکن غلط نہ سمجھیے۔ پاکستان میں کوئی نظامِ پاپائیت رائج نہیں ہے، اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اسلام ہم سے دیگر عقائد کو برداشت کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ اُن لوگوں کے گہرے اشتراک کا پُرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں جو پاکستان کے سچے اور وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار اَدا کرنے کے لیے آمادہ اور رضامند ہوں۔‘‘
(ماہنامہ طلوع اسلام:جلد چہارم، صفحہ 416)
قرآن پاک کا میواتی زبان میں ترجمہ
پانی پت: تحقیقی کتاب ’تمدن میوات‘ کے مصنف قیس چودھری چھر کلوت کی دختر تارا قیس میو نے قرآن پاک کا میواتی زبان و ادب میں ترجمہ کرکے تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے، جس پر نظرثانی تارا قیس کے والد چودھری کررہے تھے۔ قیس چودھری درجنوں کتابوں کے مصنف اور ادیب ہیں۔ زیر بحث اس قرآنی ترجمے کا رسم الخط تو اردو میں ہے، البتہ اس کے الفاظ اور توضیحات میو زبان میں ہیں۔ لختِ جگر تارا قیس کا کہنا ہے کہ میرے ترجمے کو میرے والد تنقیدی نگاہ سے دیکھیں تو یہ میرے لیے فخر کی بات ہے۔ ایک دوسر ے دانشور ریاض نور کا کہنا ہے کہ ہندو پاک میں میواتی زبان میں قرآن پاک کے حوالے سے غالباً یہ پہلا کام ہے۔ میواتی کلچرل ترانہ نغمہ نگار ریاض نور میو نے تارا قیس کے اس کام کی ستائش کرتے ہوئے بتایا کہ ساری دنیا کی میو برادری کو تارا قیس کی اس فخریہ کاوش پر ناز ہے، کیونکہ تارا قیس کے اس عمل سے قوم اور مذہب سے جہاں محبت کا اظہار و تعلق واضح ہوتا ہے، وہیں میواتی زبان و ادب کی خدمت بھی نمایاں نظر آتی ہے۔
(روزنامہ ’انقلاب‘ دہلی، 15نومبر 2018ء)
ڈگری پر ڈگری
علامہ اقبال
علامہ اقبال نے جب کیمبرج یونیورسٹی سے بی۔ اے کرلیا تو ان کے بڑے بھائی نے انہیں لکھا کہ’’اب بیرسٹری کا کورس پورا کرکے واپس آجاؤ۔‘‘ لیکن علامہ کا ارادہ پی ایچ ڈی کرنے کا تھا۔ اس لیے انہوں نے بھائی کو لکھا کہ
’’کچھ رقم بھیجیے تاکہ جرمنی جاکر ڈاکٹری کی سند لے لوں۔‘‘ انہی دنوں میں وہ ایک روز سیالکوٹ میں اپنے بے تکلف دوستوں کی صحبت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے ان سے دریافت کیا:
’’کیوں شیخ صاحب! سنا ہے اقبال نے ایک اور ڈگری لی ہے؟‘‘
ان کے بھائی نے جواب دیا:
’’بھئی کیا بتلاؤں، ابھی تو وہ ڈگریوں پر ڈگریاں لیے جارہا ہے۔ خدا جانے ان ڈگریوں کا اجراء کب ہوگا؟‘‘
ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے
بہادر شاہ ظفر
ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے
غرور چھوڑ دو اے غافلو خدا کے لیے
گرا دیا ہے ہمیں کس نے چاہِ الفت میں
ہم آپ ڈوبے کسی اپنے آشنا کے لیے
جہاں میں چاہیے ایوان و قصر شاہوں کو
یہ ایک گنبد گردوں ہے بس گدا کے لیے
وہ آئینہ ہے کہ جس کو ہے حاجتِ سیماب
اک اضطراب ہے کافی دلِ صفا کے لیے
تپش سے دل کا ہو کیا جانے سینے میں کیا حال
جو تیرے تیر کا روزن نہ ہو ہوا کے لیے
طبیبِ عشق کی دکاں میں ڈھونڈتے پھرتے
یہ دردمند محبت تری دوا کے لیے
جو ہاتھ آئے ظفرؔ خاک پائے فخرالدین
تو میں رکھوں اسے آنکھوں کے توتیا کے لیے
بارہ سنگھا
شوکت تھانوی
پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس۔ پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری جز’’سنگھا‘‘ تھا۔ جب ان کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں۔ اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا:
’’آپ اس کا نام ’بارہ سنگھا‘ رکھ دیجیے۔‘‘
عقل اور عمر
عمر بن عبدالعزیز (717۔720ء) کے ہاں ایک وفد آیا، ایک نوجوان کچھ کہنے لگا تو عمر نے کہا: تم خاموش رہو اور کسی بزرگ کو بولنے دو۔ نوجوان نے جواب دیا: اے امیر المؤمنین! عقل و دانش کا تعلق سن و سال سے نہیں، ورنہ آپ کی مسند پر کوئی بزرگ تر آدمی فائز ہوتا۔ خلیفہ کو یہ نکتہ بہت پسند آیا اور نوجوان کو شاباش دی۔
(ماہنامہ چشم بیدار، اکتوبر 2018ء)