چینی سفیر سے سراج الحق کی ملاقات

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پاکستان میں چینی سفیر یائوجنگ سے اسلام آباد میں ملاقات کی ۔ میاں محمد اسلم اور ڈائریکٹر امور خارجہ عبدالغفار عزیز بھی موجود تھے ۔ سراج الحق نے کہاکہ پاک چین تعلقات کی مضبوطی علاقائی ترقی اور استحکا م کے لیے ناگزیر ہے ۔ اہم عالمی اور قومی مسائل پر دونوں ملکوں کا تعاون ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے ۔ ملاقات میں پاکستان ، افغانستان ، کشمیر اور چینی مسلمانوں سمیت دو طرفہ دلچسپی کے موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی گئی ۔ سراج الحق نے کہاکہ کشمیر پر چین کا مستقل اور مضبوط مؤقف پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے ڈھارس اور حوصلے کا سبب ہے۔ انہوںنے اس امید کا ا ظہار کیا کہ بڑھتے ہوئے بھارتی مظالم کو رکوانے کے لیے چین مزید مؤثر سفارتی اور سیاسی اقدامات اٹھائے گا۔ سینیٹر سرا ج الحق نے کہاکہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے اعلان کے بعدچین پاکستان اور افغانستان کی قیادت کا باہمی اتفاق پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہوگیا ہے ۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر آناہوگا ۔ تما م ممالک کو یک جان ہو کر مشترکہ اقدامات اٹھانا ہوں گے ۔افغانستان میں امن سی پیک کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے ۔ افغانستان میں اس وقت تک امن و استحکام نہیں آسکتا جب تک تمام افغان دھڑے متحد نہیں ہوتے ۔انہوںنے کہاکہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی بھارتی مداخلت اور اسے حاصل ا مریکی سرپرستی ناصرف افغانستان بلکہ پاکستان اور چین کے لیے بھی سنگین خدشات پیدا کر رہی ہے ۔ چینی سفیر نے چین کے مسلمانوں اور سنکیانگ کی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ چین کسی بھی علاقائی ، نسلی یا مذہبی تقسیم سے بالاتر ہو کر اپنے ہر شہری کی ترقی کے لیے یکساں حقوق اور مواقع کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ امیر جماعت اسلامی نے کہاکہ چینی مسلمانوں کے بارے میں عالمی ذرائع ابلا غ میں آنے والی خبروں سے عالم اسلام میں گہر ی تشویش پائی جاتی ہے ۔

امریکی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے محرومی اور وائٹ ہاؤس میں فاسٹ فوڈ پارٹی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت کے شٹ ڈاؤن کی وجہ سے عملے میں تخفیف کے دوران وائٹ ہاؤس میں فاسٹ فوڈ پارٹی کا اہتمام کیا۔ انھوں نے نیشنل فٹ بال چیمپئن شپ جیتنے والی ٹیم کلیمزن ٹائیگرز کے اعزاز میں دعوت دی جس میں تین سو سے زیادہ برگر، پیزا اور فرائز منگوائے گئے۔ انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے ہم نے امریکی فاسٹ فوڈ کا آرڈر دیا جس کے پیسے میں نے خود دیے۔ اس کی وجہ سے 80 ہزار سے زیادہ سرکاری ملازم متاثر ہوئے ہیں، جن میں وائٹ ہاؤس کا عملہ بھی شامل ہے۔ انھیں 24 دن سے تنخواہ نہیں ملی اور وہ جبری رخصت پر ہیں۔
شٹ ڈاؤن کی وجہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے کہہ دیا ہے کہ جب تک انھیں کانگریس کی طرف سے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے لیے پانچ ارب 70 کروڑ ڈالر کی رقم نہیں ملے گی، اُس وقت تک وہ وفاقی بجٹ منظور نہیں کریں گے۔ اسی بجٹ سے سرکاری ملازموں کو تنخواہ ملتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے پارٹی کے بعد کہا: ”ہم نے 300 ہیم برگر اور بہت سی فرنچ فرائز کھائیں جو ہم سب کا پسندیدہ کھانا ہے“۔ جب ایک نامہ نگار نے ان سے پوچھا کہ ان کا پسندیدہ کھانا کون سا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: ”اگر یہ امریکی کھانا ہے تو مجھے پسند ہے۔ یہ سب امریکی کھانا ہے“۔ اس سے قبل یہ خبریں آئی تھیں کہ صدر ٹرمپ کا پسندیدہ کھانا ہیم برگر ہے اور وہ اکثر میکڈونلڈ سے برگر منگوا کر کھاتے ہیں۔ بعض حلقوں نے اس پر ان کا مذاق بھی اڑایا تھا۔

علاقائی سوچ اور حقائق

کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اصولی طور پر درست ہوتی ہیں مگر حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان پر گفتگو نہ کی جائے، یا کم از کم یوں کہہ لیجیے کہ کھلے عام انہیں زیر بحث نہ لایا جائے۔ مثال کے طور پر اس پر ایک لمبی بحث چلی ہے کہ قومی ریاستوں کے تصور نے انسانیت کو کیسے بانٹا ہے، تاہم ایک خاص تناظر میں جب ہم قومی ریاست یا نیشن اسٹیٹ کے خلاف مقدمہ بناتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں جغرافیائی حدود میں نہ بانٹو، ملتِ اسلامیہ ایک وحدت ہے،تو پہلا ڈر یہ ہوتا ہے کہ کہیں ہم مملکتِ خداداد کے خلاف کوئی فضا تو نہیں پیدا کررہے۔ ہمارے بعض دوست بڑی سلاست اور عمدگی کے ساتھ یہ کہہ جاتے ہیں کہ ہم نے ملتِ اسلامی کو ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے۔ لیکن فی زمانہ اس بات کو کہنے میں ایک خاص احتیاط کی ضرورت ہے۔ پھر نیشن اسٹیٹ تو ایک ایسا تصور ہے جس کے خلاف آواز اٹھانے والوں اور اس کی پیدا کردہ خرابیاں گنوانے والوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ تو میں نے ایک مثال سرسری سی دے دی، مگر بے شمار مثالیں اس ذیل میں موجود ہیں۔ یہی صوبائی خودمختاری کا مسئلہ لے لیجیے، یوں لگتا ہے کہ وطن کو خدا کہنے والوں کے خلاف نکتہ نظر نے پاکستان بنایا، اب پاکستان کے اندر ہم وطن کو نہیں صوبوں کو خدا کہہ رہے ہیں، دیکھنا صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی نہ ہوجائے، دیکھنا 18ویں ترمیم کے آبگینے کو کوئی ٹھیس نہ لگ جائے، دیکھنا وفاق صوبوں کے حقوق غصب نہ کرلے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اُن حقوق کی بات نہیں کرتے جو صوبوں نے غصب کررکھے ہیں۔ پنجاب میں آج کل یہ کہا جارہا ہے کہ وسطی پنجاب نے جنوبی پنجاب کے حقوق پر چھاپہ مار رکھا ہے۔ پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ کراچی میں یہ احساس ہے کہ سندھ کے ہاتھوں کراچی کے حقوق سلب ہورہے ہیں۔ یہ میں ہر صوبے کے بارے میں الگ الگ گنوا سکتا ہوں۔ قوم کو قومیت میں تقسیم کیا، پھر قومیتوں کو ذیلی شاخوں میں بانٹا جارہا ہے۔ بلوچستان میں بلوچ اور پٹھان بالکل الگ الگ طرح اپنا اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ یہ ساری بات مجھے اس لیے یاد آرہی ہیں کہ آج پیپلز پارٹی سندھ کارڈ کو پھر چلا رہی ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ سندھ کا پانی چوری کیا جارہا ہے۔ اس کی گیس اس سے چھینی جارہی ہے۔ یہ بات ذرا دوسری طرف نکل گئی، میں خود کو صرف اس بات تک محدود رکھنا چاہتا تھا کہ صوبے یوں خدا بن بیٹھے ہیں کہ انہوں نے وفاق سے جو وسائل اور اختیارات لیے ہیں وہ بلدیات یا اضلاع کو دینے کو تیار نہیں ہیں۔ پرویزمشرف کے زمانے میں یہی دلیل دی گئی کہ مرکزی آمرانہ حکومت نے صوبوں کو نظرانداز کرکے بلدیات کو براہِ راست بااختیار بنادیا ہے۔ یہ صوبے ختم کرنے کے مترادف ہے، اس لیے ناقابلِ قبول ہے۔ یہ جو کراچی کے اختیارات کی بات کی جاتی ہے، بظاہر تو یہ کہا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت تو سندھیوں کی بنتی ہے اور کراچی کی آبادی زیادہ تر غیر سندھیوں کی ہے۔ سندھی اس طرح مہاجروں اور کراچی والوں کے حقوق کھا جاتے ہیں۔ تاہم یہ میں نے جو سندھی اور غیر سندھی کا لفظ استعمال کیا، اسے قانونی انداز میں چاہے کچھ اور کہہ لیجیے، یا ذرا احتیاط کرکے اندرون سندھ وغیرہ کی اصطلاحات استعمال کرلیجیے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی میں یہی احساس پایا جاتا ہے۔ اب میں اسے آگے لے جانا نہیں چاہتا۔ یعنی یہ بتانا نہیں چاہ رہا کہ اندرون سندھ اس بارے میں کیا کہا جاتا ہے۔ پھر ہم اپنے مقدمے کو طاقت دیتے ہیں، دلائل مہیا کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہنا کہ کراچی ملک کا ستر فیصد ٹیکس دیتا ہے، ایک درست بیانیہ نہیں۔ ہم نے تمام ملک کے مالیاتی ادارے، بینک وغیرہ سب کراچی میں بنا لیے۔ اس پر تجارتی اداروں نے بھی اپنے مرکزی دفاتر آسانی کے لیے کراچی میں کھول لیے۔ کارخانہ یا کاروبار چاہے فیصل آباد میں ہو، مگر دفتر کراچی میں۔ کسٹمز ڈیوٹی ہی نہیں، سارے ٹیکس وہیں ادا ہوتے ہیں۔ یہ پورے ملک کے ٹیکس ہیں جو کراچی کے ایڈریس پر وصول کیے جاتے ہیں، مگر ہم نے شور مچا رکھا ہے کہ کماتا سندھ ہے، کھاتا پورا پاکستان ہے۔ کراچی کے لفظ کو بھی ہم سندھ سے بدل دیتے ہیں۔ بعض اوقات بعض فیصلے کرتے ہوئے بھی اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ ہمارا صوبائی بیانیہ تقویت پکڑے۔
(سجاد میر۔روزنامہ دنیا۔پیر 14 جنوری 2019ء)